حیاء ۔اسلام کی خوبصورتی اور خاصانِ خدا کی علامت فکروادراک

عذراء زمرود۔ کولگام
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’ ہر دین کا ایک خلق(عادت، اخلاق)ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے۔‘‘
الله تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر فطری خوبی سے مالا مال کیا ہے، ان خوبیوں، میں سے ایک خوبی شرم و حیا ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے شرم و حیا اس صفت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتا ہے ۔ دین اسلام نے حیا کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن با حیا بن کر معاشرے میں امن و سکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔
دراصل اسلام دین فطرت ہےاور انسان کو ایسے طریقے بتاتاہے جو اسے نہ صرف کامیابی کی منزل تک پہنچاتے ہیں بلکہ ایسے اخلاق سے مزین کرتا ہے، اسے پاکیزہ اور امن و سکون والی زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا کرتاہے۔ حیا اسلام کے تعلیم کردہ بنیادی اخلاق میں سے ایک ہے، دین میں اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے،کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایمان کا جز قرار دیااور فرمایا( الحياه من الايمان) یعنی حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ حیا اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں، جس شخص میں ایمان ہوتا ہے اس میں حیا بھی لازمی ہوتا ہے اور جس میں حیا نہیں ہوتی ہے اس میں ایمان کی بھی کمی ہوتی ہے گویا حیا ایک مومن کی صفتِ لازمہ ہے۔
جیساکہ ہم آج نام نہاد ’’روشن خیالی‘‘ کے ایسے تاریک دور سے گزر رہے ہیں، جس میں عمومی طور پر انسان اپنے دینی، روحانی اور لطیف جذبات کو یہاں خانہ دل کے کسی ویران گوشے میں ڈال کر ہواہے ،نفس کے گھوڑے پر سوار مادیت پرست کی طرف رواں دواں ہے۔ اس نے خواہشات اور لذات بھری زندگی کو ہی اپنی اصلی زندگی سمجھ لیا ہے اور تکمیل خواہش کو اپنی زندگی کی منزل سمجھ لیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خواہش نفس پوری ہونی چاہئے خواہ جیسے بھی ہو۔ چنانچہ جنسی خواہش جو انسان کی خواہشات نفسانیہ میں سے ایک بڑی خواہش ہے اس کو پورا کرنے کی دوڑ میں آج کا انسان کچھ اس طرح سرگرداں ہےکہ شرم و حیا کی صفت سے تہجی دامن ہو چکا ہے، عریانی اور فحاشی کا ایک طوفان ہے جو اہل کفر کی عشرت گاہوں سے اُٹھا ہے اور مسلم ممالک کو اپنے لپیٹ میں لیتا چلا جا رہا ہے، مثلاً ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ ایسے شیطانی ذرایع ہیں جنہوں نے اس کفر کی ثقافتی یلغار کو مسلمانوں کے گھر گھر میں پہنچا دیا ہے۔ بے حیائی اور اخلاقی باختگی کے مناظر جو کبھی باطل کے خاصہ تھے،آج مسلمانوں میں بھی ترویج پاچکے ہیں کیونکہ کفار کی تہذیب و تمدن کو اپنا کر اور ان کے میڈیا کو دیکھ دیکھ کر ہماری نوجوان نسل رومانس کی ایسی دنیا میں کھو کر اپنی حقیقت ہی بھول گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے گا روزانہ کے اخبارات میں لڑکیوں کے گھر سے فرار ہونے اور عاشقوں کی حالات راز ہونے کے واقعات کثرت سے ملتے ہیں۔ مخلوط تعلیم گاہوں میں طلباء و طالبات کے مابین پروان چڑھتے رومانس اور قومی تقریبات میں ہونے والی محافل، و موسیقی و ڈانس، ہماری قوم کی مجموعی اخلاقی حالت کی عکاسی کرتی ہیں۔ ’’حیا ‘‘ لفظ کی بات کریں تو حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں،جوکہ بے شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔ مولانا مودودیؒ کے نزدیک اسلام کی اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی امرِ منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اورخدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔امام راغب اصفہانیؒ نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ’’حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے بُرا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔علامہ ابن حجرؒ کے نزدیک ’’حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔‘‘
امام مودودی ؒاپنی معرکہ آرا تصنیف پردہ میں لکھتے ہیں:’’یہ کہا جاتا ہے کہ ناجائز صنفی تعلقات کو روکنے کے لیے عورتوں اورمردوں کے درمیان میں حجابات حائل کرنا اور معاشرت میں ان کے آزادانہ اختلاط (میل جول) پر پابندیاں عائد کرنا دراصل اُن کے اخلاق اور ان کی سیرت پر حملہ ہے۔اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گویا تمام افراد کو بدچلن فرض کر لیا گیا ہے اور یہ کہ ایسی پابندیاں لگانے والوں کو نہ اپنی عورتوں پر اعتماد ہے نہ مردوں پر۔ بات بڑی معقول ہے مگر اسی طرز استدلال کو ذرا آگے بڑھائیے۔ ہر تالا جو کسی دروازے پر لگایا جاتا ہے گویا اس امر کا اعلان ہے کہ اس کے مالک نے تمام دنیا کو چور فرض کر لیا ہے۔ ہر پولیس مین کا وجود اس پر شاہد ہے کہ حکومت اپنی تمام رعایا کو بدمعاش سمجھتی ہے۔ ہر لین دین میں جو دستاویز لکھوائی جاتی ہے، وہ اس امر پر دلیل ہے کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کو خائن قرار دیا ہے۔اس طرز استدلال کے لحاظ سے تو آپ ہر لمحے چور، بدمعاش، خائن اور مشتبہ چال چلن کے آدمی قرار دیے جاتے ہیں، مگر آپ کی عزتِ نفس کو ذرا سی بھی ٹھیس نہیں لگتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف اسی ایک معاملہ میں آپ کے احساسات اتنے نازک ہو گئے ہیں؟‘‘
قرآن پاک سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ حیا مرد اور عورت دونوں کا یکساں اخلاقی وصف ہے۔ یہ وصف ہمیں پوری آب و تاب کے ساتھ قصۂ آدم و حوا میں نظر آتا ہے۔ جب دونوں میاں بیوی نے ابلیس کے دھوکے میں آکر شجرِممنوعہ کا پھل کھالیا تو ان کا جنت کا لباس اُتروا لیا گیا تھا۔ دونوں کو اپنی برہنگی کا احساس ہوا اور اس حالت میں انہوں نے اور کچھ نہ سوچھا تو فوراً جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہیں ڈھانپنے کی کوشش کی۔جس کی وضاحت ارشادِ باری تعالیٰ میں ہے:
’’تو اس نے دھوکہ دے کر انہیں مائل کر ہی لیا تو جب ان دونوں نے چکھ لیا اس درخت کے پھل کو ،تو ظاہر ہوگئیں اِن پر اُن کی شرمگاہیں اور وہ لگے گانٹھنے جنت کے (درختوں کے) پتوں کو اپنے اوپر (لباس بنانے کے لیے) اور اب آواز دی ان دونوں کو ان کے ربّ نے کہ کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا اس درخت سے اور کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔‘‘(سورہ الاعراف: آیت : ۲۲)
دراصل حیا اور مقامات ستر کو ڈھانپنا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کا جذبہ اور اپنے مقامات ستر کو ڈھانپ کر رکھنا عورت اور مرد دونوں کی فطرت کے اندر داخل ہے ،پھل کھانے کی وجہ سے جب سیدنا آدمؑ و حواؑ کا جنتی لباس چھِن گیا تو سب سے پہلی فکر جو اُنہیں دامن گیر ہوئی، وہ یہ تھی کہ اپنے مقامات ستر کو چھپائیں اور فوری طور پر کچھ نہ ملا تو جنت کے درختوں کے پتوں ہی کو ایک دوسرے پر یا اپنے بدن پر چسپاں کر کے اپنی شرمگاہوں کو چھپا دیا۔
اس آیت سے ان محققین کے بیان کی تردید ہوجاتی ہے جو انسانی تہذیب و تمدن کی داستان لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان ابتداء ننگا رہا کرتا تھا اور مدتوں بعد اس نے لباس تیار کیا اور بدن ڈھانپنا سیکھا اور یہ وہی محققین ہیں جو انسان کو حیوان ہی کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں اور چونکہ حیوان اپنے مقامات ستر نہیں ڈھانپتے ،اس لیے انہوں نے سمجھ لیا کہ انسان بھی ابتداء ایسا ہی تھا۔ قرآن ان سب باتوں کی پر زور تردید کرتا ہے، اور اسی اثناء میں سورہ القصص آیت: ۲۵ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’اتنے میں اس کے پاس ان دو میں سے ایک لڑکی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی، اس نے کہا : میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ وہ بدلہ دیں آپ کو اس کا جو آپ نے ہمارے لیے پانی پلایا ہے تو جب موسیٰ ؑ اس کے پاس آیا اور اس نے اسے اپنا سارا قصہ سنایا، اس نے کہا : اب ڈرو نہیں، تم نجات پاچکے ہو ظالموں کی قوم سے۔‘‘
چونکہ حضرت عمرؓ نے اس فقرے کی یہ تشریح کی ہے: ’’ وہ شرم و حیا کے ساتھ لچتی ہوئی اپنا منہ گھونٹ سے چھپائے ہوئے آئی۔ ان بےباک عورتوں کی طرح درانہ نہیں چلی آئی جو ہر طرف نکل جاتی اور ہر جگہ جا گھستی ہیں۔‘‘ اس مضمون کی متعدد روایات سعید بن منصور، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن المنذر نے معتبر سندوں کے ساتھ حضرت عمر ؓسے نقل کی ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں حیا داری کا اسلامی تصور جو قرآن اور نبیؐ کی تعلیم و تربیت سے ان بزرگوں نے سمجھا تھا، چہرے کو اجنبیوں کے سامنے کھولے پھرنے اور گھر سے باہر بےباکانہ چلت پھرت دکھانے کے قطعا ًخلاف تھا۔ حضرت عمر صاف الفاظ میں یہاں چہرہ ڈھانکنے کو حیا کی علامت اور اسے اجانب کے سامنے کھولنے کو بےحیائی قرار دے رہے ہیں۔مسلم کی روایت میں ہے، حیا ساری کی ساری خیر ہے۔
بلاشبہ حیاء وہ عمدہ اخلاق ہے جو انسان کو ہر برائی سے باز رکھتا ہے ،ارتکاب معاصی میں حائل ہو کر آدمی کو گناہ سے بچاتا ہے۔ اسلام کا عملاً دارو مدار حیاء پر ہے کیونکہ وہی ایک ایسا قانون شرعی ہے جو تمام افعال کو منظم اور مرتب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام نے حیاء اوراخلاق پر زور دیا ہے۔ تمام عقل وفطرت تصدیق نے بھی اس کا اقرار کیا ہے اور یہ وہ امر ہے جس میں جن وانس کے تمام شیاطین مل کر بھی تبدیل نہیں کرسکے۔ جس میں حیاء ہوتی ہے اس میں نیکی کے تمام اسباب موجود ہوتے ہیں اور جس شخص میں حیاء ہی نہ رہے، اس کے نیکی کرنے کے تمام اسباب معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں، کیونکہ حیاء انسان اور گناہ کے درمیان میں حائل ہونے والی چیز ہے۔ اگر حیاء قوی ہے تو گناہ کی قوت ماند پڑ جائے گی اور اگر حیاء کمزور پڑ جائے تو گناہ کی قوت غالب آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں سے منع کیا ہے، اْن کے کرنے سے روکتی اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا، ان کو بجا لانے کی تحریک دیتی ہے۔ جب یہ شعور کی روشنی بنتی ہے تو اس سے اللہ کی وحدانیت کا احساس مضبوط ہوتا ہے۔ ایمان باللہ کو تقویت ملتی ہے، تَعلق باللہ میں مضبوطی آتی ہے اور باطن سے حُبِ اللہ کی شعاعیں پھوٹتی ہیں، توکل علی اللہ کی خاصیت اُجاگر ہوتی ہے۔اگر دیکھا جائے گا دُکھ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شرم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان میں وجہ ٔ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامت ہے۔ اگر لب و لہجے، حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔
[email protected]>