رضائے ربّ کی خاطر،استقامت و ثابت قدمی لازمی روشنی

حافظ عبد الرحمٰن

روئے زمین کی سب سے بڑی صداقت رب تعالیٰ کی کبریائی اور ذات باری تعالیٰ کی عظمت ہے، جسے ہر کوئی ضرور تسلیم کرتا ہے ،خواہ زبان سے اقرار نہ کرے۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کے سامنے دنیاوی و اخروی فو زو فلاح اور کامیابی و کامرانی کا وہ نظریۂ حیات عطا کرتا ہے جس پر مستقل مزاجی سے گامزن رہنے والا نہ صرف آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی زندگی کے عیش و آرام کے حصول میں کامیاب ہو سکتا ہے، بلکہ اس دنیاوی زندگی کو بھی پرسکون و مطمئن انداز میں تسلیم و رضا کے سانچے میں ڈھال کر کامیاب بناسکتا ہے، جس طرح کسی بھی مذہب کے ماننے والے کے لئے مستقل مزاجی کا تقا ضا کیاجاتا ہے، بعینہ اسلام بھی اپنے ماننے والوں سے اس عظیم اظہار عبدیت کا مطالبہ کرتا ہے کہ جب انسان اللہ ہی کو اپنا ملجا و ماویٰ تسلیم کرے تو پھر حق بندگی کا تقاضا ہے کہ ایسا بندہ بس اپنے رب کا ہی ہو کر رہے اور استقامت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے ہرمعاملے اور لمحات میں اپنے خالق ومالک کا غلام بن کر رہے اور اپنے رب کو چھوڑ کر ادھر ادھر کہیں نہ دیکھے۔
تب ایسے مومن بندوں کے لئے ان کے رب کی طرف سے خوش خبریاں ہیں کہ ان کا مالک انہیں ایسی جنتوں کا حقدار بناتا ہے، جن کی آسائشوں ولذتوں کا دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کسی بھی کام کےانجام دینے میں مسلسل جدوجہد اور کوشش کرنے کا نام استقلال یا استقامت کہلاتا ہے۔ استقامت کے بغیر دین و دنیا کا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا اور ہر اس کام کو جسے حق سمجھا جائے صحیح طو رپر حاصل کرنے کے لئے صعوبتیں برداشت کی جائیں، تاہم صحیح بات سے انحراف نہ کیا جائے اور نہ ہی منہ پھیرا جائے، خواہ اس راہ میں کتنی ہی تکالیف کیوں نہ آئیں، اسی کو استقامت کہتے ہیں۔ استقلال یا استقامت کسی بھی مقصد میں کامیابی کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔
جن لوگوں میں ہمت و استقامت نہیں ہوتی ،وہ کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ سچی لگن اور اپنے مقصد پر نگاہ انسان کو ہمت و طاقت فراہم کرتے ہیں اور جب یہی عظیم وصف اللہ کی رضا جوئی کے حصول کی خاطر دین کے لئے ہوتو اسے استقامت فی الدین کے پاکیزہ عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شرعی حیثیت سے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں استقامت فی الدین کی بڑی اہمیت و فضیلت اور تاکید بیان کی گئی ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: پس آپ سیدھے استقامت سے چلئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے (اس پر آپ) اور (وہ) جس نے آپ کے ساتھ توبہ کی اور حد سے نہ بڑھو، بے شک، اللہ تمہارے تمام کاموں کو دیکھنا ہے۔(سورۂ ھود)
معلوم ہوا کہ سیدھا اور سچا راستہ اللہ ہی کا راستہ ہے اور یہی وہ راہ ہدایت ہے جس پر بندۂ مومن کو استقامت کے ساتھ چلنا چاہیے ،چونکہ یہ رب تعالیٰ کا حکم بھی ہے اور فوز و فلاح کا ذریعہ بھی ۔ اگر تمہارے پائے استقلال میں لغزش آئی تو جان رکھو کہ تمہارا رب تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے اور وہ تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے یعنی تم اپنے خالق و مالک سے اوجھل نہیں ہو ،وہ تمہاری دلی کیفیات سے بھی آگاہ ہے۔
اگر تم نے حالات کی ستم ظریفیوں سے گھبرا کر کفر و الحاد کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اپنایا اور استقامت فی الدین سے منہ موڑا تو تمہارا رب اس سے خوب واقف ہے اور ایسے بندو ں کے لئے آخرت میں سوائے ندامت کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایک مقام پر استقامت فی الدین کی نصیحت اس انداز میں کی گئی۔(ترجمہ) بے شک، تمہارا معبود ایک (اللہ ) ہی ہے سو اس کی طرف سیدھے رہو یعنی اس پر قائم و دائم اور جمے رہو اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو۔(سورۂ حٰم سجدہ)
یعنی دنیا کی سب سے بڑی صداقت یہی ہے کہ پوری کائنات کا بلاشرکت غیرے خالق و مالک اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے اور وہی اس کانظام اپنی حکمت سے چلا رہا ہے، لہٰذا وہی ہماری تمام تر عبادتوں کا حقدار ہے، اسی کی طرف استقامت و استقلال کے ساتھ رجوع کئے رہو اور اسی سے اپنے بشری تقاضوں کے مطابق ہونے والی خطاؤں اور معصیات سے معافی طلب کرتے رہو ،چونکہ وہی معاف کرنے والا بھی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمارا ہر طرح کا ملجا و ماویٰ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور ہمیں ہر آن مستقل مزاجی کے ساتھ اسی کی طرف استقامت و استقلال کے ساتھ رجوع کرنا چاہیئے۔
یہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عظیم جوہر حیات کی یاد دہانی کے لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں تکرار ہوتی ہے، تاکہ ہر لمحے یہ استقامت فی الدین کا وصف ہمارے دلوں میں ہر دم جواں رہے۔ ہم ہر نماز خواہ فرض ہو یا نفل انفرادی ہو یا اجتماعی کسی بھی شکل میں ہو ،ہر رکعت میں اپنے رب سے یہی دعا کرتے ہیں۔ (ترجمہ) اے اللہ ہمیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما اور اس پر ہمیں قائم رکھ۔(سورۃالفاتحہ)
معلوم ہوا کہ سیدھی راہ کا حصول ہی کافی نہیں، بلکہ تادم آخر اس پر ثابت قدمی و استقامت بھی لازم ہے، وگرنہ گمراہی ہمیں بربادی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی بڑی اہمیت بیان فرمائی ہے، تاکہ اہل اسلام ہر نماز میں اپنے رب سے استقامت فی الدین کی دعا کرتے رہیں اور ان کا رب انہیں اپنی توفیق و رحمت سے حق پر قائم و دائم رکھے۔ اہل سلام کو اعلان حق اور اس پر استقامت کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: پس اسی (رب) کی طرف بلاؤ اور اسی پر ثابت قدم رہو، جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور ان نااہلوں (یعنی نفس امارہ اور کفار)کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ (سورۃ الشوریٰ)
گویا حق تعالیٰ شانہ کی توحید کی دعوت دینا اور اس دعوت پر سب سے پہلے خود استقامت و عزیمت کا مظاہرہ کرنا اور اس کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام پر صبرکرناہی اہل ایمان کا جوہرحیات ہے جو مومنانہ زندگی کو دنیاوی و اخروی کامرانی سے سرفراز کرتا ہے، اس لئے استقامت فی الدین کا حکم دیا گیا۔
اگر انسان غیر متوازن شخصیت اور کھلنڈرے پن کا حامل ہو تو وہ دنیا کا کوئی بھی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا۔ جب دنیاوی کاموں کی ادائیگی کے لئے استقلال ضروری ہے تو دین پر چلنے اور رب کی رضا کے حصول کی خاطر استقامت و ثابت قدمی انتہائی لازمی ہے۔