دُہری زندگی کا سفر افسانہ

ریحانہ شجر

انسپکٹر رِجاء زیدی نے آفس میں قدم رکھتے ہی پچھلے ہفتے ہوچکے سڑک حادثہ کیس کی فائل طلب کی۔جس میں ٹرک ڈرائیور نعیم ٹھاکر شدید زخمی ہوا تھا۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر جَواد نے فون کرکے اطلاع دی کہ ڈرائیور نعیم ٹھاکر ہوش میں آیا ہے آپ اسکا بیان لے سکتے ہو، لیکن زخم گہرے ہونے کی وجہ سےاس کی حالت ٹھیک نہیں ہے اور بھی ڈاکٹر جواد نے زخمی ڈرایئور نعیم ٹھاکر کے بارے میں اہم انکشاف کیا جس کو سن کر انسپکٹر رِجاء زیدی حیران ہوگئی۔ اس نے اپنے جونیئر انسپکٹر یاور حبیب سے پوچھا ڈرائیور نعیم ٹھاکر کے لواحقین کو خبر کر دی کہ نہیں۔ یاور حبیب نے کہا ’ میڈم ان کو کل ہی اطلاع دی گئی تھی‘، اس نے مزید کہا کہ ’لواحقین کے نام پر ڈرائیور نعیم ٹھاکر کی فقط ایک بیٹی ہے ، وہ اب تک ہسپتال پہنچ گئی ہوگی۔
انسپکٹر رِجاء زیدی آناً فانا ًہسپتال کی طرف روانہ ہوئیں اور تیزی سے زخمی ڈرائیور کے نزدیک ایک کرسی پر بیٹھ کر اس پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع کی لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ ڈرائیور نعیم ٹھاکر کے پُر سکون زرد چہرے پر اطمینان کی خوبصورت مسکراہٹ تھی۔
انسپکٹر رِجاء زیدی نے تیور بدل کے پوچھا ’اگر تمہارےپاس ٹرک سے متعلق تمام دستاویزات ہیں تو اپنا حلیہ بدلنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ سیدھے سیدھے بتا دو ،تم کون ہو تمہارا اصلی نام کیا ہے؟۔ کس کو دھوکہ دینے کیلئے اپنا حلیہ بدل دیا ہے ورنہ ہمارے پاس سچ اگلوانے کے اور بھی طریقے ہیں، انسپکٹر نے مزید پوچھا کہ تم کونسا ناجائز کام کرتی رہی ہو جس کے لیے تم کو عورت سے مرد بننے کی ضرورت آن پڑی ۔
ڈرائیور نعیم ٹھاکر کی بیٹی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور کچھ کہنے لگی۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہہ دیتی ڈرائیور نعیم نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا۔ بیٹی نے کہا ماں خدا کے لئے اب خود بتا دو آخر کب تک…… !
ڈرائیور نعیم ٹھاکر نےکہا ’ انسپکٹر صاحبہ ، میرا اصلی نام نعیمہ ٹھاکر ہے‘۔ ’میرے مقدر نے کچھ ایسی چال چلی جس کی وجہ سےمیں نے بہت پہلے اپنی شناخت بدل دی تھی‘۔ ’میرے لیے اپنی اصلی شناخت چھپانا کتنا مشکل تھا یہ میں اور میرےرب کے سوا کوئی نہیں جان سکتا‘۔
اس نے مزید کہا کہ آج سے تیس سال پہلے میری شادی اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے گائوں کے ایک حمزہ نامی لڑکے کے ساتھ ہوگئی۔شادی کے صرف اکیس دن بعد ہی حمزہ ایک سڑک حادثہ میں جان بحق ہوگیا۔ اس کے گزر جانے کے بعد مجھے پتہ چلا میں ماں بننے والی ہوں۔ والدین اس دارفانی سے پہلے ہی کوچ کر چکے تھے۔ایک بڑے بھائی صاحب تھے، جنہوں نے مجھے دلاسہ دے کر میرے حوصلے کو پست ہونے نہیں دیا۔ چند ماہ گزر جانے کے بعد میں نے کِسوا کو جنم دیا، زخمی ڈرائیور نے سامنے بیٹھی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کِسوا تین چار سال کی رہی ہوگی جب بھائی صاحب نے میرا دوسرا نکاح پڑوس کے گاؤں میں کرایا۔ شادی کے پہلے دن ہی مجھے پتہ چلا کہ دولہا اپنی ماں کے ساتھ ملکر میری بیٹی کِسوا کو بیچنے کی سازش کررہے ہیں۔ اسی شام کو دولہا نشے میں دُھت میرے سامنے اپنے ہوش و حواس کھو کر اوندھے منہ پڑا تھا اور اس کی ماں بھی گہری نیندسو رہی تھی ۔ میں چپکے سے رات کے اندھیرے میں وہاں سے اپنی بیٹی کو لے کر بھاگ گئی کیونکہ میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی بیٹی کے ساتھ ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔
انسپکٹر رِجاء زیدی نے پوچھا تمہیں کوئی خوف نہیں لگا ، اتنی رات کو اس طرح اکیلے نکلتے ہوئے۔
ڈرایئور نعیمہ ٹھاکر نےکہا زندگی نے اسقدر حیران کر دیا تھا کہ ڈر جیسی کوئی چیز میرے ذہن میں تھی ہی نہیں ۔
میں دوسرے دن بھائی صاحب کے پاس پہنچ گئی ۔ اس نے اپنے گھر میں رہنے سے صاف سے منع کردیا اور کہا’ تمہارے یہاں رہنے سے میرے گھر کا سکون برباد ہوجائے گا‘۔البتہ بھائی صاحب نے ایک مہربانی ضرور کی اُنہوں نے مجھے دوسرے شہر میں ایک دور کی رشتہ دار بزرگ عورت کے پاس چھوڑ دیا جس کا کوئی نہیں تھا اور جس کے پاس رہنے کو چھوٹا سا کمرہ تھا۔
اس نے میرا حال جان کر کہا، ’بیٹی بے بس عورت کو آدم شکلوں میں ہر جگہ درندے ہی ملتے ہیں،تمہارے لیے تو اور بھی مشکلیں ہونگی کیونکہ تم خوبصورت اور جوان ہو، تجھ جیسی پری پیکر کو حاصل کرنے کیلئے کسی بھی مرد کا ایمان ڈگمگا جائے گا‘۔
میں نے بزرگ اماں کو کہا ’میں محنت مزدوری کرکے اپنی بچی کی دیکھ بھال کرنا چاہتی ہوں‘۔
اس نے کہا کہ ’اس قصبے کے بیشتر لوگ ٹرک چلا کر اپنا گزارا اچھےسے کرتے ہی لیکن تم عورت ذات ہو ، کہاں کر پاؤ گی ،یہ سب عورتوں کا کام نہیں ہے اور اوپر سے اتنی دبلی پتلی ہومزدوری بھی تمہارے لئےمشکل ہے ۔
میں نے فورا کہا ’میں بھی ٹرک چلانا سیکھ لوں گی‘!
بزرگ اماں تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئی لیکن بعد میں جب اس نے کئی دنوں تک میرے کام کرنے کا جذبہ دیکھا توآکر کہنے لگی ،’اگر سچ مچ تم کو کچھ کرنے کا جنون ہے تو میرا ایک مشورہ ہے کہ تو تم اپنا حلیہ بدل دو‘۔ کافی سوچنے کے بعد میں نے بزرگ اماں سے کہا ’مجھے کیا کرنا ہوگا‘۔ اس نے کچھ ہفتوں میں میری شکل ہی بدل دی۔میرے بال چھوٹے کیے، مجھے مردوں کے طرز پر اٹھنا بیٹھنا یہاں تک کہ سینا تان کے چلنا پھرنا سکھایا۔ میں برقعہ اور پردہ چھوڑ کر قمیض اور پینٹ پہننے لگی۔ جب وہ میرے بدلے ہوئے بھیس سے مطمئن ہوئی تو اس کے بعد بزرگ اماں نے مجھے بستی کے ایک ٹرک ڈرائیور کے ساتھ کام پر لگوا دیا اور کہا ’نعیمہ اب پیچھے مڑ کے مت دیکھنا‘۔ ٹرک ڈرائیور کے ساتھ رہ کر میں چند مہینوں میں ٹرک چلانا سیکھ گئی۔ وہ دن اور آج کا دن تب سے بھیس بدل کر ٹرک چلا رہی ہوں۔ مزید کہنے لگی انسپکٹر صاحبہ میں نے دو زندگیاں جی ہیں۔ ایک میرے بچپن سے لیکر جب تک میری بیٹی کِسوا چار سال کی ہوگئی ، دوسری تب سے لیکر آج تک ، جہاں مردوں کی ٹولی میں بیٹھ کر ان کے ساتھ کام کیا۔ کبھی بیچ سڑک پر رات گزارنا پڑتی لیکن نہ میں نے ہمت ہاری اور نہ ہی کسی ڈر کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا۔ جب سے ٹرک چلایا ہے تب سے اب تک میں نے زمہ داری کے ساتھ یہ کام نبھایا ہے، کبھی کسی کونقصان نہیں پہنچایاہے۔ آج کا یہ حادثہ بھی میری غلطی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ طوفانی ہَوا سے پیڑ اُکھڑ کر میرے چلتے ہوئے ٹرک پر گر گیا، جس کے نتیجے میں خود زخمی ہوگئی ۔انسپکٹر صاحبہ اگر یہ ناجائز دھندا ہے تو میں مجرم ہوں۔ میں نے یہ ناجائز کام کیا ہے۔ اسی بھیس میں رہ کر بیٹی کو پڑھا لکھا کر اس کو ایک زمہ دار انسان بنایا۔اس روپ نے مجھے ان درندوں سے بچایا جو گھات لگائے عورت کو ہر موڑ پر کاٹ کھانے کی فراق میں رہتے ہیں ۔
انسپکٹر صاحبہ میری بےکسی کو ناجائز کام کا نام دیکر ایک مجبور ماں کوبے عزت نہ کر یں جس کی نیت صرف اپنے بچے کی پرورش اور اس کا مستقبل سنوارنا تھا۔
انسپکٹر رجاء زیدی نے معافی مانگی، کھڑے ہوکر اس عورت کا سلام کیا اور کہا ’ ڈرائیور نعیمہ ٹھاکر تم انعام کی حقدار ہو، جس بہادری سے تو نے خود کو اور اپنی اولاد کو ہر آفت سے بچایا قابل تحسین ہے۔
درد کی شدت سے تڑپ کر زخمی ڈرائیور نعیمہ ٹھاکر نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ’میرا انعام اسی دن مجھے مل گیا تھا جس دن میری بیٹی سافٹ ویئر انجینئر بن گی تھی، یقین مانو میری زندگی کا سفر آسان نہیں تھا، یہ کہتے ہوئے ڈرایئور نعیمہ ٹھاکر کو ایک ہچکی لگ گئی اور سو گئی ۔ بیٹی کِسوا نے بہت جگا نے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں جاگی۔ انسپکٹر رِجاء زیدی نے کسوا سے کہا ’،ایک لمبا سفر طے کر نے کے بعد اب اس کو ابدی نیند سونے دو‘۔
���
وزیر باغ، سرینگر، کشمیر
ای میل؛[email protected]