آخرش

آنگن میں پڑے گملوں میں اُگے پودوں پر خزاں کی زردی چھا چکی تھی ۔۔۔ یہ ایک نیم گرم خزاں کی دوپہر ۔۔۔۔ الیکزا کچن میں سکارف کو اپنے  ہاتھوں کی پُشت سے وقفے وقفے سے درست کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور برتن دھونے کے ساتھ ساتھ عجیب سوچوں میں گم تھی۔
جھوٹا کہیں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔vegabond آوارہ 
ہاں ایک ایسا سیّاح جو کبھی کسی ملک کی سیّاحت پر نہیں گیا پر جس کے لکھے سفر نامے ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں ۔کیونکہ وہ جھوٹی کہانیاں گھڑنے میں ماہر ہے ۔۔۔۔
یا پھر کسی رنگ منچ کا منجا ہوا کلاکار ,جس میں سب جھوٹ ہو، مصنوعی کردار کی زندگی جینے والا۔۔۔۔۔۔اپنا کچھ بھی نہیں پر ۔۔۔۔ پر اس کے اس جھوٹ میں ایک عجیب قسم  کی سچائی ہے۔
ہاں  ایسا ہی ہے 
یہی وقت ہے 
ہاں بالکل ۔۔۔۔۔۔۔ اسی وقت کے آس پاس  وہ آ دھمکتا ہے اللہ دین کے جن کی طرح  ۔۔۔ دروازے پر متفّکر  , اداس صورت لیکر یا پھر کبھی  معصوم چہرہ بنا کر  آنکھوں میں تیرتا جھوٹ موٹ کا پانی ۔ایک پختہ اداکار  کی طرح، صرف مجھے خود پر ترس دلانے کی خاطر دروازے پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اور میں ۔۔۔۔۔۔۔
ایک stupid وومن  کی طرح  دیوانہ وار دوڑتی بھاگتی دروزاہ کھول دیتی ہوں اور اس کا سارا ڈراما دیکھ چکنے کے بعد مٹھی میں دبا ئے ہوئے پیسے، جنہیں کس کر دبائو رکھنے سے وہ پسینے سے لت پت ہوجاتے ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔  اس کی اور بڑھاتی ہوں اور وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے ۔
"ایلکزا ۔۔۔۔۔۔۔ایلکزا۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔میں ہرگز اس کے لیے نہیں آتا۔۔۔۔ میں تو ۔۔۔۔۔۔۔میں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے تمہاری ان  بڑی بڑی نیلی آنکھوں کی قسم۔۔۔۔ مجھے تمہاری ان موٹی موٹی نیلی آنکھوں کی قسم ۔۔۔۔۔۔میں تو۔۔۔۔۔۔۔میں تو۔۔۔۔ میں تو دراصل تمہیں دیکھنے آتا ہوں۔ بس تمہیں  دیکھنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچ مانو تمہیں جی بھر کر دیکھنے کے لیے ہی تو آتا ہوں۔ اور چاہتا ہوں کہ بس تمہیں یوں ہی دیکھتا رہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پر کیا کروں ،ہائے میری بدنصیبی! 
ساتھ ہی خیال آتا ہے۔ خیال آتا ہے  آنے والی اداس شام کا۔۔۔۔۔۔۔ اس بوجھل شام کا ۔۔۔۔۔۔۔تنہا شام کا،جب میں بالکل اکیلا ہوتا ہوں۔۔۔ ایک دم تنہا ،جب تم نہیں ہوتی ۔۔صرف تمہاری یادیں ہوتی ہیں ۔پھر تمہاری غیر موجودگی  سے عجیب قسم کی تلخی جنم لیتی ہے اور اس کڑواہٹ کو صرف۔۔۔۔۔۔صرف  شراب کی ایک  بوتل ہی  کم کر سکتی ہے تو میرے قدم  خود بہ خود بڑھتے ہیں تمہاری طرف ۔۔۔۔اور تمہارے ہاتھ سے  پیسے۔……….."
اور میں پاگل ۔۔۔۔۔۔۔۔پھراس کی جھوٹی باتوں میں آ جاتی ہوں ۔
محبت اور وہ بھی مجھ سے ،ہر گز نہیں ،سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،وہ تو اپنی ضروریات مجھ سے پوری کرنے کے لیے بار بار چلا آتا ہے اور میں ہر بات جانتے ہوے بھی۔۔۔۔۔ جلدی جلدی اسے پیسے تھما کر اندر آجاتی ہوں اور دروازہ بند کردیتی ہوں اس ارادے کے ساتھ کہ اگلی دفعہ یہ دروازہ نہیں کھلے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں کھلے گا  ۔ اور جب وہ ڈور بیل بجاتے بجاتے تھک جاےگا  تو الٹے پیر واپس چلا جائے گا اور میری بھی جان ۔۔۔۔۔۔میری بھی جان چُھوٹے گی ۔
پر میرا یہ  ارادہ کمزور پڑ جاتا ہے اور ہر بار اس کے جھوٹ کے سامنے میرا سچّا ارادہ  ہار جاتا ہے۔ ویسے بھی محبت میں ایساہی ہوتا ہے ۔محبت میں ارادے نہیں چلتے۔۔۔یہاں اس بازارِ الفت میں کوئی منطق کام نہیں آتی۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
یہاں سوچا کچھ جاتا ہے اور ہوتا کچھ اور ہی ہے ۔۔
میں نے بھی اس بازارِ الفت میں آکر،گھاٹے کا سودا کیا ۔۔۔۔۔۔ہاں بالکل گھاٹے کا سودا۔۔ نہ نرخ نامہ دیکھا ,نہ مول بھاؤ کیا۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔اور گھاٹا کر بیٹھی ۔کاش دوست کو دوست ہی رہنے دیا ہوتا تو بہتر تھا پر میں ۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔۔۔
ویسےبھی ہم تینوں کی دوستی بڑی مشہور تھی۔
ہاں 
جیسن ،کرسٹوفر اور میری دوستی 
جیسن اور میں دوست نہ رہے بلکہ ایک دوسرے کے لیے دوست سے بڑھ کر ہوگئے پر کرسٹوفر ۔۔۔کرسٹوفر جیسا  سنجیدہ اور باوقار شخص  ہمیشہ ہمارا مشترکہ اور  سچّا  دوست  رہا ۔
شومئی قسمت یا پھر کچھ اور کہوں اسے جیسن اور میں ایک دوسرے کو چاہنے کے باوجود بھی ایک نہ ہو سکے اور میری شادی نکلس سے ہوگئی ۔
نکلس
نکلس نہایت شریف ،محنتی ,سچّا مذہبی انسان ہے ۔۔۔۔۔۔ جو ہمارے یونانی دیوتاؤں کو خوش کرنے کی خاطر رات رات بھر  عبادت کرتے  ہیں ۔میں جب کبھی پوچھتی ہوں کہ  اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟
 تو نکلس کہتے ہیں ۔
"کہ ایک زمانہ آئے گا جب پوری دنیا کے لوگ بھٹک جائیں گے تب انھیں Greek gods ہی سنبھالیں گے اور ان کا  مارگ درشن کریں  گے ۔"
  میں بھی اپنے  دو بچوں کو سنبھالنے  اور گھر کے کام کاج میں مصروف ہو کر اپنی زندگی سے مطمئن ہوں اور شاید خوش بھی ۔
پر 
پر جیسن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقول خود جیسن کے وہ خوش نہیں ہے۔
جیسن ابھی بھی  کنوارا  ہے ۔۔۔۔کنوارا،آوارہ، نکمّا اور نٹھلّا ۔۔۔۔۔
جب میں کبھی پوچھتی ہوں "شادی کر کے گھر کیوں نہیں بساتے ہو؟" توکہتا ہے 
"جب تم نہیں تو کوئی اور بھی نہیں "
بس ہر ایک دو روز میں بھری دوپہر میں ۔۔۔۔ ۔۔میرے شوہر کی غیر موجودگی میں اسی وقت لگ بھگ اسی وقت  چلا آتا ہے اور مجھ سے اپنے گزارے کے لیے چھوٹی چھوٹی رقم لیے جاتا ہے ۔
اب یہی سلسلہ سالوں  سے جاری ہے۔کاش میرا دوست کرسٹوفر یہاں ہوتا ۔۔۔۔۔۔
 کرسٹوفر ہوتا تو وہ ضرور جیسن کو سمجھاتا۔۔ پر ۔۔۔۔۔پر وہ تو بہت سال قبل  دور ۔۔۔۔۔۔۔دوسرے شہر چلاگیا اور پھر وہیں کا ہوکے رہ گیا۔۔ کرسٹوفر نے وہیں  کسی امیر زادی کے ساتھ شادی  کی ۔۔۔۔۔ہاے میں بدنصیب اس کی شادی میں شریک بھی نہ ہوسکی ۔
پر ایک رقم جیسن کے ہاتھوں میں تھما کر اسے کرسٹوفر کی شادی میں شریک ہونے اور چند تحائف  میری طرف سے بھی  لیکر جانے کے لیے روانہ ضرور کیا ۔
کرسٹوفر کے خواب کچھ الگ ہی تھے ایک اچھّی اور شاندار زندگی جینے کے خواب۔۔۔
ایلکزا ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ ڈور بیل بجی ۔۔۔۔۔۔۔ 
"آگیا " اس کے ماتھے پر آپ ہی آپ کئی شکنیں نمودار ہوئیں ،عجیب بےزاری اور ڈر کے ملے جلے احساس کے ساتھ وہ دروازے کی طرف بڑھی۔۔
پر جب دروازہ کھولا تو الیکزا دھنگ رہ گئی دروازے پر جیسن نہیں بلکہ کرسٹوفر کھڑا تھا ۔دونوں نے ایک دوسرے کو جھٹ سے پہچان لیا ۔
وہ بے حد خوش ہوئی اور اس نے اپنے پرانے دوست کا پرتپاک استقبال کیا ۔
کرسٹوفر اندر آگیا اور ایلکزا کے مختصر مکان کاجائیزہ لینے کے لیے اس نےاپنی نظریں اِدھر اُدھر دوڑائیں پھر اپنے ہاتھ میں پکڑی خوبصورت چھڑی، جسے وہ  ہمیشہ شوقیہ اپنے ساتھ رکھتا اور انگلیوں میں گھماتا رہتا، کوپھر اسے انگلیوں میں گھمانے لگا۔۔ اس کے بعد اس نے اپنے سر کی ہیٹ سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور صوفے پر ڈھیر ہوگیا ۔  
کرسٹوفر ایلکزا سے اس کے شوہر اور  بچّوں کے بارے میں پوچھنے لگا ۔
ایلکزا مشروب کا گلاس لے آئی  اور کرسٹوفر کے سامنے بیٹھ گئ۔ اس کا ذہن ابھی بھی الجھا ہوا تھا، سوچ رہی تھی کہ ابھی جیسن آتا  ہوگا۔پھر یہ سوچ کر خود کو مطمئن کرنے لگی کہ آج وہ جیسن کی ساری شکایتیں کرسٹوفر سے کر دے گی  اور پھر کرسٹوفر جیسن کی خبر لے گا ۔
کرسٹوفر کی موجودگی میں اسے جیسن کو گھر کے اندر لانے میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اور نہ کوئی ڈر ۔۔۔۔۔۔۔
کرسٹوفر مشروب کا گلاس ختم کرکے سنجیدگی سے بولنے لگا ۔
"ایلکزا میری جگری دوست تم میری شادی میں شریک نہیں ہوئی جس کی وجہ سے تم سے بہت ناراض ہوں۔۔۔۔۔"
الیکزا نے اپنی سوچوں سے سر جھٹکتے ہوئے شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
"مجھے خود بھی افسوس ہے کہ میں  تمہاری شادی میں شریک نہ ہوسکی۔ویسے کیسی رہی تمہاری شادی ؟بیوی کیسی ہے تمہاری؟ تمہاری شادی کو بھی لگ بھگ دس بارہ سال تو ہوئے ہونگے۔ کتنے بچّے ہیں ؟ "
ایلکزا نے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے ۔ 
کرسٹوفر کہنے لگا ۔
 "ہاں بالکل 
بارہ سال ہوگئے اور دو بچے ہیں میرے ۔"
ذرا سا توّقف کے بعد
"ویسے۔۔۔۔۔۔ویسے تو ہر کسی کو اپنی شادی کا دن عزیز ہوتا  ہے اور اس دن کی یادیں بھی انسان کے لیے قیمتی ہوتی ہیں ۔ایک ۔۔۔۔۔۔ایک خوشگوار احساس پر ۔۔۔۔۔پر میرے لئے ۔۔۔۔۔۔جانتی ہو ایلکزا عین میری سہاگ رات کو جب میری دلہن کمرے میں میرا انتظار کر رہی تھی میں نے اور جیسن نے ایک ایک ڈرنک لیا اور میں نے یونہی بے خیالی میں پوچھ لیا کہ" ایلیکزا کیسی ہے؟  "
 میرا اتنا ہی  پوچھنا تھا کہ بس۔۔۔وہ تو جیسے بھرا پڑا تھا وسکی کے بھرے گلاس کی طرح جو ہلکی جنبش سے چھلک پڑتا ہے۔ 
جیسن جام پر جام پیتا گیا اور رونے لگا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔۔۔اس کی اس حالت پر مجھے حیرت بھی ہو رہی تھی اور میں کوفت بھی محسوس کرنے لگا جب وجہ پوچھی تو کہنے لگا ۔
"یار جس کی خاطر میں نے اپنی زندگی تباہ کردی اسے میری محبت پر ذرا بھر بھی یقین نہیں ۔رتی بھر بھی اعتبار نہیں ۔کیا مفلسی انسان کا اعتبار اور وقار  سب نیلام کر دیتی ہے؟ "وہ عجیب مایوس کن  انداز میں پوچھ رہا تھا۔ 
"غلطی میری ہے ۔سنو کرسٹوفر غلطی میری ہے ۔تم سن رہے ہونا، میں اپنی ضروریات کے لیے ہر دو ایک روز میں اس سے پیسے لیتا ہوں پر وہ نہیں سمجھتی ۔۔۔۔۔وہ نہیں سمجھتی  کہ یہ سب میری مجبوری ہے۔ دراصل میں اس سے۔۔۔۔۔۔۔در اصل میں اس سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔۔دیکھو میری آنکھوں میں ۔۔۔ ۔بے پناہ محبت۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اچانک میری طرف لپکا اس نے اضطراری حالت میں میرے شانوں پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی آنکھوں میں جھانکنے کو کہا۔۔۔
 پر۔۔۔۔۔۔۔پر اسے کبھی بھی میری بات کا یقین نہیں آتا ۔۔۔" پھر اس نے جھٹکے سے مجھے چھوڑ دیا اور دوبارہ ہاتھ میں گلاس اٹھالیا اور منہ سے لگا لیا۔
ایلکزا یقین جانو وہ شراب پیتا رہا اور روتا رہا اندر کمرے میں میری نئی نویلی دلہن میرا انتظار کر رہی تھی پھر جیسن پر عجیب حالت طاری ہونے لگی ۔
میں نے اسے بہت روکنا چاہا پر ۔۔۔۔۔ پر اس پرعجیب قسم کا پاگل پن سوار ہوچکا تھا  اور وہ روتے روتے بے ہوش ہوگیا اور  ٹیبل پر اوندھے منہ گر پڑا ۔
مجھے میری دلہن کے پاس جانے کی جلدی تھی ۔
 میں نےجیسن کو  ٹیبل پر سے اٹھانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں بھر پور کوشش کی ۔۔۔۔۔پر 
"پر جانتی ہو ایلکزا " 
وہ پور پور تمہاری محبت میں ڈوب چکا تھا اور اس کا جسم ۔۔اس کا جسم ٹھنڈا۔۔۔ یخ۔۔۔
اس نے جھرجھری لی۔
چیخ ۔۔۔۔۔۔
کیا ؟؟؟؟؟؟
"کیا بکواس کر رہے ہو کرسٹوفر ؟
"چپ کرو چپ کرو ورنہ  ۔۔۔۔۔"
"ایسابےہودہ مذاق۔۔۔۔۔۔۔ ایسا بے ہودہ مذاق میرے ساتھ مت کرو۔۔۔"۔ایلکزا غصے سے کانپتے ہوے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔"جیسن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسن تو ہر دو ایک روز میں مجھ سے ملنے آتا ہے ۔سنتے ہو کرسٹوفر  بالکل عین  اسی وقت۔۔۔ اسی وقت"
 اسکی نگاہیں دیوار پر لگی گھڑی کی طرف اٹھیں جو دن کے ڈھائی بجا رہی تھی۔
" ۔۔۔ہاں بالکل اسی وقت وہ مجھ سے ۔۔۔۔۔یہاں میرے گھر پر  مجھ سے ملنے آتا ہے ۔"
"بکواس بند کرو ایلکزا" 
 اب کرسٹوفر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی طرف آیا لگ بھگ چلاتے ہوئے کہنے لگا ۔
"لگتا ہے تم اس کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر پائی ہو اور پتا نہیں کب سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہو۔ 
 شاید اسی لیے تمہیں ۔۔۔۔۔شاید اسی لیے تمہیں جیسن نظر۔۔۔۔ اس نے ایلکزا کو شانوں سے پکڑ کر رسان سے سمجھانے کی کوشش کی 
"کیوں ایسی بہکی باتیں کر رہی ہو ؟۔سنو ایلکزا غور سے سنو جیسن کو مرے ہوے بارہ  سال ہوگیے ہیں ۔ 
وہ دونوں  یقین و بے یقینی کی درمیانی کیفیت سے دوچار ہی تھے  کہ  ۔۔۔۔کہ اچانک دہشت کے مارے دونوں بہ یک وقت چیخ پڑے اور  دروازے کی طرف چونک کر دیکھنے لگے ۔
کیونکہ اسی وقت الیکزا کے گھر کی ڈور بیل بجی ۔
���
بب جانس ہاؤس جلال آباد سوپور کشمیر
موبائل نمبر؛7780889616,9419031183