اَدب جو عوام النّاس کو متوجہ کرے (ادب سے ناآشنا ادب لکھ رہا ہوں)

عمران بن رشید

ادب زندگی کی تعبیرہے ۔ادب کی رسائی تمام شعبہ ہائے زندگی تک ہے۔ادب سے زبانیں زندہ ہیں‘ ادب ہی انسانی تہذیب و تمدن کاترجمان ہے‘ادب کی تخلیق سے انسان کو زندگی کا سلیقہ آیا ۔ادب نے باادب معاشروں کی تعمیر میں قدرے اہم رول اد اکیا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔ ادب نے ایسی تحریکوں کو وجود بخشا کہ انسان کی تاریخ بدل کر رکھ دی‘ادب محض اپنے ذہنی خیالات اور قلبی جذبات کو صفحہ قرطاس پر اُتارنے کا نام نہیں اورنہ ہی خیالی دنیا تعمیر کرنا ادب ہے۔ایسا ہوتا تو داستان جیسی بلندوبالااور قدیم صنف روبہ زوال نہ ہوتی۔ الفاظ کی تراش خراش ادب ہے اور نہ جملوں کی بہتات ادب ہے۔ شعر میںبحر اور وزن کااہتمام اور کہانی میں پلاٹ اورمنظرنگاری لازم وملزوم ہے‘فن کے لحاظ سے ایک ادیب اور شاعر کا اِن چیزوں سے واقف ہونا لازم(compulsary)ہے‘وگرنہ انسان شعر کہنے پر قادر ہوسکتا ہے اور نہ کہانی تخلیق کرنے پر‘لیکن ادب کو محض فن تک محدودرکھنا بھی درست نہیں۔ایساادب ادیبوں اور شاعروں کو تولطف اندوز کرسکتا ہے لیکن عوام النّاس ایسے ادب سے بے زار ہے۔ ایسے ادب کی تخلیق برائے ادب بے حد مفید ہے لیکن عوام النّاس کو متوجہ نہیں کرسکتی ۔اور جوچیز عوام کو متوجہ نہ کرسکے تاریخ گواہ ہے کہ اُسے ردی کے بھائو بیچااور خریدا جاتاہے۔ہمارے یہاں کے اکثروبیشترادیب اور شاعر ایک دوسرے کے ادب پاروں کی تعریف میں بڑے بڑے اور ضخیم تبصرے مرتب کرتے ہیں اور خیالوں کی ایک ایسی دنیا آباد کرتے ہیں جہاں سورج کبھی طلوع نہیں ہوتابلکہ اندھیرے میں تیرپھینکے جاتے ہیں، جن میں سے اتفاقًاایک آدھ تیر صحیح نشانے پر لگ توجاتے ہیں لیکن اکثرو بیشتر تیر دائیں بائیں ‘اوپر نیچے اور ادھر اُدھر لگ کر ادب کی حقیقی روح کو مجروح کرتے ہیں۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ایسا ادب کس کام کا جو تبصروں کا ہی محتاج ہو اور محض تبصروں میں ہی زیرِ بحث آئے۔تبصرہ نگاری اگر چہ بذاتِ خود ایک فن ہے اس کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے‘میں اس کا انکاری نہیں لیکن یہ بات بھی بہرحال درست ہے کہ معیاری ادب نسل در نسل اپنا سفر بنا کسی خارجی قوت یاسہارے کے طے کرتا ہے۔
ادب کی دنیا میں شہرت پانا اصل کام ہے اور نہ کمال۔کمال تو تب ہوتا ہے کہ ایک ادیب‘شاعر یا قلمکار عوام النّاس کومتوجہ کرتا ہے اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ ایک ادیب انقلابی ذہنیت کا حامل ہو۔وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے سماج کا قائل ہو ‘ وہ محض تفنن طبع کی خاطر نہ لکھے بلکہ وہ ایک مفکر کی حیثیت سے لکھے اور ایک فکر لے چلے۔ وہ محض اپنے فرسودہ خیالات کو لوگوں پر نہ تھونپے بلکہ لوگوںکے افکار کو ایک سمت دینے کی کوشش کرے ۔وہ دوسروں سے دادِ تحسین وصول کرنے کا خواہاں نہ رہے کیوں کہ یہ ایک عیب ہے جو قلم کی حق ادائی میں مانع آتا ہے ۔کیوں کہ جو دوسروں سے دادِ تحسین کا متمنی ہو وہ دوسروں کی برائی کو بھی اُس وکیل کی طرح صحیح ثابت کرنے پرمصر ہوتا ہے کہ جسے اپنا ہر کلائنٹ (Client)پاک عن الخطا نظر آتا ہے۔ایسے ادیب اور شاعر یا تو حددرجہ مبالغہ آرائی (Exaggeration)سے کام لے کر اپنے اصل فرض سے انحراف کرتے ہیں یا پھریہ سوچ کر اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوجاتے ہیں کہ کہیں حق بول کر کسی جھوٹے محب اور مداح کی دل آزاری نہ ہو۔ادیب سماج کا نباض ہوتا ہے وہی حق سے انحراف کرے تو عوام سے کیا توقع رکھیں۔بقول جافری چاسر(Jaffery Chauser) ’’If gold can rust what will then iron do‘‘یعنی اگر سونا بھی زنگ آلودہ ہوجائے تو لوہے سے کیا شکایت کریں۔
اگر آپ عالمی ادب کا تقابلی مطالعہ کریں گے توایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ وہ ادباء اور شعراء جنہوں نے عوام النّاس کو اپنی طرف متوجہ کیا یا جنہوں نے عوام کے ہر طبقہ پر اپنی چھاپ چھوڑی( چاہے وہ ادب نواز طبقہ ہو یا غیر ادب نواز طبقہ)اُن ادباء اور شعراء میں ایک چیز قدر مشترک ہے۔اور وہ یہ کہ انہوں نے ایسے موضوعات کو ادب میں جگہ دی ہے جو موضوعات سماج کے ہرہر طبقہ سے گہری مناسبت رکھتے ہیں جیسے آزادی‘حب الوطنی‘مذہب‘تصوف‘علم الکلام‘سیاست‘سائنس‘فلسفہ‘بے روزگاری وغیرہ۔ ان موضوعات کا اگر چہ ادب سے کوئی ظاہری تعلق نہیں لیکن عظیم شعراء اور ادباء نے ان موضوعات پر لکھ کر اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ادب میں کسی بھی موضوع کا احاطہ کیا جاسکتا ہے اور ادب کسی مخصوص موضوع پر لکھنے کا نام نہیں ہے۔ذرا آپ غور کریں کہ اقبال کو کس چیز نے یہ مقام عطا کیا کہ سماج کا ہر طبقہ اُن سے متعارف ہی نہیں بلکہ اُن کا کلام ہر کس وناکس کو ازبر ہے۔زندگی کے اہم موقعوں پر کیوں بے ساختہ غالبؔ کا نام زبان پر آتا ہے‘انگریزی کہانی کار شیکسپئرؔ(Shakespeare) کی کہانیوں میں ہر مضمون کا طالب علم کیوں دلچسپی لیتا ہے‘کیوں فارسی شعراء سعدیؔ‘رومیؔ‘بیدلؔوغیرہ صدیاں گزرنے پر آج بھی زندہ ہیں؟ یہ لمحہ فکریہ ہے ‘ادب کی اس روح کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی اقبال یا شیکسپیئر نہیں بن سکتا لیکن ہر ادیب ایک فکر لیکر ضرور چل سکتا ہے اور فکر ہی فن کومعنویت عطا کرتی ہے ۔اقبال جب ایک فکر لے کر اُٹھے اور سماج کے ہر طبقہ کو حقیقت کے باکل روبرو لا کر کھڑا کیا‘اور اپنے قلم کو لابی ازم (Lobbism)خویش نوازی (Nepotism)اور طرف داری اورجھوٹی انّاکے ہاتھوں فروخت ہونے سے بچایا تو وہ ایک قائد کامقام پاگئے۔ ؎
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلئہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند
ذرا سوچے مولانا حالی ؔنے ’’مدوجزرِ اسلام ‘‘میں ایسا کیا کہا کہ سرسید ؔ نے اسے اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ گردانا‘اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ایک ادیب کا حساس (Sensitive)اوربردبارہونا نہایت ضروری ہے کیوں کہ اُس کے ساتھ سماج کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ‘لہذا وہ فضول گوئی میں پڑکر خود کو ضائع نہ کرے۔جمیل جالبیؔ لکھتے ہیں:۔
’’ادیب ایک ایساانسان ہے جس میں ادراک کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اس کے اظہار کی قوت بھی۔اس کے اظہار وادراک میں داخلی اور خارجی وسعت اور تہہ داری ہوتی ہے کہ ادب انفرادی اور ذاتی ہوتے ہوئے بھ آفاقی ہوتا ہے۔جتنا بڑاادیب ہوگا اُس کے تجربے کا تنوع ‘اُس کا شعور وادراک اور اُس کا اظہار اتنا ہی بڑا ہوگا‘‘
(مضمون؍ادب کیا ہے؍ ماہنامہ چشمِ بیداد؍مئی 2009)
گویا علم کے ساتھ ساتھ ایک ادیب کا تجربہ (Experience)اور مشاہدہ(observation) کی صفات سے متّصف ہونا ضروری ہے۔وہ محض علم کے گھوڑے پر سوار ہوکر اپنا ہدف پورا نہیں کرسکتا اور نہ ہی خالص تجربہ یا مشاہدہ کی بنیاد پر وہ ادیب ہونے کا حق ادا کرسکتا ہے۔علم ‘تجربہ اور مشاہدہ یہ تین چیزیںمل کر ایک ادیب کو کامل بناتی ہیں۔
فحاشی کو ادب نہ سمجھا جائے‘فحاشی کا لفظ معنی میں ہی ادب کے مخالف لگتاہے۔ادب اخلاقیات سے عبارت ہے‘بقول وزیر آغاؔ’’ادب بنیادی طور پر ایک اخلاقی فعل ہے اور ادیب اخلاقیات کا بہت بڑا نمائدہ‘‘۔کچھ شعراء حضرات میں یہ عیب زیادہ ہوتا ہے کہ وہ فحاشی اور بے حیائی کو شاعری کا جُزو لاینفک بناتے ہیںاُ س پر ستم ظریفی یہ کہ نسوانیت کو عریاں کرکے رکھ دیتے ہیں‘یہی وجہ تھی کہ خلیفہ اسلام حضرت عمرؓ نے غزلیہ شاعری میں عورتوں کاذکر کرنے پر پابندی عائد کی تھی(اولیاتِ عمرؓ)۔ایک اور عیب ہر چیز میں غلو اختیار کرنا ہےاور لوگ ہر چیز میں اس درجہ کا غلو(Exagiration) اختیار کرتے ہیں کہ جھوٹ بول بیٹھتے ہیں۔ان چیزیں سے بچاجائے تو ادب واقعی طورپر زندگی ہے۔
���
سیرجاگیرسوپور‘کشمیر
موبائل نمبر؛8825090545