اَدھورا مرد افسانہ

ٹی این بھارتی

 

مرزا یوسف فرزند مرزا یعقوب کے ہمراہ بعوض مہر پچاس ہزار دختر عبدالرحمان معصومہ بیٹی تمہیں نکاح قبول ہے ۔۔۔۔ نکاح قبول ہے۔۔۔۔ نکاح قبول ہے۔۔۔ قاضی کی دو آوازوں کے جواب میں جب دلہن کی طرف سے کوئی جواب نہ مل سکا تو تیسری مرتبہ قاضی صاحب نے قدرے اونچی آواز میں کہا۔ معصومہ بیٹی تم نے مرزا یوسف کو بحیثیت شوہر قبول کیا!! قبول کیا!!! اور معصومہ کا دل چاہا کہ وہ بھری محفل میں چلا چلا کر کہہ دے نہیں! نہیں! نہیں!! مجھے یہ نکاح بالکل قبول نہیں ہے!! قبول نہیں ہے!! ایک بہاری کو میں اپنی زندگی نہیں سونپ سکتی مگر اس بھولی بھالی کمسن حسینہ نے ہاں کہنے میں ہی اپنے اور اپنے گھر والوں کی عافیت سمجھی اور بے دلی سے اپنے ان چاہے شوہر مرزا یوسف کے ساتھ عجلہ عروسی میں داخل ہو گئی ۔
یوسف، جو بینک منیجر ہونے کے ساتھ نہایت شریف النفس لیکن بد مزاج رویہ کا مالک تھا،دہلی میں تنہا سکونت پذیر ہونے کے باعث زندگی کی ہر سختی کو جھیلنے کا عادی بن چکا تھا ۔دس افراد پر مشتمل اس کا خاندان بہار میں رہائش پذیر تھا ۔اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کی غرض سے جب وہ بہار کی مٹی کو اپنے آنسوؤں سے نم کرتا ہوا دہلی آیا تو اس اجنبی شہر میں اسے معصومہ کے سوا کوئی نہ بھایا جبکہ دُبلا پتلا کالی رنگت والا یہ شخص معصومہ کوایک آنکھ نہ بھاتا۔بھولی بھالی چھبیس سالہ معصومہ جب یوسف کی دلہن بن کر آئی تو یوسف کو دنیا کی ہر شے مسکراتی نظر آتی کیوں کہ معصومہ اس کی اپنی پسند تھی۔ بس ایک مرتبہ اپنے دوست کی شادی میں اُس سے ملاقات ہوئی تھی اور اُس کوایک ہی نظر میں پسند کر لیا تھا ۔آج اسے زندگی کی یک طرفہ کامیابی پر فخر ہو رہا تھا اور دائمی خوشی کا احساس بھی اس کے ارد گرد موجود تھا ۔معصومہ، جو اپنی تمام خواہشات کو بھلا کر تقدیر کے ہاتھوں بلی کا بکرا بن چکی تھی ،ایک کالج میں قانون کی لیکچر ار تھی ۔اپنی نئی اور ان چاہی زندگی میں جب معصومہ نے قدم رکھا تو اس نے جیسے تیسے دل کو دلاسہ دیا اور اپنی تمام گزشتہ شیریں یادوں کا تازیانہ سہمے انداز میں اپنی زندگی کے نئے شعلوں میں دفن کر دیا۔ اور ہندوستانی روایت کے مطابق اس نے ٹھان لیا اب جو بھی ہو وہ صرف اور صرف اپنے شوہر یوسف کے لئے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کی خدمت میں گزار دے گی زندگی کی ہر تلخی کا مقابلہ وہ تنہا کرے گی مگر وہ اپنے گھر والوں کی عزت پر آنچ نہ آنے دے گی۔
معصومہ کی زندگی کا ایک لمبا عرصہ کتابوں کی نذر ہوا اور اس کی پڑھائی کی دھوم ہر جگہ تھی۔غریبی اور تنگ دستی کے بستر پر لیٹنے کے بعد بھی معصومہ سنہرے خواب دیکھنے سے باز نہ آتی ۔اس کی زندگی کی ہر صبح اسے ایک نیا حوصلہ اور ولولہ دیتی ۔اپنے میں گم رہنے والی بیحد خود دار صاف گو طبیعت کی مالک معصومہ کی بے پناہ محنت نے اسے ایک ایسے مقام پر لا کر کھڑا کیا جہاں اسے کبھی کبھی اپنے پر غرور سا ہونے لگتا اور وہ بار گاہ الٰہی میں شکر بجا لاتی کہ خدا نے اسے عزت، شہرت، دولت سبھی کچھ اس چھوٹی سی چھبیس سالہ زندگی میں عطا کر دیا تھا ۔لیکن زندگی کے اہم ترین موضوع شادی کے بارے میں تو اس نے سوچا ہی نہ تھا ۔اس کی جگری دوست سدھا گپتا ہمیشہ شادی کرنے کی رائے دیتے ہوئے معصومہ کو نصیحت کرتی پاگل معصومہ تو سمجھتی کیوں نہیں مرد کے بغیر عورت کی زندگی ادھوری ہے اور عورت کے بغیر مرد نامکمل ہے۔ تُو بھی اپنی زندگی کے ادھورے پن کو شادی کر کے مکمل کر لے ورنہ تیرے ہی سماج کے لوگ تجھے برداشت نہیں کر پائیں گے۔ کیافائدہ کہ زندگی کسی دورا ہے پر نا پاک شکنجو ں کی گرفت تجھ پر مضبوط ہو جائے ۔میری بات مان اور یوسف سے شادی کے لیے ہاں کہہ دے، اس میں ہی تیری بھلائی ہے ۔نہیں سدھا میں ایک ایسے آدمی سے شادی نہیں کروں گی جسے کپڑے بھی پہننے کا سلیقہ نہ ہو ۔اور پھر وہ ایک آنکھ سے ۔۔۔۔۔۔ سدھا نے اسے درمیان میں ہی ٹوک دیا۔ بھگوان کے لئے ایسی بات نہ کر ۔کپڑے پہننا تو اُسے سکھا سکتی ہے اور دو سہیلیوں کے درمیان باتوں ہی باتوں میں خدا نے کسی کی زندگی کا فیصلہ سنا دیا اور معصومہ کی ناں نا ں ہاں ہاں میں نہ جا نےکب تبدیل ہو گئی ۔
وقت کا پنچھی پورے طور سے اپنے پر پھیلا ئے زمانے کی گردش کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی اونچی اڑان میں مست تھا اور معصومہ کو معلوم بھی نہ ہو سکا کہ شادی کے پا نچ سال کہاں بیت گئے ۔ہنسی خوشی یوسف معصومہ کے ساتھ روز و شب گزار رہا تھا کہ اچا نک معصومہ پر طنز و طعن کی بوچھا ڑ ہونے لگی۔ اس کے سسرال والے عزیز رشتے دار اڑوسی پڑوسی یہاں تک کہ اس کی گھریلو نو کرا نی نے بھی ایک دن معصومہ کو ٹوک ہی دیا ،کیا بات ہے میڈم جی کیا سا ری زندگی خالی گود ہی رہنا ہے آپ کواور ابھی تک ایک بھی بچہ نہیں۔ میڈم جی برا نہیں ماننا بیٹی سمجھ کر ایک بات بو لو ں، آپ پہلی فرصت میں ڈاکٹر جی سے اپنا علا ج کروا لئیو اور اپنے صاحب کو ساتھ لے جائیو۔ سچ کہوں میڈم جی بچہ کے بغیر زندگی بیکار ہے اور اب تو نیا زمانہ ہے ۔۔ ۔ اس سے قبل کہ بوڑھی نوکرانی مزید بولتی معصومہ نے اسے گھر کے کاموں میں لگا دیا اور خود ادھوری زندگی کی انجان سی الجھن میں گرفتار ہو گئ ۔نوکرانی کے جملے اس کے دماغ پر مسلسل ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ آخر اس سے برداشت نہ ہو سکا اور اس نے اپنے شوہر کے آگے اپنی پریشانی عیاں کر دی۔ ٹھیک ہے ڈارلنگ، ہم صبح ہوتے ہی ڈاکٹر نا ہید کے پاس چلیں گے جیسا علاج وہ تجویز کریں گی ہم اس پر عمل پیرا ہوجائیں گے ۔چلو اب ہنس دو اور سو جاوُ۔
سورج کی کرنوں نے جب رات کا اندھیرا سمیٹا تو معصومہ کے انتظار کی گھڑی بھی ختم ہوئی اور اب اولاد کی آس لئے معصومہ کے قدم ڈاکٹر نا ہید کے نر سنگ ہوم کی طرف بڑھنے لگے۔ تقریبا چھ ماہ تک ڈاکٹر ی جا نچ ہوتی رہی ۔رپورٹ پر ر پورٹ تیار ہوتی رہی ۔۔۔۔۔ اور آخر کا ر ڈاکٹر نے ایک دن معصومہ سے بے دھڑک کہہ دیا معصومہ تمہارے اندر بچہ پیدا کر نے کی پوری صلاحیت موجود ہے لیکن تمہارے شوہر کے اندر یہ صلاحیت موجود نہیں ۔چنانچہ میری رائے میں تم کسی کا بچہ گود لے کر اس کی پرورش کرو یہ بھی ایک کارِخیر ہے ۔کیا ؟؟کیا ؟ کیا کہتی ہے میری دوست؟وہ محو حیرت یہی سوچتی رہی یا خدا تو نے دنیا کی تمام بد قسمت با تیں صرف اور صرف میری تقدیر میں لکھ دی ہیں؟ نہیں ڈاکٹر یہ نہیں ہو سکتا کیا کبھی سنا ہے کہ مرد بھی با نجھ ہو سکتا ہے؟ کیا بانجھ پن کا داغ مرد کے چہرے پر بھی لگ سکتا ہے ؟ مگر ہندوستانی سماج میں تو مرد کبھی کوئی غلطی کرتا ہی نہیں ہے ۔ غلطیاں اور جانے انجانے گناہ تو عورت کی قسمت کا ہی حصہ ہے۔ اب میں اس ظالم اور مردانہ سماج کو کیا جواب دوں گی ؟ کس کس کا منہ بند کروں گی؟ یا اللہ میری مشکل آسان فرما ۔کس طرح سما ج کے لوگوں کو زندگی کی اس تلخ حقیقت سے آشنا کروں گی؟ گھر آ کر و با ر گاہ الٰہی میں سر با سجود ہوگئی ،یا خدا میرے شوہر نا مرد ہیں تو ان کو مردانہ تقویت بخش دے ورنہ اس ظالم سماج کے لوگ مجھ بے گناہ کے ماتھے پر بانجھ پن جیسا بد نما داغ لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے ۔اور سچ بھی تو ہے ہمارے معاشرے میں کوئی نا مرد بھی بانجھ بننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ میرے مولا یہ کیسا انصاف ہے تیرا؟
معصومہ گہری سوچ میں ڈوب گئی۔میں نے تو شادی کے بعد اپنی زندگی کومکمل سمجھ لیا تھا مگر اب اس نامکمل زندگی کے ایک اہم خلا کی کمی کیوں کر پوری ہو گی ؟زندگی کے اس ادھورے پن کے سانحہ نے معصومہ کو بد دماغ اور چڑچڑا بنا دیا، ادھر یوسف بھی بات بات پر اس سے جھگڑنے لگا کہ اپنی بیماری کا داغ تم مجھ پر کیوں لگا رہی ہو؟ بانجھ تم ہو میں نہیں۔ یوسف صاحب! آپ سے مجھے یہ امید ہرگز نہ تھی۔ ساری دنیا کی بات کو نظرانداز کر سکتی ہوں مگر آپ کی ذات مقدس سے میرا بھروسہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا ۔اگر آپ بھی مجھ پر بانجھ پن کا الزام لگائیں گے تو شاید میرے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو جائے اور پھر کیا یہ رپورٹ غلط ہے۔ یہ الٹرا سا وُنڈدیکھو ڈاکٹر کی ساری جانچ پڑتال ۔۔۔ اس سےقبل کہ معصومہ اپنا جملہ مکمل کرتی یوسف کےزناٹے دار تھپڑ نے اس کے نرم و نازک رخسار پر بانجھ پن کی چھاپ پیوست کر دی اور اس ایک تھپڑ نے یوسف کی زندگی کو درہم برہم کر دیا۔ لمحہ بھر میں آشیانہ اُجڑ گیا۔ معصومہ نے یوسف سے خلع لینے کے بعد ٹھان لیا کہ اب وہ دوسری شادی ضرور کرے گی اور ثابت کر دے گی کہ اس دنیا میں صرف عورت ہی بانجھ نہیں ہوتی بلکہ مرد بھی بانجھ پن کا برابر ذمےدار ہے۔ محض چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں ایک اخباری رشتے نے اس کی اجاڑ اور ادھوری زندگی کو پر بہار کر دیا۔ انسپکٹر اقبال خان سے شادی کرنے کے بعد معصومہ قدرے مطمئن تھی۔ اقبال، جس کی پہلی بیوی کا انتقال دو برس قبل ہو چکا تھا، معصومہ کو اپنی شریک حیات بنا کر بے حد خوش تھا۔زندگی کی گاڑی وقت کے خوشحال اور مستحکم پہیے پر رواں دواں تھی۔ اس کی نا مکمل زندگی کو دوبارہ شروع ہو ے ابھی ایک برس بھی نہ گزرا تھا کہ اللہ نے اس کی گود آباد کر دی اور جڑواں بچوں کو جنم دے کر معصومہ کو لگا مانو آج اسے زندگی کی ہر دولت میسر آگئی ہے۔ اس کے ماتھے پر لگا بانجھ پن کا بد نما داغ مٹ چکا ہے ۔اس کا سماج قد موں میں آ گرا تھا اوریوسف اپنے کئے پر نادم تھا۔ دوسری طرف اقبال کو حق پدری عطا ہوا تھا اور معصومہ کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ آج اس نے ہندوستانی معاشرے کے ماتھے پر ایک زوردار طمانچہ رسید کر تے ہوئے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مردوں کے بنائے ہوئے اس سماج میں کوئی بھی مرد بانجھ یا نا مرد ہو سکتا ہے ۔بانجھ پن کے بد نما داغ کی ذمےدار عورت ہی نہیں بلکہ مرد بھی اندرونی طور پر ادھورا ہو سکتا ہے ۔۔۔۔!!!!!!
جامع نگر نئی دہلی
[email protected]