خود سَر نوجوان نسل بُرائی کی طاقت بن جاتی ہے

بے شک جو انسان ارادہ کا پکّا ہو ،وہ حالات کو اپنی مرضی کے موافق ڈھال سکتا ہےاور جو انسان اپنی ہی ذات کے متعلق سوچتا ہے وہ جاہل اور بیوقوف ہے،اس لئے عقل کی جستجو میں رہنے والوں کو ہر حال میں یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی و ترویج میں نو جوانوں کا بڑا کردار ہوتا ہے اور معاشرے کے مستقبل کے روشن یا تاریک ہونے کا دارو مدار اُس کے نوجوانوں کے رویے اور طرزِ حیات پر ہوتا ہے اورملت اور معاشرے کی بقا کی خاطر سب سے اہم کردار نوجوانوں کا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس ملت و معاشرے کے بڑ ے،بزرگ اپنے نوجوانوں کی تربیت کرنے ، اُن کےلئے اعلیٰ تعلیم کا اہتمام کرنے ، اپنے معاشرتی نظریات اور مفادات کی حفاظت کرنے والے مقاصد و اہداف اُن تک منتقل کرنے سے غافل رہے، اُس معاشرے و ملت کا مستقبل تاریک رہا ہے۔ اس لئے یا د رکھنا لازم ہے کہ جب کسی معاشرےکو مایوسی یا حالات کی تنگ دستی نے دامن پکڑ لیا ہو تو ایسے دور میں کسی معجزے یا کرشمہ قدرت کا انتظار کرنے کے بجائے ہر کسی کی توجہ اور توقع نوجوانوں پر مرکوز ہوجانی چاہئے۔نوجوان کتنے ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائیں ،اُن کی سمت کا تعین کرنے میں اُن کے بڑوں کا ہی کردار ہوتا ہے ۔ہمارے اسلاف نے قوم کی بقاء کے لئے، باہمی اتحاد ، منظم کارکردگی اور عزم و استقلال جیسی خوبیوں کا ہونا لازمی قرار دیاہے۔تاریخ بھی شاہد ہے کہ معاشروںکے قیامِ امن اور ترقی میں جو کردار نوجوان نسل ادا کرچکی ہے، وہ کوئی اور نہیں نبھا سکا ہے۔ان پہلوؤں سے اگر ہم اپنی معاشرے اور اس کے نوجوانوں کا جائزہ لیں، اپنے تعلیم و تربیت کے نظام اور اس کے مقاصد و اہداف کا تجزیہ کریں اور اپنے دانش وروں، مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں کے افکار و خیالات اور کارکردگیوں پر نظر ڈالیں ، تو انتہائی دُکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ اُنہوں نے مستقبل کے اِن معماروں کی وہ قدر نہیں کی ہے جس کے وہ حقدار تھے۔اُن کی تعلیم و تربیت کا بہتر نظام قائم کرنے کے لئے نہ متحرک رہے اور نہ ہی اُنہیں معاشرتی نظریات اور قومی اہداف سے روشناس کراکے اُن کے اندر وفاداری اور لگاؤ پیدا کرانے کا جذبہ پیشِ نظر رکھا ۔ لہٰذا اُسی غفلت و کوتاہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے زیادہ تر نوجوان ادنیٰ مقاصد و مفادات کے غلام بن کر جی رہے ہیں۔ اُنہیں معاشرےکے مستقبل یااس کی عزت سے کوئی سروکارنہیں اور نہ اپنے ورثے اور اپنی تہذیب و تمدن سے کوئی لگاؤ ہے۔ وہ اپنے معاشرتی نظریات سے ناآشنا اور اُس کے اہداف و مقاصد سے بالکل نابلدنظر آرہے ہیں۔ اُن کے اندر اپنے معاشرے اور قوم کی فلاح و بہبود اور استحکام و خوشحالی کے لیے قربانی کا جذبہ بھی مفقود ہوچکاہے، ان کے سامنے تو بس اپنی زندگی، اپنا کیرئیر اور اپنے گھر کے لئےاچھے لائف اسٹائل کا حصول ہی بنیادی مقصد رہاہےاور وہ صرف مادی آسائشات و لذات کو زیادہ سے زیادہ سمیٹ لینا اور زندگی کی رونقوں اور راحتوں کو پالینا چاہتے ہیں۔ معاشرے کے مسائل ومشکلات اور مصائب و آلام کا انہیں احساس ہی نہیں، ایسےمیں اُن سےکسی مشکل گھڑ ی میں معاشرے کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے لئے کچھ کرکےدکھانے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہےکہ کیا اس میں ہماری حکومت کی ناقص پالیسیوں کا دخل رہا ہے یا پھر والدین کی غیر ذمہ داری کا قصورہے۔ دورِ حاضر میں نوجوانوں میں خوبیاں بھی ہیں لیکن ترازو کے دونوں پلڑے برابر نظر نہیں آتے۔ معاشرتی ڈھانچے کو بھی نئی نسل کی کچھ خاص پروا نہیں اور والدین بھی بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ان کی اُلجھنوں کے بارے میں نہیں سوچا جارہا ہے، اگر کچھ ہو بھی رہا ہے تو محض سرسری طور پر۔اب بھی وقت ہے کہ نوجوانوں کی اہمیت اور قدر کو پہچانا جائے، انہیں اعلیٰ تعلیم، اخلاقی تربیت اور ملک و معاشرے کی ترقی و بہبودا ور استحکام کے اہداف کا پاسبان بنانے کی کوشش و جستجو کی جائے۔ جب ہی عروج و ترقی کا سفر شروع ہوسکتا ہے کیوں کہ نئی نسل کو راہ نمائی بھی درکار ہے اور حوصلہ افزائی بھی۔ ذہنی طور پر انہیں توانا رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اُن کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے،اُنہیں کچھ نہ کچھ کرنے کے معقول مواقع فراہم کئےجائیں۔ہماری نوجوان نسل کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانےاورکامیابی کے اصولوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئےحالات کے موافق اندازِفکرپیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اگر وہ اپنے آپ کو ہی عقلمند سمجھتے ہیں تو اُن کی سب سے بڑی بیوقوفی کی علامت ہےاور اپنی خود سَری میں وہ بُرائی کی طاقت بن جاتی ہے۔