حسینہ اور سنگ تراش کہانی

 رحیم رہبر

حسینہ کو کالج کے دنوں میں ہی ’حُسن کی ملکہ “Queen of beauty” کا خطاب ملا تھا ۔ اس کو دیکھ کر ایسا لگتا تھاگو یا تخلیق کار نے اس کی مرضی کے عین مطابق اُس کو تخلیق کیا ہے۔ نگاہیں اس کے چہرے پہ ٹہر جاتی تھیں۔ پھول اس کو دیکھ کر اپنی قبا کترتے تھے۔ جو اس کو ایک بارے دیکھتا پھر وہ اس کو دیکھتا ہی رہتا ۔
یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد اب وہ روز گار کی تلاش میں دفتروں کے چکر کاٹتی تھی۔ حسینہ نے میرے ادراک کا دریچہ تب وا کیا جب پانچ سال قبل ہم نے اکھٹے یو نیورسٹی کے شعبہ ادبیات میں داخلہ لیا تھا ۔ میں اپنی سنگتراشی کی بدولت یونیورسٹی میںمعروف ہوا۔ مجھے سب ابنِ وبنات یو نیورسٹی میں خلیل سنگ تراش کے نام سے جاننے لگے۔ حسینہ جانتی تھی کہ سنگ تراش خلیل اُس سے محبت کرتا ہے ۔ سوائے ایک بار اس نے کبھی بھی زبان سے اپنی محبت کا اظہار مجھ سے نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے ایک بار اس نے مجھے دھیمی آواز میں کہا تھا ۔
’’خلیل! تو نے سنگ کو تراشا اور جو ہر کر دیا ۔ تُم ۔۔۔۔ہاں ہاں تُم۔۔۔۔۔ تم میر آذرؔ ہو۔۔۔۔تُم نے ایک پتھر کی تقدیر کو سنوارا۔‘‘
میری ثنا کاری سے حسینہ کے والدین اور رشتہ دار خوش نہیں تھے۔ اس سے قبل ہماری محبت انتہا کو پہنچے والدین اور رشتہ داروں نے مل کر حسینہ کی شادی گاؤں کے ہی ایک لڑکے کے ساتھ کی، جس نے صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔ حسینہ نے والدین کے فیصلے کو تو قبول کیا پر اس کے جذبات مجروح ہوئے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنا خاتمہ کردیا۔۔۔!
اس طرح میرے سپنوں کا محل زمین بوس ہوا۔ میں پتھر میں اپنی محبوبہ کو تلاشنے لگا۔ پتھر کو تراشنے کے دوران مجھے حسینہ کی آہیں سنائی دیتی تھیں۔ اس کی سسکیاں سنتا تھا۔ اس کی جھیل جیسی آنکھوں میں گلمرگ کی پر اسرار خاموشی مضمر تھی۔ اس شہکار مورتی کو میں نے اپنے بیڈ روم کی شو الماری میں شلف پہ سجا کے رکھا۔ مجھے یہ غم ستائے جا رہا تھا کہ کب یہ مورتی میں حسینہ کی قبر پر رکھ کر اُ س سے اپنی محبت کا اظہار کرلوں ۔ “تدبیر کنند بنده تقدیر کنند خنده ” ایک رات اچانک میر بیڈ روم میں سناٹا چھا گیا ۔۔۔ ایک بھونچال سا آگیا۔ میر ے بیڈ روم کے درو دیوار ہلنے لگے۔ دفعتاً وہ مورتی شلف سے گر کر فرش پر ٹوٹ گئی اور تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔

���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،بڈگام، موبائل نمبر؛9906534724