بندر سے اُلّو تک افسانہ

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

متھرا داس،اب اسّی برس کی عمر کا ہوچکا ہے ۔میں اُس سے صرف پانچ برس چھوٹا ہوں ۔میں نے اُس کی زندگی کاارتقا ء آج تک اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔میری اور اُس کی زندگی میں بہت حدتک گہری مطابقت رہی ہے کیونکہ ہم دونوں ایک ہی گاؤں اور مقام پر پلے بڑھے ہیں ۔گہرے دوست بھی رہے ہیں اور ایک دوسرے کے راز دار بھی ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے میں اور متھرا داس ایک ہی اسکول میں داخل کیے گئے تھے۔ ہم ایک دوسرے کے گھر اس طرح آتے جاتے تھے کہ دیکھنے والوں کو ہم سگے بھائی معلوم ہوتے تھے۔
متھر اداس بچپن میں بہت پھرتیلا اور شرارتی تھا۔شرارتوں پر اُس نے کئی بار اسکول میں ٹیچروں سے اور گھر میں اپنے باپ سے مار کھائی ہے ۔تیز دورنا،اُچھلنے کودنے،کسی کی نقل اُتارنے اور دھماچوکڑی میں اُس کا مقابلہ نہ تھا،لیکن پڑھنے لکھنے میں بھی وہ کافی ذہین تھا۔اُسے ہر امتحان میں مجھ سے زیادہ نمبر آتے تھے۔
پانچویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں اور متھرا داس گورنمنٹ ہائی اسکول گوہا میں داخل ہوگئے تھے ۔ہائی اسکول گوہا ہمارے گائوں سے آٹھ کیلو میٹر کی دُوری پر واقع تھا۔ہم روز اسکول پیدل چلے جاتے تھے ۔راستے میں دو ندیوں کا سنگم پڑتا تھا۔گوہا اُن دنوں ایک چھوٹاسا قصبہ تھا لیکن گاڑیوں کی آمد ورفت نہ تھی ۔البتہ بجلی کے کھمبے لگ چکے تھے۔مہاجنوں کی چند دُکانیں ہروقت سجی رہتی تھیں اور جب اُن کی خچریں نواحی علاقوں کی طرف خوردونوش کا سامان لے کر جاتیں تو اُن کے گلے میں بندھے گھنگھروں کی آواز سے اسکول جانے والے طالب علم بے حد محظوظ ہوتے۔اُنھیں یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی چیلا اپنے دیوتا کو خوش کرنے کے لئے پاؤں میں گھنگھروباندھے ناچ رہا ہو۔
ایک بار میں اور متھرا داس اسکول جارہے تھے کہ راستے کے ایک طرف دو خچریں چرتی ہوئی دکھائی دیں ۔متھراداس نے فوراً ایک نوکیلے کانٹے والی ٹہنی توڑی اور ایک خچری کی پیٹھ پر رکھ دی ۔خچری تب تک دولتی جھاڑتی رہی جب تک نہ اُس کی پیٹھ پر سے کانٹے دار جھاڑی نیچے گر گئی ۔ہم دونوں خچر ی کی یہ حرکت دیکھ کر دیر تک ہنستے رہے۔
متھراداس میں ہر کسی کو چھیڑنے،ستانے کی عادت موجود تھی ،جب کہ میں خاموش طبعیت کا آدمی تھالیکن میں اُس کی شرارتوں سے اُسے منع بھی نہیں کرسکتا تھاکیونکہ مجھے اُس کی شرارتوں پر غصہ کم اور ہنسی زیادہ آتی تھی ۔ایک بار ہمیں راستے میں ایک ضعیف العمرآدمی چلتے ہوئے دکھائی دیا ۔وہ لاٹھی ٹیکتا ہواآہستہ آہستہ چلا جارہا تھا ،اُس کی خمیدہ پُشت دیکھ کر متھرا داس نے اُسے بڑے ادب سے پوچھا
’’بڑے میاں جی! آپ نے یہ کمان کتنے میں خریدی ہے؟‘‘
بوڑھا آدمی بھی بڑا حاضر جواب تھا،اُس نے فوراً کہہ دیا
’’بیٹا! سلامت رہو، جب آپ میری عمر کو پہنچو گے تو تمہیں یہ کمان مفت میں ملے گی‘‘
میں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا۔بھنے ہوئے چنے چبانا ،کچے پھل کھانا،پانی میں تیرنااور اپنے گھر میں چوری سے دُودھ پر سے ملائی کھاجانا،متھراداس کو
بہت پسند تھا۔ایک باراسکول سے گھر آرہے تھے ،ستمبر کا مہینہ تھا،پورے علاقے میں سبزیوں اور پھلوں کے باغ پک چکے تھے ۔راستے میں ایک جگہ بِلّو مہاشے کے کھیت اور ناشپاتی کے درخت پڑتے تھے ۔ہمیں کافی بھوک لگی تھی ۔سامنے راستے کے ایک طرف ناشپاتیوں سے لدا درخت زمین کی طرف جھک گیا تھااور کھیتوں میں تروتازہ کھیرے اپنی بیلوں سے لٹک رہے تھے ۔یہ سب کچھ دیکھ کے بھلا ہمارا دل کیوں نہ للچاتا اور پھر بھوک سے ہمارا بُرا حال ہورہا تھا۔متھراداس نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں ،پھر مجھ سے پوچھا
’’شمس! کیا خیال ہے یار چلیں؟‘‘
میں نے کہا
’’اور اگر کوئی دیکھ لے گا تو؟‘‘
’’جب کوئی دیکھ لے گا تو بھاگ جائیں گے‘‘
متھراداس نے جواب دیتے ہوئے کھیت میں قدم رکھ دیا ۔میں بھی اُس کے پیچھے ہولیا۔ڈرتے ڈرتے ہم نے بیگ کھیروں سے بھر لیے ۔متھرا داس نے کہا
’’شمس! اب ذرا ناشپاتیوں کا بھی ذائقہ چکھ لیتے ہیں‘‘
میں نے اُسے منع کیا لیکن وہ نہ مانا،وہ ناشپاتی کے درخت پر چڑھ گیا۔درخت کی شاخیں اِدھراُدھر ہلنے لگیں اور جونہی ایک شاخ ٹوٹ گئی تو اُس کی آواز پر بلّو مہاشہ گھر سے دوڑتا ہوا آیا ۔متھراداس نے اپنا بیگ اُٹھایا اور بھاگ گیا۔میں بھی کافی بھاگا لیکن بلّو مہاشے نے مجھے پکڑلیا اور میرے گالوں پر دو تین چانٹے جھڑ دیئے ۔اس کے بعد اُس نے مجھ سے میرا بیگ کھونس لیا ،میںنے جتنے بھی کھیرے اُس کے کھیت سے توڑے تھے وہ سب لے گیا اورمیر ابیگ اُس نے بڑی حقارت سے میری طرف یوں اُچھال دیا کہ جیسے کوئی غلیظ چیز اُس کے ہاتھ لگی ہو۔میں نے منہ بسورتے ہوئے اپنا بیگ اُٹھایا اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے گھر کی طرف آگیا۔میں دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کررہا تھا کہ بلّو مہاشے نے مجھے میرا بیگ واپس دے دیا ورنہ اگر وہ بیگ لے کر اسکول پہنچتا یا میرے گھر والوں سے میری شکایت کرتا تو میری ہڈی پسلی سلامت نہ رہتی ۔میں نے دل میں یہ مصمم ارادہ کرلیا کہ آج کے بعد متھراداس کے ساتھ نہیں چلوں گا۔گھر پہنچنے کے بعد مجھے متھراداس دکھائی دیا تو میںنے اُس سے کوئی بھی بات نہیں کی لیکن وہ میرے قریب آیا اور کہنے لگا
’’شمس! بھگوان کے لئے مجھے معاف کر،تُومجھ سے ناراض ہوگیا ہے ۔قصور میرا تھا لیکن سزا تجھے ملی‘‘
میں نے اُسے کہا
’’چھوڑ یار!متھراداس تُو بے وفا ہے ۔اس کا پتا مجھے آج ہی لگا ۔تُو خود تو بھاگ گیا اور مجھے بلّومہاشے سے پٹوایا ۔بس آج کے بعد میرا تیرا دوستانہ ختم‘‘
متھراداس نے میری طرف دایاں ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا
’’اسی لئے تو کہتا ہوں کہ مجھے معاف کردے ،مجھ سے غلطی ہوگئی ہے ۔شمس! میرے ساتھ ہاتھ ملا اور مجھے معاف کردے!‘‘
میں نے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اورمتھراداس سے کہا
’’اگر آج کے بعد تُونے میرے ساتھ ایسی بے وفائی کی تو ساری عمر تیرا چہرہ تک نہ دیکھوں گا‘‘
متھراداس ہنس پڑا اور کہنے لگا
’’ٹھیک ہے‘‘
متھراداس کی قلابازیاں دیکھ کر مجھے بڑا تعجب ہوتا تھا۔وہ ایک دم درخت پر چڑھ جاتااورفوراً نیچے بھی اُتر آتا تھا۔اُس کی تمام حرکات وسکنات سے مجھے یوں لگتا کہ جیسے بندر اور متھراداس میں کوئی بھی فرق نہیں ہے۔میں نے اُسے کئی بار کہنا بھی چاہا کہ متھراداس تُو مجھے بالکل بندر کی طرح دکھائی دیتا ہے ۔لیکن دوستی کا خیال آتے ہی میں اُسے کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔پھر ایک دن میری بات کی تصدیق ہوگئی ہوا یوں کہ ہائی اسکول کے احاطے میں تمام اساتذہ ،طلبہ وطالبات اور ہیڈ ماسٹر صاحب جمع تھے ۔اسکول کے جھنڈے کی ڈوری لکڑی کے پول کے اوپر باندھنی تھی۔ماسٹر مدھو کر نے لڑکوں سے پوچھا
’’کوئی لڑکا ایسا ہے جو اس پول پر چڑھ کر ڈوری باندھ سکے؟‘‘
متھراداس نے فوراً ہاتھ کھڑا کردیااور کہنے لگا
’’ہاں سر میں باندھوں گا‘‘
ماسٹر مدھو کر نے کہا
’’شاباش! یہ لوڈوری اور باندھو‘‘
متھراداس نے ڈوری لی اور بالکل بندر کی طرح لکڑی کے پول پر چڑھ گیا۔جونہی اُس نے ڈوری پول کے اوپر باندھی تو تما م اسٹاف اور طلبہ وطالبات نے اُس کی حوصلہ افزائی کے لئے تالیاں بجائیں ۔متھراداس جب نیچے اُترا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے زور سے کہا
’’متھر اداس تو پورا بندر ہے‘‘
ہیڈماسٹر صاحب کی بات پر سبھی ہنس پڑے،لیکن متھراداس کو ہیڈ ماسٹڑ صاحب کی بات پر غصہ آیا ،اُس کا چہرہ لال ہوگیا۔بس اُس کے بعد سبھی لڑکوں اور اساتذہ نے متھراداس کے بدلے اُسے بندر کہنا شروع کردیا۔
دسویں کا امتحان دینے کے بعد جب ہمارا رزلٹ نکلا تو متھراداس کے نمبر سب سے زیادہ تھے ،مجھے اُس پر کافی حیرانی ہوئی تھی اور اپنے آپ پر انتہائی دُکھ ہوا تھا یہ سوچتے ہوئے کہ میں کتابی کیڑا بننے کے باوجود آج تک فسٹ نہیں آسکا۔دسویں کے بعد میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی ،لیکن متھراداس کو بجلی کے محکمے میں ملازمت مل گئی تو اُس نے پڑھائی تر ک کردی۔اُس کی ڈیوٹی کھوٹر پور میں لگائی گئی۔کٹھورپور تب ایک چھوٹا ساقصبہ تھا۔اس طرح میں اور متھراداس دوراہوں میں بٹ گئے ،لیکن تحریری طور پر ہماری ملاقات ہوتی رہی ۔
کٹھور پور میں متھراداس کو دوسال ڈیوٹی دیتے گزرے تھے کہ ایک دن مجھے بذریعہ ڈاک اُس کا خط موصول ہوا۔اُس نے لکھا تھا:
’’کٹھور پور
میرے پیارے دوست شمس!
سدا خوش رہو!
مجھے اُمید ہے کہ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میں نے یہاں کٹھور پور میں ایک خوب صورت اور بارہویں جماعت تک پڑھی لکھی لڑکی کو اپنی رفیقہ ٔ حیات بنانے کا پروگرام بنایا ہے ۔آپ چونکہ میرے گہرے دوست ہیں ۔اس لئے اپنی نیک رائے سے نوازیں۔
آپ کا دوست
متھراداس‘‘
میں نے متھراداس کے خط کا جواب نہیں دیا تھا۔البتہ اتوار کو اُس کے گھر چلا گیا۔وہ اُس دن کٹھور پور سے گھر آیا تھا۔ہم دونوں ایک دوسرے سے بڑے تپاک سے ملے۔پھر اُس نے مجھے اپنے کمرے میں بٹھایا اور چائے پینے کے بعد اُس نے ہی اپنی شادی کی بات چھیڑی تھی۔
’’شمس ! میں کٹھور پور میں شادی کررہا ہوں ۔تجھے تو میرا خط ضرور ملا ہوگا۔لڑکی کو میں نے پسند کرلیا ہے ۔دیکھنے میں اچھی ہے ،پڑھی لکھی بھی ہے ۔اُس نے بھی مجھے پسند کرلیا ہے ۔یہ دیکھ اُس لڑکی کا فوٹو‘‘
متھرا داس نے میرے ہاتھ پر اُس لڑکی کا رنگین فوٹورکھ دیا ۔میں نے فوٹو دیکھا ۔لڑکی پورے شہری رکھ رکھاؤ کی تھی ۔بال کٹی،اُس کے چہرے سے حوص وہوس کے آثار نمایاں ہورہے تھے ۔میںنے اُس لڑکی کا فوٹو دیکھاتو متھراداس سے پوچھا۔
’’اس لڑکی کا کیانام ہے؟‘‘
متھراداس نے مسکراتے ہوئے کہا
’’مدھو بالا‘‘
میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور متھراداس کو بڑے مخلصانہ طور پر سمجھانے لگا
’’ سُن میرے دوست!ہم دونوں گاؤں میں پلے بڑھے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کے اپنے مخصوص ریتی رواج ہیں ،ہم نے آج تک جفاکشی میں زندگی گزاری ہے۔کھیتی باڑی کر کے، مال مویشی چراکے ،اوبڑ کھابڑ راستوں پر چل کے ہم جوان ہوئے ہیں ۔ہمارے گاؤں کی زندگی اور شہر کی زندگی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ تُو کیوں ایک شہر کی پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرکے اپنے آپ کو صلیب پر لٹکانا چاہتا ہے ؟بھلا شہر کی لڑکی گاؤں میں آکر مال مویشی چراسکتی ہے ، گوبر ڈھو سکتی ہے ؟یا لکڑی کا گٹھا اُٹھا سکتی ہے ؟متھراداس مجھے اچھا نہیں لگا تیری شادی کا یہ پروگرام۔تجھے چاہیے کہ گاؤں کی کسی پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرلے تُو سُکھی رہے گا‘‘
متھراداس کو میری واعظانہ باتیں اچھی نہیں لگیں ۔اُس نے میری باتوں کو دل میں جگہ نہ دیتے ہوئے کہا
’’شمس!یار،جس لڑکی کے دل میں میرے لئے پیار کی کونپل پھوٹی ہے ،وہ ہر حال میں میرا ساتھ نبھائے گی ۔میں اپنا فیصلہ نہیں بدل سکتا ۔میں ہر حال میں اُسی لڑکی سے شادی کروںگاجس کا فوٹو تُونے دیکھ لیا ہے۔‘‘
میں نے جب یہ سمجھ لیا کہ متھراداس پر عشق کا جنون سوار ہوچکا ہے تو میںنے اُسے کہا
’’ٹھیک ہے جو تیرادل چاہتا ہے وہی کرلے۔‘‘
میں متھراداس کے گھر سے اپنے گھر آگیا تھا ،لیکن دل میں دُکھ تھا کہ متھراداس نے میری باتوں پر کوئی بھی توجہ نہیں دی۔میری ملاقات کے تین مہینے بعد متھراداس نے شادی کرلی ۔میں بھی اُس کی برات میں گیا تھا۔شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی ۔دراصل یہ میرا پہلا موقع تھا کہ جب میں نے ہندو سماج میں شادی کی رسوم کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔مجھے اُس وقت بڑا عجیب سا لگا تھاجب پنڈت جی نے متھر اداس اور اُس کی دُلہن کو ریشمی ڈور سے باندھ کر اگنی کے ارد گرد سات پھیرے لگوائے تھے اور کچھ مخصوص شلوک پڑھتے ہوئے تقریباً ایک کیلو خالص دیسی گھی اُن سے اگنی میں ڈلوایا تھا۔پھر پنڈت جی نے بہت سے سنسکرت کے شبدوں کا اچارن کرنے کے بعد متھراداس کو مدھو بالا کا ہاتھ پکڑایا تھا۔پورے چھ گھنٹے تک پنڈت جی نے متھراداس کا بیاہ پڑھا تھا،میں نے دل ہی سوچا تھا کہ ہندوؤں کے ہاں تو شادی کی رسمیں بڑی پیچیدہ ہوتی ہیں ،مسلمانوں کے ہاں تو نکاح چند منٹو ںمیں ہوجاتا ہے ۔میرے علاوہ سبھی براتی رات کو کھانا کھانے کے بعد متھراداس کے گھر واپس آگئے تھے لیکن میں شادی کے اختتام تک متھراداس کے ساتھ ساتھ رہا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب درنگا سے مدھو بالا کی ڈولی لنگدھار کے لئے اُٹھی تھی تو کہاروں کو چڑھائی چڑھتے ہوئے بہت پسینہ آگیا تھا۔
شادی کے دوماہ بعد ہی متھراداس سے اُس کا چلبلا بن جاتا رہا۔پہلے گھر میں اُس کا حکم چلتا تھا لیکن اب اُس کی جگہ مدھو بالا نے لے لی تھی۔اب وہ آہستہ
چلتا،آہستہ بولتا،آہستہ کھاتااور ڈرتے ڈرتے بات کرتاجیسے وہ سوچ رہا ہو کہ کہیں اُس سے ایسی غلطی سرزد نہ ہوجائے جیسی وہ اکثر شادی سے پہلے کیا کرتا تھا۔اُسے یہ بھی خدشہ لگا رہتا کہ اُس کی بیوی کے سامنے کوئی اُسے بندر نہ کہہ دے۔اب تو شرافت نے متھراداس کے دل میں ڈیرہ ڈال دیا تھا۔اُس کی بیوی مہینے میں میکے کے چار چکر لگانے لگی۔متھراداس کی پوری تنخواہ اُس کی بیوی کے ملبوسات اور آرائش وزیبائش پر خرچ ہونے لگی۔وہ بیوی کے سامنے چپ چاپ رہتا۔وہ جس طرف اُسے چلنے کو کہتی وہ اُسی طرف چلتا،بالکل ایک پالتو جانور کی طرح۔
مجھے ایک بار متھراداس پر بہت ہنسی آئی تھی اور پھر اُس پر ترس بھی آیا تھا۔جب شادی کے بعد میری اور اُس کی ملاقات درنگا اور لگندھار کے راستے پر ہوئی تھی ،وہ خود بے چارہ ایک بھاری بیگ اُٹھائے ہوئے تھالیکن اُس کی بیوی گھوڑی پر سوار تھی ۔شہری اور دیہاتی زندگی کا امتیاز میرے سامنے تھا۔متھراداس کو میری سبق آموزباتوں کی قدر آگئی تھی لیکن کیا فائدہ ،اب تو وہ مجھے ایک گدھے کی مانند دکھائی دے رہا تھاجو بیوی اور سسرال والوں کا بوجھ ڈھو رہا تھا،پھر ایک دن مدھو بالا نے اُسے کہا تھا
’’میں تمہارے گاؤں کی یہ چڑھائی نہیں چڑھ سکتی ۔ہم کٹھور پور میں ہی اپنا مکان بنائیں گے ۔میرادل تمہارے گاؤں میں نہیں لگتا ہے۔بولو کیا ٹھیک کہا نا میںنے؟‘‘
متھراداس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب متھراداس نے اپنی بیوی کے کہنے پر اپنا آبائی گاؤں لنگدھار چھوڑ دیاتھا۔اُس کے بوڑھے والدین اپنے بیٹے کی جدائی پر کافی روئے تھے ،لیکن متھراداس اپنی بیوی کے ہاتھوں بے بس ومجبور تھا۔شادی کے دوسال بعد اُس کی بیوی نے ایک بیٹے کو جنم دیا ،اُس کا نام پارل رکھا گیا۔بیٹے کے بعد دو بیٹیوں نے جنم لیا تھا۔متھراداس کی پیٹھ پر آئے دن بیوی بچّوں کی ذمے داریاں سوار ہورہی تھیں ۔بچّوں کی پڑھائی لکھائی اور دوسرے مسائل اُس پر آن پڑے تھے ۔وہ خود تو کبھی کبھی بھوکا پیاسا بھی رہ جاتا لیکن بیوی بچّوں کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔
شب وروز کی گردش میں متھراداس کے بچّے پلتے بڑھتے گئے ،پھر اُن کی اسکول کی زندگی شروع ہوگئی ۔پونم اور وینا دونوں بیٹیوں کو دسویں تک پڑھایا پھر اُن کی شادیاں کردی گئیں ،لیکن پارل پڑھتا رہا ۔بی اے کرنے کے بعد اُس کو محکمہ مال میں پٹواری لگایا گیا۔متھراداس اور مدھو بالا کی جوانیاں اب دم توڑ چکی تھیں ،بڑھاپے کا مہیب اندھیرا اُن کا خیر مقدم کررہا تھا۔اس لئے اُنھوںنے پارل کی مرضی کے مطابق اُس کی شادی کٹھور پوری میں ہی ایک امیر گھرانے کی لڑکی کملاسے کرادی۔کملا اسپتال میں ایک نرس کی حیثیت سے کام کرتی تھی ۔بالکل جدید فیشن کی لڑکی تھی ۔وہ پتلون اور بُشرٹ پہن کر اسپتال جاتی تھی ۔بال کٹی ،بالکل انگریزن معلوم ہوتی تھی۔صرف شادی کے دن اُس نے سرخ جوڑا پہنا تھا۔امیر باپ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے بہت سارا جہیز ساتھ لائی تھی ،لیکن متھراداس کو بہو کے طور طریقے اچھے نہیں لگتے تھے ۔اس لئے نے ایک دن بیوی سے کہا
’’پارل نے اپنی مرضی سے شادی کرکے ہمارے خاندان کی عزت خاک میں ملا دی ہے ۔مجھے بہو میں بہو والی ایک بھی صفت نظر نہیں آرہی ہے ۔پہلے زمانے میں بہو اپنے جیٹھ اور سسر کے سامنے گھونگھٹ کاڑھا کرتی تھی ،اُس میں بڑا ادب واحترام پایا جاتا تھا،لیکن میری بہو میرے سامنے سیٹیاں بجاتی ہوئی گزرجاتی ہے ،جیسے میں اُس کی کی نظر میں سڑک کا کوئی مزدور ہوں‘‘
مدھو بالا نے کہا
’’سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا،نئی نئی شادی ہوئی ہے‘‘
متھراداس کے دل میں دن بدن چڑچڑا پن پیدا ہونے لگا۔بات بات پر اُس نے بیوی اور بیٹے کو ڈانٹنا شروع کردیا۔بیوی بھی اُس پر کبھی کبھی بسر پڑتی تھی لیکن جب پیش نہ چلتی تو دوبوند آنسو بہا کے چُپ ہوجاتی ۔پارل اپنے باپ کو خوش رکھنے کے لئے اپنی آدھی تنخواہ اُس کے حوالے کرتا،لیکن باپ کا چہرہ ہر وقت غصے سے تنا رہتا۔متھراداس کبھی کبھی اپنے ہمسائیوں سے لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہوجاتا ،باتوں باتوں میں کسی کو طعنہ دینا ،غصہ کرنااور کمینے پن پر اُتر آنا،اب متھراداس کی طبعیت بن چکی تھی ۔اس لئے اُس کے ہمسائیوں نے اپنے اپنے گھروں میں یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ بوڑھا متھرا داس ہر کسی کو کُتّے کی طرح آگے سے کھانے کو دوڑ پڑتا ہے۔
ایک دن جب کملا شام کو ڈیوٹی سے گھر آئی تو متھراداس نے اُسے گھورگھور کر دیکھا،کملا کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے عنقریب اُس کا سسر اُسے کتّے کی طرح نوچ لے گا۔اُس نے اُس روز نہ کھانا کھایا اور نہ ہی رسوئی میں کوئی کام کیا ۔بس صرف بستر پر پڑی روتی رہی ۔جب پارل گھر آیا تو اُس نے کملا کو روتے ہوئے پایاتو وہ پریشان ہوکر اُس سے پوچھنے لگا
’’کملا ! کیا بات ہوگئی ہے؟روکیوں رہی ہو؟‘‘
کملا نے جواب دیا
’’سسر جی مجھے ہر وقت گھور کے دیکھتے ہیں ،انھیں میرا اس گھر میں رہنا اچھا نہیں لگتا ۔بس معمولی معمولی باتوں پر چڑتے رہتے ہیں ۔آخر میں کب تک اُن کا یہ روکھا رویہ برداشت کرتی رہوں گی‘‘
’’اری چھوڑو،یہ بھی کوئی بات ہے،جب انسان بوڑھا ہونے لگتا ہے تو وہ کسی بھی چیز کو برداشت نہیں کرتا ہے ۔چڑ چڑا پن اُس کی طبیعت بن جاتی ہے۔ان باتوں کا بُرا نہیں منایا کرتے ،اُٹھو اور کھانا کھالو‘‘پارُل نے بیوی کو دلاسہ دلاتے ہوئے کھانا کھلا لیا۔
پارل کی بیوی کملا نے سال کے بعد ایک لڑکی کو جنم دیا اور تین سا ل کے بعد اُس نے ایک بیٹے کو جنم دیا،تو متھر اداس کے چڑچڑے پن میں اضافہ ہوگیا۔یوں بھی اُس کی ریٹائر منٹ کو اب ایک ہی سال بچا تھااور پھر جس دن اُس کے دفتروالوں نے اُسے نوکری کی الوداعی پارٹی دی تھی تو اسے دوستوں اور ساتھیوں نے پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے تھے ،لیکن متھراداس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔وہ رو اُٹھا تھا۔اُسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ یہ پھولوں کے ہار نہیں ہیں بلکہ کانٹوں کے ہار ہیں ۔یہ الوداعی پارٹی اُسے ایک چیلینج تھا کہ متھراداس ! تُو وقت کے دھارے میں کافی بہہ چکا ہے ۔اس لئے اب تُو کسی بھی کام کے لائق نہیں رہا ہے!
اب تو متھراداس کی آنکھوں کی روشنی میں کافی کمی آگئی ہے ،اُس کی قوت سماعت کمزور پڑگئی ہے ۔چہرے پر جھریوں کی جھالر سج گئی ہے ۔پوپلے منہ سے صاف بات نہیں نکلتی ،لاٹھی ٹیکتا ہوا بمشکل اندر باہر چلتا ہے ۔اب اُسے غصہ بھی نہیں آتااور نہ ہی اُسے اچھی اچھی چیزیں خریدنے اور پہننے کا شوق ہے ۔کوئی جب متھراداس کے پاس ملاقات کے لئے آتا ہے تو وہ نہ آہستہ سُن سکتا ہے اور نہ بآسانی کسی کو دیکھ سکتا ہے ۔مدھو بالا جو خود بوڑھی ہوچکی ہے ،لیکن وہ اچھی طرح دیکھ سُن لیتی ہے ۔وہ اونچی آواز میں متھراداس کو ہر ایک بات سمجھاتی ہے اور مہمانوں کا اُس سے تعارف کرواتی ہے۔
آج جب میں متھراداس سے ملاقات کرنے گیاتو اُس نے مجھے بھی نہیں پہچانا ۔میں نے اُسے ایک الگ کمرے میں تنہا پایا۔مدھو بالا نے ہی اُس کو میری پہچان کروائی ۔وہ سویا ہوا تھا ،میری بات سُنی تو اُٹھ بیٹھااور بولا
’’کون ہے؟‘‘
میںنے کہا
’’متھراداس میں ہوں،تیرا بچپن کا ساتھی شمس!‘‘پھر اُس نے مجھے گلے لگایا ،اُس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے ،میں بھی رو پڑا۔زندگی کے کئی دُکھ سُکھ یکے بعد دیگرے یاد آنے لگے ۔اتنے میں اُس کی پوتی اور پوتا اُس کے پاس آئے اور کہنے لگے
’’دادوجی! چلئے کھانا کھا لیجیے،رسوئی والے کمرے میں چلئے ‘‘
دونوں بچّوں نے متھراداس کا ایک ایک ہاتھ پکڑلیا اور اُسے کھانا کھلانے کے لئے لے گئے ۔کھانا کھلانے کے بعد پھر اُسی تاریک سے کمرے میں لاکر چھڑ گئے۔ میں متھراداس سے رخصت لے کر اپنے گھر میں آگیا ،لیکن متھراداس کی زندگی کے آخری ایّام کو دیکھ کر میرے دل ودماغ میں مایوسی کی اک گونج سی پیدا ہوتی رہی۔ میں یہی سوچتا رہا کہ وقت نے متھراداس کو بہت سے کرتب دکھا لیے ہیں ۔وہ جس عمر کو پہنچ چکا ہے ،ایسی عمر اُلّو کے مشابہ ہوتی ہے۔انسانوں سے بالکل الگ تھلگ ،حرص وہوس سے دُور ،سبھی کی نظروں میں بے کار،حقیر سی شے،اُلّو کی طرح ،جسے راتیں آنکھوں میں کاٹنی پڑتیں ہیں۔

���
سابق صدر شعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائل؛7889952532