بچہ مزدوری کاتدارک ناگزیر

گزشتہ دنوں سرینگر میں بچوں کو انصاف کی فراہمی اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام سے متعلق منعقدہ ایک ورچیول ورک شاپ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے سماج کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔مقررین نے جس طرح بچہ مزدوری اورنابالغ بچیوں کی شادی کو لمحہ فکر قراردیتے ہوئے غلط سماجی رْجحانات کاقلع قمع کرنے کیلئے مشترکہ کوششوںکو لازمی قراردینے کے علاوہ اس بات پر زور دیا کہ سماج میں پنپنے والے مختلف قسم کے غلط رحجانات اور جرائم کا قلع قمع کرنے میں پولیس کا اہم رول بنتا ہے ، اس لئے پولیس افسروں کو اس بات کی مکمل جانکاری ہونی چاہیے کہ سماج کے مختلف طبقوں بالخصوص بچوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کو کیسے یقینی بنایا جائے،وہ واقعی قابل ستائش ہے ۔ مقررین کا یہ کہنا کہ حقو ق زن اور حقوق اطفال کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات کے بارے میں پولیس کے پاس قوانین موجود ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلقہ قوانین کی روشنی میں ایسی لوگوں کیخلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے جو انسانی اسمگلنگ جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہوں،واقعی ایک اچھا پیغام تھا کیونکہ بچہ مزدوری اور انسانی سمگلنگ جیسے بدعات سے اس سماج کو دھیمک کی طرح چاٹ رکھا ہے ۔وقت کا یقینی طور پر تقاضا ہے کہ پولیس بچہ مزدوری او ر دیگرسماجی معاملات حل کرنے کیلئے آگے آئے کیونکہ پولیس اہلکار بھی اسی سماج کے رکن ہیں اور وہ کسی بھی سماج سے اپنے آ پ کو الگ نہیں رکھ سکتے ہیں اور اگر سماج میں تغیر و تبدل رونما ہوتا ہے تو اس کا براہ راست اثر خود ان پر اور ان کے خاندانوں پر پڑنالازمی ہے ۔ گوکہ تقاریر میں بچوں کی بہبودپر بہت کہاجارہا ہے تاہم یہ کس قدر افسوسناک ہے کہ جن نازک ہاتھوں میں قلم اور کتابیں ہونی چاہئے تھیں ان میں کارخانوں کے اوزار تھما دیئے گئے ہیں۔

 

محققین کا کہنا ہے کہ جموںوکشمیرخاص طور پر وادی میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ اقتصادی مسائل کی وجہ سے چھوٹے بچے کمائی کی مشینوں میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ان محققین کے مطابق اگر چہ سرکاری طور صرف 6ہزارسے زائد بچے مزدوری کی چکی میںپسے جا رہے ہیں تاہم غیر سرکاری سطح پر ان کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہوسکتی ہے۔یہ اعدادوشمار انتہائی پریشان کن ہیں کیونکہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور یہی روزگار کی تلاش میں اپنا بچپن کھودیں تو سماجی ڈھانچہ تہہ و بالا ہونے کا بھرپور احتمال ہے۔بچہ مزدوری پر قابو پانے کی صدائیں سیاسی اور سماجی رہنمائوں کے گلیاروں میں کافی دنوں سے گونج رہی ہیں، لیکن ان پر عمل کب ہوگا، اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اگر بچے مستقبل کے ستارے ہیں تو ان کے ستارے گردش میں کیوں ہیں، اگریہی بچے ملک و قوم کے مستقبل ہیں تو پھر مستقبل کو تانباک بنانے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں؟ ۔ ان غریب معصوم بچو ں کو تعلیم یافتہ بنانے کی کروڑوں روپے کی سکیمیں ان بچوں کا منہ چڑارہی ہیں۔ بچوں کو سکول پہنچانے اور ان کو تعلیم دلانے کے لئے کروڑوں سرکاری روپے پانی کی طرح بہائے جارہے ہیں، لیکن نوکر شاہی اور سرکاری محکموں کے افسران تعلیمی مافیائوں کے ساتھ مل کر یہ روپے ہضم کررہے ہیں۔ سرکار کو فرضی اعدادوشمار اور ترقی کی رپورٹ بھیج کر یہ افسران آنکھیں بندکرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہزاروں بچے بچپن دیکھے بغیرہی بڑے ہورہے ہیں۔ بھوک مٹانے کیلئے بغیرپڑھے لکھے اندھیروں میںان کا بچپن گم ہورہاہے۔ہرسال رسمی طورپر پنڈت جواہرلعل نہرو کا یوم پیدائش یوم اطفال کے نام سے منایا جاتا ہے، لیکن کیا کبھی کسی نے اس دن یہ سوچا کہ یہ سینکڑوں اور ہزاروں بچے اپنا بچپن گزارے بغیر ہی بڑے ہوجاتے ہیں۔معصوم سی عمر اور پڑھنے لکھنے کھیلنے کودنے کی عمر میں ان کے ننھے ہاتھوں میں اوزار تھمادیے جاتے ہیں یا ہوٹلوں اور دکانوں پرمزدوری کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔سرکار کی سکیموں پر اگر نظر ڈالیں توملک میں ہر سال تقریباً 100ارب روپے پرائمری تعلیم پر خرچ کر لئے جاتے ہیں تاہم اس کے باوجود بھی بچوں کا تعلیمی اداروں کی طرف رخ نہ کرنا تشویشناک ہے اور یہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ ایسی مجبوریاں بھی ہیں جو ان قسمت کے ماروں کو مفت تعلیم کے حصول سے محرو م رکھ رہی ہیں۔ ایسے میں حکومتی سطح پر یہ اصطلاح متعارف کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ وہ بچے اطفال مزدوری کے زمرے میں نہیں آتے ہیں جو اپنی مرضی سے کارخانوں ، گھروں اور ہوٹلوں کے علاوہ دیگر جگہوں پر کام کرتے ہیں۔ اگر یہی قانونی اصطلاح بنی تو بچہ مزدوری کا تصور ہی ختم ہوجائے گا۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ سرکاری کو آج تک یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ جموںوکشمیرس کو کتنے یتیموں کا بوجھ ڈھونا پڑرہا ہے ۔جب اعدادوشمار ہی نہ ہوں تو بھلا پالیسی بنے تو کیسے۔یہی حال بچہ مزدوری کے حوالے سے بھی ہے ۔لیبر محکمہ تو موجود ہے لیکن اس محکمہ کے حکام کو کبھی اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ ایک ٹھوس سروے کراتے کہ جموںوکشمیرمیں کتنے بدنصیب بچے اس دلدل میں پھنس چکے ہیں۔تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ غیر سرکاری سطح پر اس حوالے سے کسی حد تک کام ہوا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق جہاں یتیم بچوں کی تعداد80ہزار کے قریب ہے جن میں سے تقریباً60ہزار بچوں کے والدین شورش کے دوران مارے گئے ہیں وہیں بچہ مزدوری کے دلدل میں پھنسے نونہالوں کی تعداد3لاکھ کے قریب ہے ۔ان اعدادوشمار کو صرف نظر کرکے سیکریٹریٹ کے گرم کمروں میں بچوں کی بہبود کے حوالے سے پالیسیاں بنائی جائیں تو کچھ بدلنے والا نہیں ہے ۔بچوں کی بہبود کے حوالے سے تین محکمے ذمہ دار ہیں جن میں سماجی بہبود ،تعلیم اور لیبر محکمہ شامل ہیں اور جب یہ تینوں محکمے آپس میں تال میل پیدا کرکے بچوں کی خوشحالی کا بھیڑا اٹھالیں تو کوئی مشکل نہیں کہ ہمارے کل کو حال کی بھول بھلیوں سے نکلنے کا کوئی راستہ مل سکے وگرنہ اگر یہی پہلو تہی جاری رہی تو ان کا مستقبل ان بھول بھلیوں میں گم تو ہو ہی جائے گا لیکن وہ اپنے ساتھ اس قوم کے مستقبل کو بھی دائو پر لگا کر جائیں گے اور پھر صرف سوالات ہونگے جن کے ہمارے پاس جوابات نہیں ہونگے ۔