خود کشی کی ہار کہانی

رئیس صدیقی

رضوان نیند کی گولیوں کی پوری شیشی اپنے منھ میں انڈیلنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک جھٹکے سے وہ شیشی دور جا گری ۔سامنے دیکھا تو اس کی ماں کھڑی تھی جو روزانہ کی طرح آج رات بھی اس کے لیے گرم دودھ کا گلاس لیکر کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔ اپنی ماں کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا اور پھر دھیرے دھیرے اپنے آپ کوسنے لگا۔
مجھے مر جانے دیجیے۔ میں جینا نہیں چاہتا۔ میں فیل ہو گیاہوں۔میں نا کام زندگی نہیں گذار سکتا!
لیکن بیٹا ،بات کیا ہے جو تم خود کشی کرنا چاہتے تھے۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام اور ملکی قانون میں خود کشی حرام اور جرم ہے ۔ اپنے جسم کو کسی بھی طرح کی تکلیف دینا قطعی منع ہے۔
ماں، نویں کلاس کا نتیجہ آگیا ہے ۔کمال اول آیا ہے جو اکثر مجھ سے پوچھا کرتا تھا اور میں فیل ہو گیا ہوں ۔ یہ سب ہمارے کلاس ٹیچر رضوی صا حب کی وجہ سے ہوا ہے۔ کمال ان سے ٹیوشن پڑھتا ہے۔ انہوں نے مجھ سے بھی کئی بار ٹیوشن لینے کے لیے کہا لیکن مجھے اسکی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لیے رضوی صاحب نے مجھے اپنے سبجیکٹ فزکس میں فیل کر دیا ہے!
اس پر ماں حیران ہوتے ہوئے بولی: لیکن یہ اتنی بڑی بات تو نہیں ہے کہ تم خود کشی کرلو۔
رضوان نے اپنی تکلیف بتاتے ہوئے کہا :
ماں ، یہ میرے لیے بہت بڑی بات ہے ۔ میں لوگوں کو کیا منھ دکھائونگا۔ لوگوں کو کیسے سمجھائونگا۔ میں فیل ہونے کی شرمندگی کے ساتھ اسکول کیسے جا سکتا ہوں! میں رضوی صاحب کی کسی سے برائی بھی نہیں کر سکتا ہوں ۔ یہ آپ ہی کی تاکید ہے کہ کسی کی غیبت نہیں کرنا چاہیے۔
اسکی ماں نے رضوان کی ذہنی کیفیت کا بہ خوبی اندازہ لگالیا تھا۔ اس لیے وہ اسکے پاس بیٹھ گئی اور بڑے لاڑ و پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی:
بیٹا ، تم صرف نویں کلاس کے ایک سبجیکٹ میں فیل ہونے پر اپنی جان دینے کے لئےآمادہ ہو گئے۔ دسویں اور بارھویں کے بورڈ کے امتحان میں کیا ہر بچہ پاس ہو جاتا ہے ؟ کیا ہر بچہ بی اے، ایم اے میں پاس ہو جاتا ہے؟ ہندوستان کی سب سے بڑی ملازمت، آئی اے ایس میں ہر لڑکا پہلی کوشش میں کامیاب نہیں ہوتا ہے ۔ کوئی دو بار میں پاس ہوتا ہے تو کوئی تین بار میں ۔ کوئی کبھی پاس ہی نہیں ہو تا ہے۔ کیا فیل ہونے والے یہ بچے خود کشی کر لیتے ہیں؟ ۔ نہیں وہ ایسا نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ وہ صوبہ کی اعلیٰ سروس اسٹیٹ پبلک سرس کمیشن کا امتحان دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس میں بھی پاس نہیں ہوتے ہیں تو کیا یہ سب بچے خود کشی کر لیتے ہیں ؟ نہیں ، بالکل نہیں!
یہ بچے زندگی کو کامیاب اور بہتر بنانے کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرتے ہیں یا کوئی دوسرا مناسب راستہ اختیار کرتے ہیں۔لیکن تمہاری طرح کوئی مرنے کی نہیں سوچتا ہے!
دنیا میںکامیاب اور بڑے لوگوں میں شمار ہونے والوں کی زندگی میں جھانکو، انکی زندگی کے بارے معلومات حاصل کرو۔ ان کی زندگی کے بارے میں مضمون اور کتابیں پڑھو، تو تمہیں معلوم ہوگا کہ انہوںنے آسانی سے کامیابی حا صل نہیں کی ہے۔ بہت سے ایسے سائنس داںہوئے ہیں جنکا اسکول میں پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا اور ایک سائنس داں، تھا مس ایڈیسن کو تو غبی اور کند ذہن کہہ کر اسکول سے نکال دیا گیا تھا جبکہ وہ بڑے ہوکر لائٹ بلب اور بہت سی ایجادات کے مؤ جد بنے۔ بہت سے ایسے کامیاب اور بڑے تاجر ہوئے ہیں جو اپنی اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں کر سکے۔ بہت سے سیاست داں اورسماج کے بڑے لوگوں کو نا انصافی، بھید بھائو، سازش، بے جا طرفداری، سفارش اور رشوت کے خلاف ایک لمبی لڑائی لڑنی پڑی ہے ۔ کامیاب لوگوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو سونے یا چاندی کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ۔ہربڑے آدمی نے بہت جد و جہد اور رات دن محنت اور کوششوں کے بعد کامیابی و کامرانی پائی ہے۔
رضوان بہت غور سے اپنی ماں کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ بولا۔
ماں،آپ بجا فرما رہی ہیں لیکن مین بہت جذباتی اور حسّاس ہوں۔
ماں نے اس کو ممتا بھری نگاہوں سے دیکھا اور بہت پیار سے اسکے سر پر آہستہ آہستہ شفقت بھراہاتھ پھیر تے ہوئے کہا:
بیٹا، جذباتی اور حساس ہونا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس کو اپنی کمزوری مت بنائو۔ اس کو اپنی طاقت بنائو۔ ہمیشہ ہمت اور حوصلہ رکھو اور بڑی سے بڑی پریشانی اور ناکامی پر دل مت چھوٹا کرو۔ زندگی کو ایک جنگ سمجھو اور اس کا بہت صبر اور سنجیدگی سے مقابلہ کرو۔ آخر میں لگاتار کوشش ، لگن اور جی توڑ محنت سے فتح اور کامیابی تمہارا مقدر بن جائے گی !
اسی دوران رضوان کے والد بھی کمرہ میں آگئے اور خاموشی سے ماں بیٹے کی باتیں سنتے رہے۔وہ بہت خوش تھے کی ماں اپنے بیٹے کو بہت تسلی اور پیار سے سمجھا رہی تھی ، بیٹے کی کونسلنگ کر رہی تھی ۔ ان سے خاموش نہ رہا گیا۔وہ اچانک اسکے سامنے آکر بول اٹھے:
بیٹا ، ہمارے پیار نبیؐ ، تمام صحابیوں اور نیک دل بادشاہوں تک نے اپنی پوری زندگی
بے حد جد و جہد میں گزاری ہے ۔ ایسے عظیم لوگوں نے بھی دنیاوی پریشانی، تکلیف اور سازشوںکا سامنا کیا ہے لیکن انہوں نے تمام تکلیف دہ مسائل کو صبر و تحمل، سلیقہ اور سمجھداری سے حل بھی کیاہے۔ وہ کبھی زندگی سے ہارے نہیں۔ انہیں کبھی خودکشی کے بارے میں خیال تک نہیں آیا۔ ان کی زندگی ہمارے لیے کسی گائیڈ، کسی کونسلر ، کسی رہنما،کسی روشنی اور کسی مشعل سے کم نہیں ہے ۔
یہ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ سرکاری یا پرائیویٹ ، ہرچھوٹی بڑی ملازمت یا تجارت کرنے کے دوران ، لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے، ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہیں، رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں، سازشوں کا جال بنتے ہیں،مذہب، علاقہ، ثقافت اور زبان کا سہارا لے کر ا متیاز، بدگمانی اور تعصب پیدا کرتے ہیں یعنی ہمیں زندگی بھر اپنے وجود کی پہچان بنائے رکھنے کے لیے جدو جہد کرتی رہنی پڑتی ہے!
زندگی میں ہر شخص کو نا پسندیدہ باتوں ، تکلیفوں، بھید بھائو اور سازشوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پھول اپنے ساتھ کانٹے بھی رکھتے ہیں۔ زندگی پھول اور کانٹوں کے ساتھ گزارنی پڑتی ہے ۔خوشی اور شادمانی کے ساتھ ساتھ، رنج و غم بھی زندگی کالازمی حصہ ہیں ۔ مجھے تو غالب کے اس شعرسے زندگی بسر کرنے کا حوصلہ ملتا رہتا ہے ۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
���
سابق آئی بی ایس آفسر آکاشوانی دوردرشن
موبائل نمبر؛9810141528