آخری نیکی افسانہ

 ڈاکٹر مشتاق احمدوانی

نظام ا لدّین نے ناشتہ کرنے کے بعد اپنے گھر کے واش بیسن میں ہاتھ دھوئے ۔کُلی کرتے ہوئے اُنھیں سامنے دیوار پر لگے آئینے میں اپنا نُورانی چہرہ نظر آیا تو لمحہ بھر کے لیے اُسے دیکھتے ہی رہ گئے ۔پھر اچانک اُن کی نظر اپنی سیاہ ریشمی داڑھی میں مختلف مقامات پہ اُگے چند سفید بالوں پر پڑی تو انہیں دھچکا سا لگا۔ اُنھوں نے اپنی بیوی ضوفشاں سے کہا
’’ضوفشاں…!اری دیکھو میری داڑھی میں سفید بال اُگنے لگے ہیں ۔پہلی بار دیکھ رہاہوں‘‘
ضوفشاں مُسکراتی ہوئی بولی
’’اب آپ بُزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ بوڑھے ہورہے ہیں ‘‘
نظام الدّین تلملا اُٹھے
’’اری یہ تُم کیا کہہ رہی ہو ! میں تیس سال کانو جوان کیسے بوڑھا ہورہا ہوں ؟‘‘وہ اپنی داڑھی میں اُگے اُن چند سفید بالوں کو اُکھیڑنے لگے تو ضوفشاں نے منع کردیا بولی
’’ان سفید بالوں کو نہ اُکھیڑیں ،یہ اور زیادہ اُگ آئیں گے‘‘
’’تو پھر کیا کروں‘‘
’’اِنھیں رہنے دیجیے ،یہ تو آپ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ جس مرض کا علاج نہ ہو اُسے برداشت کرنا پڑتا ہے ‘‘
نظام الدّین نے کہا
’’لو میں داڑھی منڈوالیتا ہوں‘‘
ضوفشاں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا
’’توبہ … توبہ…!ایسا گناہ نہ کیجیے گا ۔آپ کا نام نظام الدّین ہے۔کیا اس کے باوجودا تنی خوب صورت داڑھی منڈھوائیں گے؟داڑھی تو مرد کا زیور ہوتی ہے ۔آج تک آپ نے کسی عورت کے چہرے پر داڑھی دیکھی؟‘‘
نظام الدّین کی بے قراری کو قرار نہیں آرہا تھا کہ اچانک اُن کے دماغ میں ایک خوش کُن خیال آیا ۔جھٹ سے بول پڑے
’’ہاں …یاد آیا ایک کام کرتا ہوں وہ یہ کہ داڑھی میں خضاب لگاؤں گا‘‘
ضوفشاں نے اس کی بھی تردید کی کہنے لگی
’’کہیں بھولے سے بھی یہ کام نہ کیجیے گا ،چند مہینوں میں آپ کی داڑھی کے تمام بال سفید ہوجائیں گے اور آنکھوں کی بینائی میں بھی کمی آنا شروع ہوجائے گی‘‘
نظام الدّین سے کوئی بھی جواب نہیں بن پڑا ۔اُن کے چہرے سے بے بسی اور افسردگی کے آثار نمایاں ہورہے تھے ۔وہ شہر اور دیہات کے درمیان
ایک بڑی کمپنی میں سافٹ ویئرانجینئر تھے ۔شادی ہوئے دس سال ہوگئے تھے ۔والدّین کی مرضی کے مطابق ضوفشاں کے ساتھ شادی کی تھی ۔اُن کی دو پھول جیسی جڑواں بچّیاں جب ایک ساتھ اُنھیں دیکھتے ہی دوڑتی ہوئی آکر اُن کی گود میں بیٹھ جاتیں تو اُن کے رُوئی نُما ہاتھوں اور گالوں کے لمس سے نظام الدّین کی روح میں سُکون اور دل میں ٹھنڈک اُتر جاتی ۔ضوفشاں نے ہسٹری میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی لیکن وہ نوکری کرنا نہیں چاہتی تھی ۔نظام الدّین اپنے مکان سے باہر لان میں آکے کرسی پہ بیٹھ گئے اور آسمان کی وسعتوں پہ نظریں دوڑانے لگے ۔صبح کے دس بج چکے تھے ۔اُنھوں نے سورج سے نظریں ملانے کی کوشش کی لیکن نہیں ملاپائے ۔آنکھیں چندھیانے لگیں ۔اسی دوران اُن کی نظر خلا میں اُڑتے ہوئے کبوتروں کے ایک جھنڈ پر پڑی تو اُن کے دل میں یہ تمنّا پیدا ہوئی کہ کاش !میرے بھی پنکھ ہوتے تو میں بھی اسی طرح نیلے گگن کے تلے دُور تک اُڑتا چلاجاتا ۔وہ دیر تک حیات وکائنات پر غور وفکر کرتے رہے ۔بچپن ،لڑکپن ،جوانی،بڑھاپا،موت،آگ ،پانی ،ہوا،جنگل،پہاڑ،دریا ،سمندر،چرندے، پرندے،درندے،صبح وشام،دن،رات،گرمی،سردی،بہار وخزاں،دُکھ درد ،رنج والم ،بیماریاں،خوشی،اُمیدیں ،آرزوئیں ،تمنّائیں ،حسد ،بغض،عناد،اچھا،بُرا ، حرام وحلال ،سچ ،جھوٹ،طرح طرح کے مسائل اور اُلجھنوں کو سلجھاتے سُلجھاتے آخر کار آدمی کا وجود مٹی میں مل جاتا ہے ! سب رشتے ناطے ،اپنے پرائے ،دوست ودُشمن ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔ان تمام باتوں پہ غور وفکر کرتے ہوئے نظام الدّین کو اپناآپ وقت کے دریا میں بہتا ہوا معلوم ہوا ۔وہ سوچ کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتے جارہے تھے کہ اچانک ضوفشاں کی آواز نے اُنھیں چونکادیا وہ اُن کے قریب آئی اورکہنے لگی
’’آپ کن خوابوں اور خیالوں میں کھوئے ہوئے ہیں ؟آٹا ،تیل،ہلدی ،مرچ،صابن اوردالیں گھر میں یہ چیزیں ختم ہوگئی ہیں ۔میں نے ان چیزوں کی لسٹ بنائی ہے۔ دُکان پہ جائیں اور یہ سبھی چیزیں مجھے ابھی لاکر دیں ‘‘
نظام الدّین نے سرتا پا اپنی بیوی کو دیکھا اور کہنے لگے
’’ابھی جاتا ہوں‘‘وہ کرسی سے اُٹھے اور گیٹ کی طرف جاتے ہوئے کہنے لگے
’’ضوفشاں …! مجھے اپنی داڑھی میں اُگے سفید بال یاد آرہے ہیں ‘‘
ضوفشاں نے تمسخرانہ لہجے میں کہا
’’مجھے سفید رنگ پسند ہے ۔آپ مجھے دُکان سے سودا لاکر دیں ‘‘
نظام الدّین گھر سے باہر بازار میں دُکان پر آئے ۔دُکان دار سے ضرورت کی چیزیں خریدنے لگے کہ اتنے میں اُن کے کانوں میں سنکھ کی آواز پڑی۔اُنھوں نے باہر سڑک کی طرف دیکھا تو چار آدمی کسی کی ارتھی اُٹھائے شمشا ن گھاٹ کی طرف لے جارہے تھے اور کچھ لوگ زورزور سے رام نام ستیہ ہے۔رام نام ستیہ ہے کی رٹ لگائے میت کے ساتھ چل رہے تھے ۔لوگوں کا بہت بڑا ہجوم مرنے والے کے پیچھے آہستہ آہستہ شمشان گھاٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ نظام الدّین کو معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ وزیر ِ صحت دولت رام کی ارتھی اُٹھی ہے اور وہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اس دُنیا سے چل بسے ہیں۔ وہ دولت رام کو اچھی طرح جانتے تھے لیکن آج دولت رام کا دُنیا سے اچانک رُخصت ہونا اُنھیں مایوس کرگیا ۔دولت رام واقعی دھن دولت کے مالک تھے۔
لیکن آج بالکل خالی ہاتھ دُنیا سے جارہے تھے! مُردہ بدست زندہ!نظام الدّین نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔اُنھیں دُنیا کی ناپائیداری اور آخرت کی دائمی زندگی کا احسا س ہوا ،ساتھ ہی انھیں اپنے خاندان کے بزرگ اوروہ دوست واحباب یکے بعد دیگرے یاد آنے لگے جو کسی حادثے یا بیماری کے سبب اللہ کو پیارے ہوگئے تھے ۔اُن کے ذہن ودل کو بار بار یہ احساس جھنجھوڑنے لگا کہ زندگی ایک حادثہ ہے ۔سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آدمی اس دُنیا میں خالی ہاتھ آتا
ہے اورخالی ہاتھ جاتا ہے اور اگر کوئی چیز ساتھ جاتی ہے تو وہ اُس کے اچھے بُرے اعمال ہیں ۔ وہ گھر کے قریب پہنچنے ہی والے تھے کہ آگے سے اُنھیں ایک بھیک مانگنے والی عورت نظر آئی ۔وہ اُنھیں دیکھتے ہی بڑی پُر سوز آوز میں گانے لگی
جائے گا جب جہاں سے کچھ بھی نہ ساتھ ہوگا
دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہوگا
گیت کے بول سُنانے کے فوراً بعداُس عورت نے نظام الدّین کی طرف ہاتھ پھیلایا ۔ نظا م الدّین کے دل میں گیت کے بول اور عورت کی آواز نے ہلچل سی پیدا کردی تھی۔ اُنھوں نے جیب سے کچھ روپے نکالے اور اُس کے ہاتھ پہ رکھ دیئے لیکن اُس عورت کو نصیحت آمیز لہجے میں سمجھانے لگے
’’بھیک مانگنا اچھی بات نہیں ہے ۔تمہارے ہاتھ، پیر،آنکھیں سب کچھ سلامت ہیں لیکن اس کے باوجود بھیک مانگتی ہو۔آخر کب تک بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پالتی رہوگی؟ کہیں جاکے کام کرو‘‘
نظام الدّین نے اپنے گھر کے اندر قدم رکھا تو ضوفشاں نے پوچھا
’’کہاں تھے ابھی تک ؟ بہت دیر کردی ۔مجھے ابھی دوپہر کا کھانا تیار کرنا ہے ۔بچّیوں کی وردی دھونے کو پڑی ہے‘‘
نظام الدّین نے جواب دیا
’’ضوفشاں! وزیر ِصحت دولت رام اب دُنیا میں نہیں رہے ۔اُن کی ارتھی جارہی تھی ۔بازار میں سے گزرنا مشکل ہورہا تھا ۔اس لیے دیر ہوگئی‘‘
ضوفشاں نے حیرت سے پوچھا
’’اُنھیں کیا ہوگیا!وہ تو بالکل ٹھیک تھے ؟‘‘
نظام الدّین نے کہا
’’ہارٹ اٹیک اُن کی موت کاسبب بنا ہے ۔سب کوجانا ہے باری باری اور جہاں جانا ہے وہاں کی کوئی بھی تیاری نہیں ہے !آج میں اپنے گذشتہ تیس برسوں پردھیان دیتا ہوں تو لگتا ہے کل کی بات ہے ۔بچپن ،لڑکپن،اسکول اور کالج کا زمانہ ،دوست اور میرے ہم جماعت کہاں کہاں ملے اور کن کن راہوں پر بچھٹر گئے اور پھر تُمہارا میری زندگی میں آنا ،ان بچّیوں کا پیدا ہونا ۔سچ کہتا ہوں مجھے سب یاد ہے ذراذرا۔ایک دن میری زندگی کی کہانی ختم ہوجائے گی ۔اس لیے چاہتا ہوں کہ قرآن وحدیث کے مطابق زندگی کا سفر طے کرلوں اور جہاں تک ہوسکے نیکیاں کماؤں‘‘
ضوفشاں بولی
’’یہ توبہت اچھی باتیں ہیں ۔آپ کی سوچ اور ارادوں سے مجھے اتفاق ہے ۔خدا ہم کو نیک کام کرنے کی توفیق دے‘‘یہ کہتے ہوئے ضوفشاں کچن میں کھانا تیار کرنے میں لگ گئی اور ادھر نظام الدّین کی ایک بچّی اُنھیں کہنے لگی
’’پاپا…! مجھے چاکلیٹ کھانا ہے ۔لاکر دو‘‘
دوسری نے کہا
’’پاپا…!میرے لیے آئس کریم لانا‘‘
اپنی پیاری بچّیوں کی خواہش پوری کرنے کے لیے وہ اُٹھے اور چلچلاتی دُھوپ میں دُکان سے بچّیوں کے لیے چاکلیٹ اور آئس کریم لے آئے۔نظام الدّین اپنی داڑھی میں اُگے سفید بالوں کو دیکھ کر فکر مند ہوگئے تھے ۔اُن کی زبان پر ہر وقت اللہ کاذکراور دل میں آخرت کی فکر رہنے لگی۔گردشِ روز وشب میں اُنھیں یوں معلوم ہورہا تھا کہ جیسے کالا اور سفید چوہا اُن کے وجود کومسلسل کُتر رہے ہوں اور وہ بے بسی کی حالت میں محوئے حیرت ہوں ۔ایک روز وہ گھر سے اپنی ڈیوٹی پہ جارہے تھے کہ اُنھیں انیتا کور نام کی ایک بوڑھی عورت گرتے سنبھلتے نظر آئی ۔اُنھوں نے گاڑی ایک طرف لگائی نیچے اُترے اور بُڑھیا کے قریب آکر اُسے پوچھنے لگے
’’کیا حال ہے مائی؟‘‘
’’بیٹے !بس یہی حال ہے جو تُم دیکھ رہے ہو۔میری آنکھیں اب کافی کمزور ہوگئی ہیں ۔چھوٹی بڑی چیزیں پہچاننا مشکل ہورہا ہے ۔میرا بھی آپ ہی کی طرح ایک خوب صورت نوجوان بیٹا تھا ۔اُسے اوپر والے نے دوسال پہلے اپنے پاس بلالیا! ۔اُس کے باپو پہلے ہی پرلوک سدھار گئے تھے ۔میری بیٹی کی بیٹی اور میں گھر میں رہتی ہیں ‘‘
’’مائی ! آپ کہاں رہتی ہیں ؟‘‘
’’وہ سامنے میرا مکان ہے‘‘اُس بُڑھیا نے اُنگلی کے اشارے سے نظام الدّین کو اپنا مکان دکھایا۔نظام الدّین نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا
مائی…! میں اتوار کو آپ کے گھر پر آؤں گا اور آپ کو ساتھ لے کر ڈاکٹر سے آپ کی آنکھیں چیک کراؤں گا‘‘
’’بیٹے! مالک آپ کو سدا سُکھی رکھے ! مجھ دُکھیاری کو اور کیا چاہیے‘‘
اتوار کے دن جب نظام الدّین اُس بوڑھی عورت کو آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو ڈاکٹر نے اُس کی نظر چیک کرنے کے بعد ایک موٹےشیشے کی عینک بنانے کودی۔کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب عینک تیار ہوئی اور بوڑھی نے پہنی تو اُس کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا
’’آہا……!بیٹے! مجھے تو سارا سنسار نظر آرہا ہے ۔تُجھے میری عمر لگے !کسی نے صحیح کہا ہے کہ’ ’دانت گئے تو سواد گیا،آنکھیں گئیں تو جہان گیا‘‘تُونے پُتر آج میرا جہان لوٹا دیا‘‘
نظام الدّین کو دل میں سکون محسوس ہوا ۔اُن کے دل سے یہ آواز آئی کہ اُنہوں نے آج ایک نیک کام کیا ہے۔ایک روز وہ اپنے گھر سے گاڑی میں پیٹرول ڈالنے بازار جارہے تھے کہ قومی شاہراہ کے ایک بہت بڑے چوک پر اُنھیں کوئی اسّی سال کا ایک بوڑھا سڑک پار کرنے کے لیے ترستا نظر آیا ۔چھوٹی بڑی گاڑیاں مسلسل سڑک پر گزررہی تھیں اور یہ بوڑھا جونہی آگے بڑھتا تو کوئی گاڑی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اُس کے قریب آجاتی ۔وہ ڈروخوف کے مارے چارقدم پیچھے ہٹ جاتا ۔وہ بوڑھا نہ جانے کب سے سڑک پار کرنے کا جتن کررہا تھا مگر چھوٹی بڑی گاڑیوں والے کہاں اس بوڑھے پر ترس کھانے والے تھے۔ سڑک کو اپنی گاڑیوں سے یوں رُوندھتے ہوئے گزررہے تھے کہ جیسے اُنھیں ہمیشہ دُنیا میں رہنا ہو۔نظام الدّین کو اس بوڑھے کی بے بسی اور ضعف
پر ترس آیا۔اُنھوں نے اپنی گاڑی سڑک کے ایک طرف کھڑی کردی اور اُس بوڑھے کے قریب جاکر اُسے پوچھنے لگے
’’دادا…!آپ کو کہاں جانا ہے ؟سڑک پار کرنا چاہتے ہیں کیا؟‘‘
’’ہاں بیٹے ،مجھے سڑک پار کرنے میں ڈر لگ رہا ہے ۔یہ گاڑیوں والے رُکتے ہی نہیں ‘‘
نظام الدّین نے کہا
’’دادا…! میرا ہاتھ پکڑ لیجیے‘‘بوڑھے نے اُن کا ہاتھ پکڑا اور سڑک کے پار پہنچادیا
بوڑھے نے اظہارِ ممنونیت کے طور پر کہا
’’بیٹے! جیتے رہو!‘‘
نظام الدّین نے کہا
’’دادا! اپنا نام ومقام تو بتائیے‘‘
اُس نے کہا
’’مجھے کرنل تیج بہادر بھان کہتے ہیں ۔میں فوج میں کرنل تھا‘‘
نظام الدّین کو کمپنی والے بہت چاہتے تھے ۔کئی معاملات میں کمپنی کا جنرل منیجر اُن سے مشورہ کرتا تھا ۔ایک روز وہ کمپنی کے دفتر میں بیٹھے جنرل منیجر سے کاروباری معاملات پہ گفتگو کررہے تھے کہ اسی اثنا میں اُنھیں اُن کے دوست احسان کا فون آیا ۔اُنھوں نے اس دوران دوست کا فون نہیں اُٹھایا ۔کچھ وقت کے بعد جب وہ اپنے کمرے میں آئے تو اُنھوں نے احسان کو فون کیا اُس نے بتایا کہ اُس کے محلے میں نُور خان نام کے ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے لیکن محلے کا کوئی بھی آدمی اُسے غسل دینے کے لیے تیار نہیں ہورہا ہے ۔وہ اس لیے کہ اُس کے جسم پہ پھوڑے نکل آئے تھے جن میں سے پیپ رستی رہتی تھی ۔دوست نے یہ بھی بتایا کہ نور خان پہ جب آج سے ڈیڑھ سال قبل تین ہزار روپے کی چوری کا الزام لگا تو پنچایت بیٹھی۔پنچایت کے ممبران نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر نورخان اپنے آپ کو سچّا سمجھتا ہے تو اپنے سر پر قرآن مجید رکھ کر یہ کہہ دے کہ میں نے چوری نہیں کی ہے تو اُس پر یقین کیا جائے گا۔نور خان نے بے عزتی سے بچنے کے لیے قرآن مجید سر پر اُٹھا لیا۔کوئی دو ماہ کے بعد اُس کے بدن پہ آہستہ آہستہ پھوڑے نکلنے لگے ۔آج زندگی نے اُس کا ساتھ چھوڑدیا اور موت نے اُسے گلے لگالیا۔نظام الدّین نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔اُنھوں نے فوراً اپنی گاڑی نکالی اور اپنے دوست احسان کے گھر پہنچ گئے ۔اُنھوں نے متوفی کو خود اپنے ہاتھوں سے غسل دیا،تابُوت میں لاش رکھوائی ،میت کو کندھا دیا ۔سب لوگ اُنھیں دیکھ کے ششدر رہ گئے ۔اس طرح نورخان کی تہجیز وتکفین کے بعد گھر لوٹ آئے۔شام کے پانچ بج چکے تھے ۔اُنھوں نے نمازِعصر پڑھنے کے بعد چائے پی ۔دونوں بچّیاں اُنھیں دیکھ کر فوراً اُن کی گود میں آکے بیٹھ گئیں ۔وہ اُن سے پیار دُلار کی باتیں کرنے لگے۔ضوفشاں نے کہا
’’دس دن کے بعد میری خالہ زاد بہن ناہیدہ کی شادی ہے ۔اس لیے کل آپ ڈیوٹی پہ نہیں جائیں گے ۔مجھے شاپنگ کرنی ہے ۔اپنی ان جُڑواں بچّیوں ثنا اور صفا کے لیے کپڑے،چپل ،بوٹ ،آپ کاسُوٹ بوٹ اور اپنے لیے بہت سی چیزیں خریدنا چاہتی ہوں ‘‘
نظام الدّین نے کہا
’’ہاں ٹھیک ہے کل میں ڈیوٹی پہ نہیں جاؤں گا۔تُم اُن تمام چیزوں کی ایک لسٹ تیار کرکے رکھو کل اُنھیں بازار میں جاکر خرید لیں گے‘‘
دوسرے دن نظام الدّین ،ضوفشاں اور اُن کی دونوں بچّیاں ایک بہت بڑے شوروم میں خریداری کرنے گئے ۔نظام الدّین نے اپنی بیوی اور بچّیوں کے لیے بہت سی چیزیں خریدیں اور اپنے لیے بھی سُوٹ بوٹ خریدا ۔شام سے پہلے پہلے وہ اپنے گھر پہنچے ۔دوسرے دن جب نظام الدّین ڈیوٹی پہ جانے کے لیے تیار ہوئے تو ضوفشاں نے کہا
’’آج ڈیوٹی سے جلدی گھر آجایئے گا ۔میرادل چاہتا ہے کہ آج باہر کسی اچھے ہوٹل میں شام کاکھانا کھائیں گے ‘‘
نظام الدّین نے بیوی کی رائے سے اتفاق کیا۔کہنے لگے
’’میری جان! میں جلدی آؤں گا۔تُم تیار رہنا‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اپنی ڈیوٹی پہ چلے گئے۔کوئی ایک بجے کے قریب وہ اپنے آفیسر سے رُخصت لے کر گھر کے لیے روانہ ہوئے ۔وہ ہرروز ایک گنجان اور سنسان جنگلی علاقے سے گزرکر گھر پہنچتے تھے ۔اگرچہ اس جنگلی علاقے پہ گاڑیوں کی آمد ورفت رہتی تھی لیکن دراب چیڑ،دیودار اور دوسرے پیڑوں کی گھنی آبادی کے سبب اس علاقے میں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں نظر آنے لگتا تھا ۔نظام الدّین جونہی اس جنگلی علاقے میں سے گزرنے لگے تو اُن کی نظر سڑک کے کنارے تڑپتے ہوئے ایک بندر پر پڑی کہ جس کی پچھلی دونوں ٹانگیں کسی تیزرفتار گاڑی والے نے توڑ دی تھیں ۔نظام الدّین کے دل میں یہ سوچ کے رحم آگیا کہ کوئی دوسرا گاڑی والا اس کو ماردے گا ۔اُنھوں نے فوراً اپنی گاڑی سڑک کے کنارے پر کھڑی کردی اور اُس تڑپتے ہوئے بندر کے قریب آگئے ۔اُنھوں نے اُسے اگلی دو ٹانگوں سے پکڑا اور سڑک سے باہر ایک طرف لے گئے کہ اتنے میں بندر وں کی ایک کثیر تعداد
نے اُنھیں دیکھ لیا اور چاروں طرف سے اُن پہ جھپٹ پڑے ۔اُنھوں نے بھاگنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ نہیں بھاگ پائے ۔چند ہی لمحوں میں بندروں نے اُنھیں نوچنا کھسوٹنا شروع کیا اور اس طرح اُن کی روح اپنے مالکِ حقیقی کی طرف پرواز کرگئی!
���
سابق اسسٹنٹ پروفیسر باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛9419336120
[email protected]