امام و مؤذِن۔ مقام و مرتبہ اور اَدب و احترام شعائر اسلام

مولانا نعمان نعیم

مسلم معاشرے میں امامت ایک معززاور قابلِ احترام منصب ہے اوراس پر فائز رہنے والے لوگوں کوعام و خاص ہر طبقے میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جب دنیاکے بیشتر خطوں میں سیاسی و سماجی اور تہذیبی ا ور علمی اعتبار سے مسلمانوں کاغلبہ تھا اور مسلم تہذیب دنیاکی مقبول ترین تہذیب تھی، اُس وقت امام کا مرتبہ اس اعتبار سے غیر معمولی تھاکہ وہ نہ صرف پنج وقتہ،جمعہ و عیدین اور جنازے کی نمازوں میں مسلمانوں کے پیشوا ہوتے ،بلکہ اس کے ساتھ لوگ اپنے روزمرہ مسائل و مشکلات کے حل کےلیے بھی انہی سے رجوع کیاکرتے تھے۔ ماضی میں دین و دنیاکے کئی اہم کارنامے انجام دینے والے افراد مساجد کے منبروں سے ہی وابستہ تھے۔
اسی طرح اسلام کے عظیم شعار اذان دینے والے،موذن حضرات اللہ کے منادی، اس کے ترجمان ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے مُبلّغ اور مؤذنین کا مقام ومرتبہ شریعت اسلامیہ میں بہت بلند ہے، احادیث شریفہ میں مؤذّنین کے بڑ ے فضائل آئے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جب مؤذن اذان دیتا ہے اور اللہ تعا لیٰ کی عظمت ،کبریائی ،اس کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اعلان کرتا ہے، تو مؤذن کی آواز انسان ،جنات اور دیگر مخلوقات جو بھی سنتے ہیں، قیامت کے دن وہ اس کے لئے گواہی دیں گے۔ بلاشبہ مؤذنین کی یہ بڑی قابل رشک فضیلت ہے ۔(صحیح بخاری،۸۶/۱)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓکی ایک روایت میں ہے کہ جہاں تک مؤذن کی اذان کی آواز پہنچتی ہے، وہاں تک کی وہ تمام چیزیں جو اس کی اذان سنتی ہیں، سب اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی ہیں۔( صحیح بخاری1/ 125)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓسے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ثواب کی امید رکھتے ہوئے سات سال تک اذان دے تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے ۔(جامع ترمذی)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں: تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، جنہیں دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے۔ ایک ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقا کے حقوق ادا کرتا ہو، دوسرے وہ امام جس سے اس کے مقتدی راضی ہوں، تیسرے وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔ (مسنداحمد ۲/ ۲۶، رقم: ۴۷۹۹)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کتنی فضیلت ہے، پھر وہ اس پر قرعہ اندازی کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ پائیں تو وہ اس پر ضرور قرعہ اندازی کریں اور اگر وہ جان لیں کہ (نماز کے لیے) اول وقت آنے میں کیا فضیلت ہے تو وہ ضرور اس کی طرف دوڑ کر آئیں اور اگر وہ جان لیں کہ نماز عشا اور نماز فجر کی کتنی فضیلت ہے تو وہ ضرور ان میں شریک ہوں، اگر چہ انہیں سر ین کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔(صحیح بخاری1/ 126)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص طور پر مؤذن کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی ہے۔ (جامع ترمذی )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جہنم پر مؤذنین کے جسموں کو حرام قرار دیا ہے ۔(کنز العمال عن عمر ؓ ۲۸۲/۷)
مؤذنین کے لئے آخرت میں بھی اذان عزت وسعادت ،اعزاز واکرام اورسر بلندی وسرخروئی کاسبب ہوگی ۔ حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سُنا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤذن کی گردن کو تمام مخلوق سے بلند فرمادے گا، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤذن کو قیامت کے دن بہت اونچا مقام عطا کرےگا۔(المعجم الکبیر للطبرانی، دار احیاء التراث العربی ۲/ ۳۰۴، رقم: ۱۳۶۹)
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تین قسم کے لو گ مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے ،ایک وہ نیک غلام جس نے دنیا میں اللہ کا حق بھی ادا کیا ہو اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کیا ہو، دوسرا وہ آدمی جو کسی جماعت کا امام بنا اور اس کی عملی اور پاکیزہ سیرت کی وجہ سے مقتدی حضرات خوش ہوں، تیسرا وہ شخص جو دن رات کی پانچ نمازوں کے لئے روزانہ اذان دیا کرتا تھا ۔(جامع ترمذی ،باب ماجاءفی المملوک الصالح۱۹/۲)
ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص سات سال ثواب کی نیت سے اذان دیتا رہے گا ،اس کے لئے جہنم سے خلاصی کا پروانہ لکھ دیا جاتاہے۔ (رواہ ابن ماجۃ عن ابن عباس ؓباب فضل الااذان ۵۳)ایک دوسری روایت میں آیا ہے :جو شخص بارہ سال تک اذان دیتا رہے ،اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے اور اس کی اذان کے بدلے ہر دن ساٹھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اقامت کے بدلے تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔(رواہ ابن ماجہ عن ان عمر باب فضل الاذان: ۵۳)مذکورہ احادیث سے مؤذنین کا مقام ومرتبہ واضح ہوتا ہے۔
علمائےکرام فرماتے ہیں: ان روایات میں بظاہر جو تعارض نظر آرہا ہے،حقیقۃً کوئی اختلاف نہیں ،اخلاص کی کمی وزیادتی اورکثرت اذان وقلت اذان کے اعتبار سے اس طرح کاتعارض ہوتاہے۔ بعض علماءنے فرمایا: انسان کی زیادہ سے زیارہ عمر ایک سو بیس سال اور عموماً ساٹھ وستر برس ہوتی ہے،لہٰذا ان احادیث سے یہ مراد ہے کہ اگر انسان اپنی عمر کا دسواں حصہ اذان دے تو یہ فضیلت حاصل ہوگی ۔(حاشیۃ ابن ماجۃ: ۵۳)
اذان اور مؤذنین کی جوغیر معمولی فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں ،ان کا راز یہی ہے کہ اذان ایمان واسلام کا شعار ہے۔اپنے معنی اور ترتیب کے اعتبار سے دین کی نہایت بلیغ دعوت وپکار ہے اور مؤذّن اس کا داعی اورگویا اللہ تعالیٰ کا نقیب ومنادی ہے۔خیر القرون میں مؤذن کو کما حقہ عزت واحترام حاصل تھا اوریہ سراپاقابل رشک تھے ،حضرات صحابہ ؓ اذان دینے کاشرف حاصل کرنے کے متمنی وخواہش مند رہتے تھے۔ غرض خیر القرون میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترغیبی احادیث اور مؤذنین کے لئے خصوصی دعائے مغفرت کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں مؤذّن کو بڑی عزت وعظمت حاصل تھی۔
افسوس !آج ہم مسلمانوں نے اس حقیقت کو بالکل بھلادیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مکمل طور پر صادق آتی ہے ،جس میں آپ ؐنے حضرات صحابہ ؓ سے فرمایا : تمہار ے زمانہ (خیر القرون )کے بعد ایسا زمانہ آئے گا، جس میں قوم کے کم حیثیت اور بے قیمت لوگوں کو مؤذن بنایا جائے گا۔(کنز العمال)ایک زمانے میں اذان کوکمزور لوگوں کے حوالہ کیاجائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں وہ اذان کو معاشرے میں کمزور لوگوں کے حوالے کردیں گے ،حالانکہ ان کے جسم ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ کوحرام قرار دیاہے ۔(عن عمر ؓکنزالعمال۲۸۲/۷)
قارئین کرام !س زمانے میں ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں ،پڑھے لکھے لوگ بھی اذان دینے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مؤذن اس شخص کو بنایاجاتاہے جو انتہائی پسماندہ ،دینی وعقلی اعتبار سے بے حد کمزور، بدنی اعتبار سے معذوراوردنیوی اعتبار سے مجبورولاچار ہو،چاہے وہ شخص دین دار ہویانہ ہو،چاہے وہ کلمات ِاذان کو صحیح ادا کرسکتا ہو یا ادا نہ کرسکتا ہو ۔حالانکہ ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترغیبی احادیث اور حضرات صحابہ ؓ کے اقوال اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر اور واقعات موجود ہیں۔ہمارا یہ عمل ایک عظیم شعار اسلام کے ساتھ بے حرمتی وناقدری نہیں ہے، تو اور کیا ہے ؟اللہ تعالیٰ ہمارے اس عظیم ترین اجتماعی گناہ کو معاف فرمائے اور توبہ اوراصلاح کی ہمیں تو فیق عطا فرمائےاور ہمیں ائمہ و مؤذنین کے مقام ومرتبے کی قدرکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس کی ایک ظاہری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہم مؤذنین حضرات کی عزت وتعظیم اور ان کے مقام کے شایان شان اکرام واحترام نہیں کرتے ، ان کی معمولی غلطی پر ان کی تحقیر کرتے ہیں ،محلے کا ہر کس وناکس مسجد میں پہنچ کر ان سے اُلجھتاہے، ان وجوہ کی بناء پر لوگ اس عظیم ذمہ داری کو قبول کرنے سے بھاگتے ہیں۔ حقیقت میں ائمہ کرام اور مؤذنین حضرات دنیا وآخرت میں قابل تعظیم وتکریم اور لائق احترام ہیں۔ ہم ان کا مقام ومرتبہ جانتے نہیں، جس کی وجہ سے ان کی قدربھی نہیں کرتے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم ان حضرات کی بنیادی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے، حالانکہ خیر القرون میں ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جاتا تھا۔
علامہ شبلی نعمانی ؒ’’الفاروق‘‘میں لکھتے ہیں: حضرت عمر ؓ نے ہر شہر وقصبہ میں امام ومؤذن مقرر فرمائے اوربیت المال سے ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔(بحوالہ تعمیر حیات ج۴۷ش ۲۱۔۲۲) لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ائمہ و مؤذنین حضرات کی بنیادی ضروریات کا خاطر خواہ خیال رکھیںتاکہ یہ حضرات شعار اسلام کی اس عظیم ذمہ داری کو بحسن وخوبی اور یکسوئی کے ساتھ انجام دیتے رہیں۔ان حضرات کے حقوق کی ا دائیگی اور ان کی حاجت براری دنیا میں خیر و برکت کا باعث اورآخرت میں فلاح وسعادت کا ذریعہ ہے۔ ان کی تحقیر اوران کی حق تلفی دنیا میں ذلت ورسوائی اور آخرت میں ناکامی ونامرادی کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ائمہ و مؤذنین کا مقام و مرتبہ جاننے اور ان کی صحیح قدر کرنے اور ان کے حقوق کی ادا ئیگی کی توفیق عطافرمائے ۔(آمین)