دور دراز سیارے پر فضا اور بادل دریافت | سیلاب کی اطلاع دینے والا سینسر تیار! رفتار ِٹیکنالوجی

ویب ڈیسک
اس ترقی یافتہ دور میں ماہرین حیران کن چیزیں تیار کررہے ہیں۔ اس ضمن میں جرمن ماہرین نے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ پر نظر رکھنے والا ایک مؤثر اور کم خرچ واٹر سینسر بنایا ہے جو شمسی توانائی کی مدد سےکام کرتا ہے۔ یہ ان علاقوں کے لیے موزوں ہے جو بار بار سیلاب کے خطرے میں رہتے ہیں۔ دریائی بہاؤ ناپنے والے روایتی آلات تیز رفتار بہاؤ میں اکثرٹوٹ پھوٹ کے شکار ہوجاتے ہیں، پھر اکثر آلات سے مستقل پیمائش لینا محال ہوتا ہے۔ اگرچہ جدید نظام بھی ہیں لیکن ان کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس آلے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق دریائے رائن کے زیریں حصے میں دو برس سے کام کررہا ہے۔ یہ پانی کی پیمائش مسلسل جاری کرتا رہتا ہے جسے ایک ایپ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ کم خرچ ہونے کی وجہ سے اس کے سینسر بہت سارے مقامات پر لگا کر پانی کے بہاؤ کی بہتر نگرانی کی جاسکتی ہے۔ اس میں جی این ایس ایس سینسر اور اینٹینا نصب ہے جو میٹر تک کی درستگی سے پانی کی پوزیشن اور بہاؤ نوٹ کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ امریکی جی پی ایس اور روسی گلوناس سیٹلائٹ بھی استعمال کرتا ہے۔ جی این این ایس اینٹینا کو کسی بھی انفرا اسٹرکچر پر لگایا جاسکتا ہے خواہ وہ عمارت ہو، کوئی پل ہو یا پھر دریا کے کنارے کوئی درخت ہی کیوں نہ ہو۔ یہ نظام شدید بارش اور سیلاب میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتا اور پانی کو چھوئے بغیر ہی ریڈنگ دیتا رہتا ہے جو کسی ریڈار سینسر کے بس میں بھی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی قیمت 150 یورو ہے۔ اس میں رسبری پائی کا مائیکروکمپیوٹر لگایا گیا ہے ،اس کی جسامت ایک اسمارٹ فون کے جتنی ہے۔ یہ سینسر سیلاب کی بروقت اطلاع دے سکتا ہے۔
دریں اثناجیمز ویب خلائی دوربین نے ایک دوردراز ارض نما سیارے میں پہلی مرتبہ فضا اور دیگر کیمیائی اجزا کی تفصیل سے پردہ اٹھایا ہے جو اس سے قبل ممکن نہ تھا اور جدید آلات کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔اس سیارے کا کانام ڈبلیو اے ایس پی 39 بی ہے ،جس پرفضا ہے، بادل ہے اور وہاں کیمیائی تعاملات (ری ایکشن) بھی ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں خلائی دوربین نے سیارے کی گہری معلومات بھی حاصل کی ہے۔
دوربین میں نصب جدید آلات نے کیمیائی عناصر اورمرکبات کی تفصیل دی ہے جو وسیع انفراریڈ (زیریں سرخ) طیف پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس طرح نظامِ شمسی سے پرے کسی دوسرے سیارے (ایگزوپلانیٹ) میں پہلی مرتبہ کاربن ڈائی آکسائیڈ دریافت ہوئی ہے، پھر اس کی فضا میں سلفرڈائی آکسائیڈ کا انکشاف بھی ہوا ہے جو اولین دریافت ہے، تاہم اگلے مرحلے میں وسیع ڈیٹا کا تفصیلی جائزہ بھی لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ڈبلیو اے ایس پی 39 بی کی دبیز فضا پر مزید غور کیا جائے گا۔ اگرچہ یہ ہوبہو زمین جیسا تو نہیں کیونکہ اس کی کمیت سیارہ مشتری کے برابر ہے جو اسے گیسی دیو بناتی ہے۔ یہ اپنے ستارے (سورج) کے گرد چارروز میں ایک چکر پورا کرلیتا ہے اور درجۂ حرارت تقریباً 871 درجے سینٹی گریڈ ہے۔