اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے فہم و فراست

انوار الحق قاسمی

نیپال میں حالیہ الیکشن سے قبل مسلم معاشرے میں مسلمانوں کے مابین جو الفت و محبت دیکھا، وہ قابل رشک دیکھا۔ہر مسلم امیدوار اپنی کامیابی و کامرانی کےلیے اپنے ان مسلم بھائیوں سے جن سے مدت مدید سے بات بگڑی ہوئی تھی،اور معمولی خلش پر بھی معاملہ ایک بڑے جھگڑے کی روپ اختیار کرلیتاتھا(جس سے کافی جانی اور مالی نقصان پہنچتاتھا) صلح کرنے میں معمولی بھی کوتاہی سے کام نہیں لیا،یعنی بہ عجلت گذرے دنوں کے تنازعات آن واحد میں رفع کرکے باہم متحد ہوگئے(اس موقع سے کچھ بھی کوتاہی صرف اس لیے نہیں کیا کہ یہاں ان کے پیش نظر جاہ و جلال اور حصول مال و زر تھا)اور کثرت مودت و محبت کے یقین و اظہار کے لیے ان پر بھتیرے دولت لٹایا(سمجھیے کہ دنیا ہی کو ان کے لیے جنت بنادیا اور کہہ دیا جو دل چاہے خوب کھاؤ) تاکہ ان کا اعتماد حاصل کرکے الیکشن میں ان کے ووٹ سے کامیاب اور بامراد ہوسکے۔
مگر جب الیکشن کا نتیجہ سامنے آیا،تو معاملہ بالکل ہی برعکس نظر آیا ،یعنی ووٹ ان کے حق میں نہیں بلکہ خلاف ڈالا گیا،تاکہ ناکامی اور شکست ہاتھ آئے،جب صورت حال یوں دیکھا تو پھر ان کا غصہ بھڑکتے ہوئے آگ کے شعلوں سے بھی زیادہ بھڑک اٹھا۔
پھر ہر صبح وشام قہوہ خانوں پر اپنے پرانے حریفوں کے خلاف خوب دشنام طرازیاں کرنے لگا اور بارہا درد دل سے غم اور افسوس کے لہجے میں کہتا’’ کہ میں سمجھتا تھا کہ واقعی ان دشمنوں کا دل ہم سے مل گیا ہےاور انہوں نے ہم سے حقیقی صلح کیاہے۔اس لیے ان پر ان کا ووٹ حاصل کرنے کےلیے میں بے دریغ مال صرف کیا،مگر اب جب تنیجہ سامنے آیا ،تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ہم سے صلح نہیں بلکہ دھوکے کا سودا کیاتھا،جس کا ادراک بالآخر اب ہمیں ہوہی گیا۔‘‘
میرے مذہبی بھائیو! دنیا حاصل کرنے کے لیے اگر صلح و سمجھوتہ کروگے،تو اس کا نتیجہ یہی پاؤگے’’ کہ حقیقی معنوں میں تلخیوں کو ختم نہیںبلکہ مزید پروان چڑھتے دیکھوگے۔‘‘
اگرآپ واقعی اپنے پرانے دشمنوں سے دائمی طورپر دشمنیاں ختم کرنا چاہتے ہیں،تو پھر آپ اللہ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صلح و صفائی کریں!پھر دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیسے معنی خیز اور دیر پا ثابت ہوتا ہے؟ دنیوی معاملات میں بھی اس کا اثر اچھا ہی رہےگا،مگر شرط اول یہ ہےکہ صلح صرف اللہ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہو۔
حقیقت یہی ہے کہ ہم ہر معاملے میں آج ناکام اور پریشان صرف اس لیے ہیں کہ ہمارا بڑا سے بڑا اور چھوٹا سے چھوٹا عمل دنیاوی اغراض کے پیش نظر ہونے لگاہے،ہم وہی کام بروئے کار لاتے ہیں،جس میں ہمیں دنیاوی منفعت دکھتاہے،اور ہم آخرت کو ہروقت بالائے طاق ہی رکھتے ہیں۔
جس دن سے ہمارا ہر عمل اللہ ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت کے لیے ہونے لگے گا،سمجھ لیجیے کہ اسی دن سے ہمیں ہر معاملے میں مکمل کامیابی بھی ملنے لگے گی اور لوگوں سے جو ہمارے شکوے ہوتے ہیں ،سب ختم ہو جائیں اور ہمارا ہر عمل بار آور ثابت ہوگا، اس کے علاوہ کی صورت میں ہم لاکھ شور و غوغا مچائیں اور اپنی چیخ سے آسمان پھاڑیں گے؛مگر سوائے نقصان کے ہمیں کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔کیوں کہ معلوم ہونا چاہیے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پرہے،اس لیے جیسی نیت ہوگی، ویسا ہی نتیجہ سامنے آئے گا۔
[email protected]>