Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

کیا میں بوجھ ہوں؟ افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: July 14, 2024 12:43 am
Mir Ajaz
Share
15 Min Read
SHARE

شاہد مقبول

شادی کے بعد اسلم نے والدین سے کہا _”چونکہ میری ڈیوٹی شہر میں ہے اگر خالدہ یہاں رہی اور میں شہر میں تو دو گھر ہوجائیں گے بہتر یہی رہے گا کہ میں اسے بھی اپنے ساتھ شہر میں رکھوں “آپ کا اس سلسلے میں کیا کہنا ہے؟
باپ نے کہا ،، بیٹا ہم نے تمہاری شادی کرا کے اپنا فرض ادا کیا اب بیوی کی تمام تر ذمہ داری تمہاری ہے اس لئے ہماری جانب سے کوئی اعتراض نہیں، رہی بات ہماری دیکھ بھال کی تو یہ گاؤں ہی ہمارا قبیلہ ہے ،بیٹی اور داماد بھی تو یہاں ہیں،،
باپ کے فیصلے کے بعد اسلم نے گاؤں سے شہر کی جانب رخ کیا۔ _ چند سال بعد ان کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی جس میں ایک بیٹا اوربیٹی تھی۔ _بیٹے کا نام احمد رکھا گیا اور بیٹی کا نام فاطمہ _۔
وقت کے ساتھ ساتھ دونوں بچے بڑے ہونے لگے تو خالدہ کو اُن کے مستقبل کی فکر لاحق ہوئی۔ ایک دن موڑ اچھا دیکھ کر خالدہ نے اسلم سے کہا کہ اب بچے بڑے ہوگئے ہیں اب ان دونوں کا داخلہ کسی اچھے اسکول میں کروادیں تاکہ یہ کچھ پڑھ لکھ جائیں _ آپ تو دن بھر دفتر میں ہوتے ہیں اور مجھے ان دونوں کو سنبھالنا پڑتا ہے، میں ٹھیک سے گھر کا کام بھی نہیں کر پاتی ہوں _۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد اسلم نے کہا کل میں دفتر سے آدھے دن کی چُھٹی لے کر ایک دو اسکول دیکھنے جاؤں گا پھر دونوں کا داخلہ کرادیں گے ،چلو جلدی سے چائے کا ایک کپ بنادو، سر بھاری لگ رہا ہے، اسلم نے اپنی نکٹائی کا ناٹ ڈھیلا کرتے ہوئے کہا تو خالدہ فوراً رسوئی کی طرف چلی گئی _۔
دوسری صبح اسلم دفتر کے طرف روانہ ہوا۔ دوپہر کو فون کرکے بیوی کو کہا کہ دونوں بچوں کو تیار رکھو میں تھوڑی دیر میں پہنچتا ہوں، خالدہ جلدی سے دونوں بچوں کو تیار کرکے اسلم کا انتظار کرنے لگی _۔
چلو چلو جلدی کرو…..! اسلم نے دونوں بچوں کو اسکوٹر پر بٹھایا تو خالدہ مسکرا کر بولی۔
سنو…. ! میں کیا کہتی تھی، آج بچوں کا اسکول میں داخلہ کروارہے ہو تو شام کو کہیں باہرہوٹل میں کھانا کھانے چلیں،؟
خالدہ نے اس انداز سے کہا کہ اسلم انکار نہ کرسکا اُس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور اسکوٹر اسٹارٹ کرکے آگے بڑھ گیا _ ۔
اسلم نے دونوں بچوں کا داخلہ ایک پرائیویٹ اسکول میں کرانے کا فیصلہ لیا اور پرنسپل کے آفس میں پہنچ گیا _۔
پرنسپل کے ساتھ سلام دعا کے بعد اپنے ڈیپارٹمنٹ کا کارڈ دکھا کر کہنے لگا، ہم نے آپ کے اسکول کا کافی نام سُنا ہے اسی لئے دونوں بچوں کا داخلہ اسی اسکول میں کرانا چاہتے ہیں۔ پرنسپل نے اُسے کہا یہ ہمارے لئے مسرت کی بات ہے۔ آپ کے ڈیپارٹمنٹ سے اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے اس لئے ڈونیشن نہیں لیں گے لیکن ماہانہ فیس اور بس کرایہ ملا کر کُل چار ہزار روپے ایک بچے کا بھرنا ہوگا۔ دو بچوں کا آٹھ ہزار ماہانہ سُن کر اسلم کا سر چکرانے لگا۔ وہ من ہی من میں سوچنے لگا کہ ایک مہینے کا آٹھ ہزار اور سال کا چھیانوے ہزار ادا کرنا پڑے گا۔ دراصل اسلم کے ذہن میں بیٹیوں کے بارے میں ہمیشہ سے منفی سوچ پنپ رہی تھی کہ بیٹی تو پرایا دھن ہوتی ہے جس کو دوسرے گھر جانا ہے اُس کو کس لئے زیادہ پڑھانا لکھاناہے، اُس نے چولہا چوکا ہی تو کرنا ہوتا ہے _۔ جب بھی کبھی بیٹی کی بات آتی تھی تو اسلم کو گھر سے لیکر دفتر تک کے سارے خرچے یاد آتے تھے اس وجہ سے وہ فاطمہ کو چھوڑ کر احمد کو زیادہ توجہ دیتا تھا۔ _ اب کسی طرح اسلم نے بہانہ بنا کر احمد کا داخلہ اسی پرائیویٹ اسکول میں کروایا اور گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ گھر پہنچتے ہی خالدہ نے پوچھا، بچوں کے ایڈمیشن کا کیا ہوا ؟ اسلم نے کہا پرائیویٹ اسکول والوں نے تو لوٹ مچا رکھی ہے _ دو بچوں کا مہینے کا آٹھ ہزار ادا کرنا پڑ رہا تھا ۔ خالدہ نے اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے پوچھا پھر اپ نے کیا کیا ؟
اسلم نے دھیمی آواز میں کہا میں نےاحمد کا داخلہ اسی اسکول میں کرادیا اور فاطمہ کا کل کسی سرکاری اسکول میں کروا دونگا _۔ خالدہ کہنے لگی اس میں کیا فائدہ ہے احمد ایک اسکول جائے گا اور فاطمہ دوسرے _ اگر ایک ہی اسکول میں دونوں بچوں کاایڈمیشن کیا ہوتا تو دونوں ساتھ میں آتے جاتے _۔ اسلم نے کہا تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ تنخواہ کتنی ہے۔ اوپر سے سرکار نے بھی رشوت کی سخت ممانعت کی ہے، پکڑا گیا تو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے _ ۔خالدہ اس بات پر مایوس تھی اور سوچ رہی تھی کہ احمد پرائیویٹ اسکول میں پڑھائی کرے گا اور فاطمہ سرکاری اسکول میں ۔کسی طرح سے اسلم نے خالدہ کو سمجھا بُجھا کر بات کو ٹالتے ہوئے کہا کہ بہت بھوک لگی ہےکھانا ملے گا کیا _ خالدہ مایوسی کے ساتھ بچوں کو کھانا دے کر سلانےلگی ۔ صبح اسلم نے فاطمہ کا داخلہ ایک سرکاری اسکول میں کروادیا _۔
اب روز فاطمہ اور احمد اسکول جاتے تھے _۔ جب بھی فاطمہ احمد کو اسکول کی بس میں آتے جاتے دیکھتی تو سوچتی کہ میں سرکاری اسکول میں اور بھائی پرائیویٹ اسکول میں من ہی من میں سوچ کر وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتی۔ ایک بار اس نے اپنی والدہ سے کہا کے بابا میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں؟ بابا بھائی کو اچھے کپڑے اچھی اچھی چیزیں دیتے ہیں اور مجھے کوئی توجہ نہیں دیتے _ کیا۔میں با با پر بوجھ ہوںکیا ؟ میرے اسکول میں میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ کا بھائی بس میں پرائیویٹ اسکول آتا جاتا ہے اور تم سرکاری اسکول میں پیدل آتی ہو _۔ یہ بات سن کر خالدہ جاکر اسلم سے کہنے لگی کہ فاطمہ اس طرح کی باتیں کہتی ہے ۔اسلم نے فاطمہ سے کہا کیا بات ہے ۔فاطمہ نے کہا بابا آپ مجھ سے زیادہ احمد سے پیار کرتے ہو اور اسی کو ترجیح دیتے ہو ۔اس کے لئے اچھے اچھے کپڑے لاتے ہو اور اس کا ایڈمیشن ایک اچھے خاصے پرائیویٹ اسکول میں کیا، مجھےاسکول نہیں جانا۔ _ اسلم نے منہ بناتے ہوئے کہا ،،ٹھیک ہے مت جاؤ اُسے پڑھ لکھ کر افسر بننا ہے اور کچھ عرصہ بعد تمہاری شادی کرادیں گے اور تو اپنے گھر چلی جائے گی _۔ فاطمہ نے کہا ابھی میں آٹھویں میں ہی ہوں مجھے شادی نہیں کرنی اور روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ خالدہ اسلم سے کہنے لگی کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے اور آپ اس کی شادی کرانے جارہے ہو ۔ اسلم خالدہ پر بھی غصہ ہوا اور احمد سے کہنے لگاجلدی کرو بازار جانا ہے وہاں سے کچھ سامان خریدنا ہے اور نکل پڑا _ خالدہ فاطمہ کے کمرے میں گئی اور اس سے کہنے لگی آپ کے بابا آپ کے بارے میں اچھی سوچ رکھتے ہیں آج نہیں تو کل آپ کی شادی تو ہوگی ہی۔فاطمہ نے کہا ابھی میری شادی کی عمر نہیں ہے میری سہلیاں دوسری جگہوں پر پڑھائی کیلئے منتقل ہوئی ہیں اور میرے بابا میری شادی رچانے جارہے ہیں ۔کچھ مہینے بیتنے کے بعد اسلم نے فاطمہ کی شادی ایک چھوٹے موٹے تاجر کے ساتھ کرادی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ سسرال چلی گئی۔ _ فاطمہ من ہی من میں بابا سے ناراض تھی لیکن وہ یہ دکھ کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرپاتی تھی _۔ اب اسلم خوش تھا اور سوچ رہا تھا کہ بیٹی کی شادی ہوگئی بس اب احمد اپنی پڑھائی مکمل کرکے ایک اچھی خاصی نوکری پر جائے تو اس کے بعد اس کی بھی شادی ہوگی ۔کچھ سال گزرنےکے بعد احمد کی تعلم مکمل ہوئی اور ایم بی اے کر کے دوسرے شہر میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں انجینئر تعینات ہوگیا _ کچھ سال کے بعد احمد نے والدین کی غیر موجودگی میں وہیں وہیں شادی بھی کرلی۔ ادھر سے اسلم بھی سبکدوش ہوا ۔،سُبکدوشی کے بعد اُسے کافی ساری بیماریوں نے گھیر لیا اور اکثر بیمار رہنے لگا۔ _ کبھی کبھار فاطمہ اُن کا حال چال پوچھنے آ جایا کرتی تھی _ ایک بار اسلم زیادہ بیمار ہوا اور خالدہ نے اسے سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ کرادیا ۔ڈاکٹروں نے اسلم کے ٹیسٹ وغیرہ کروائے اور خالدہ سے پوچھا، آپ کے ساتھ اور کون ہے ؟
خالدہ نے کہا ہمارے ساتھ تو خدا ہی ہے، بیٹی اپنے سسرال میں ہے اور بیٹا باہر نوکری کررہا ہے _۔
ڈاکٹر نے خالدہ سے کہا بچوں کو فون کرو اور کہو ان کے والد زیادہ بیمار ہیں اب ان کے پاس کم وقت ہے ان کو گھر لے جاؤ اور ان کی خدمت کرو۔ یہ سن کر خالدہ کے ہوش اُڑ گئے اور وہ چکرا کر گرنے لگی تو ڈاکٹر نے کہا صبر رکھو اور اپنے بچوں کو فون کرو۔ خالدہ نے پہلے احمد کو فون کیا اور کہا بیٹا آپ کے والد صاحب زیادہ بیمار ہوئے ہیں جلدی گھر آجاو _۔ جواب میں احمد نے کہا، ماں آج میری بیوی کی سالگرہ ہے اور میں نے یہاں بڑے بڑے لوگوں کو پارٹی میں بلایا ہے میں پارٹی چھوڑ کر کیسے آسکتا ہوں جُوکی ناراض ہو جائے گی ۔ میرا آنا ممکن نہیں البتہ کل صبح آپ کے اکاونٹ میں رقم ڈال دوں گا ۔۔بابا کا علاج کسی اچھے اسپتال میں کرانا _۔ بیٹا پیسوں کی بات نہیں ہے تمہارے بابا اب صرف کچھ دنوں کے…….
وہ ہیلو ہیلو کرتی رہی تب تک احمد نے فون کاٹ دیا تھا۔ مجبور ہوکر خالدہ نے فاطمہ کو فون کیا اور ساری بات بتائی تو فاطمہ روتے روتے کہتی ہے بابا کی طعبیت اتنی خراب ہے اور آپ مجھے اب بتا رہی ہیں _ آپ کس اسپتال میں ہیں ؟ خالدہ نے کہا بیٹی آپ کے بابا اندر بیڈ پر سوئے ہیں اور ہم لوگ اس وقت سرکاری اسپتال میں ہیں تُو جلدی سے آجا ہم اُن کو گھر لے چلیں گے ۔یہ کہہ کر خالدہ نے کال منقطع کردی۔ اسلم اُس کے پیچھے یہ ساری باتیں سن رہا تھا اور مایوس ہوکر اپنے بیڈ پر چلا گیا اور سسک سسک کر رونے لگا ۔اُسے بیٹی کے ساتھ کئے ہوئے برتاؤ پر سخت پشیمانی ہورہی تھی _ یہ دیکھ کر خالدہ نےاسلم کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا ،کوئی بات نہیں آپ ٹھیک ہوجائیں گے، اسے لگا تھا کہ اسلم اپنے مرض کی وجہ سے رورہا ہے _۔ اتنے میں فاطمہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ اسپتال پہنچ گئی اور روتےروتے بابا سے لپٹ کر کہنے لگی بابا آپ نے مجھے اتنا پرایا کردیا کہ بیماری کے بارے میں بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ _ اسلم بھی آج پہلی بار اُس سے لپٹ کر جی بھر کر رویا اور بولا بیٹی مجھے معاف کردینا ۔۔۔میں تیرا گنہگار ہوں میں نے تمہیں ہمیشہ کم تر سمجھا ۔
نہیں بابا نہیں…. آپ ایسا مت کہیں آپ نے میرے بارے میں ہمیشہ اچھا سوچا، مجھے اتنے اچھے دیندار شوہر ملے، نیک سیرت سسرال والے ملے، آپ میرے بارے میں غلط کیسے سوچ سکتے ہیں آپ نے جو کیا بہت اچھا کیا میں بہت خوش اور مطمئن ہوں ۔
بیٹی سچ میں تُو مجھ سے ناراض نہیں ہے، اسلم نے اپنے اشک پونچھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں میرے اچھے بابا ۔۔۔۔میں آپ سے ناراض نہیں ہوں….. بابا ۔۔۔۔۔۔۔!!!! فاطمہ نے اپنے کاندھے سے باپ کا چہرہ اُٹھاکر دیکھا جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھیں بند تھیں _

���
وندک پورہ پلوامہ ،کشمیر
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
گولہ باری بند ہوگئی لیکن تباہی کی المناک داستان پیچھے چھوڑ گئی | جموں کے سرحدی علاقوںمیں گھر اجڑ گئے ،مویشی نہ رہے،لوگوںکو پناہ گاہوں کی تلاش
جموں
۔ 5کروڑ روپے کا بینک قرض گھوٹالہ | سابق بینک منیجر سمیت 7ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر
جموں
جموں و کشمیر میں اہم بنیادی ڈھانچوں کا تحفظ | 4000 سابق فوجیوں کی تعیناتی کی تجویز کو منظوری
جموں
سانبہ میں سرچ آپریشن شروع
جموں

Related

ادب نامافسانے

آئینہ افسانہ

May 17, 2025
ادب نامافسانے

خواب کی زیراکس کاپی افسانہ

May 17, 2025
ادب نامافسانے

مبارک باد انشائیہ

May 17, 2025
ادب نامافسانے

حقیقی چہرے افسانہ

May 17, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?