سید مصطفیٰ احمد ،بڈگام
اعداد و شمار کے مطابق اس سال کشمیر میں ہر دن اوسطاً تین افراد کی موت مختلف سڑک حادثات میں ہوئی ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سڑکیں اب موت کے راستے بن گئے ہیں۔ شیر خوار بچوں سے لے کر معمر افراد، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ان خطروں سے بھرے راستوں کا آسان نوالہ بن جاتے ہیں۔ ہمارے دن کی شروعات کسی سڑک حادثے سے ہونا اب معمول سا بن گیا ہے۔ شام آتے آتے کئی جانوں کا ضائع ہونا عام ہوچکا ہے۔ اس کے بہت سے محرکات ہیں۔ جب سے لوگوں نے شوق کے علاوہ مجبور ہوکر گاڑیوں کی خریداری میں وسعت لائی ہے تب سے گاڑیوںکی زیادہ تعداد کے لئے سڑکیںچھوٹی ہورہی ہیں۔ اب آئیے کچھ وجوہات کا مختصر ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے کشمیر میں سڑک حادثات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا ہے۔
پہلی وجہ ہے ناقص سڑکیں۔ ناقص اور غیر ہموارسڑکیں حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔ جب سڑکوں میں گڑھے پڑگئے ہوں اور ناقص ڈرینیج نظام سے گندہ پانی سڑکوںپرجمع رہتا ہوتو سڑک حادثات کے خدشات زیادہ رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں کی اکثرسڑکوں پر بچھایا گیا تارکول جب چند ہی دنوںاُکھڑکر بکھر جاتا ہے تو سڑکیں گاڑیوں کی آمدورفت کے ناقابل استعمال ہوجاتی ہیں،جس کی وجہ سے ان سڑکوں پر موت کا رقص جاری رہتا ہے۔ جب جب سرکاری محکموں کی طرف سے سال بھر سڑکوں کو توڑتے اور اور پھر مرمت یا سرِ نَوتعمیر کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہےتو نہ صرف موٹرگاڑیوں کی آمدروفت درہم برہم ہوجاتی ہے بلکہ عام راہ گیروں،مقامی بستیوں کے لوگوں اور دکانداروںکے لئے باعث ِعذاب بن جاتا ہے۔ دوسری وجہ ہے سرکاری نااہلی۔ جتنے بھی پیسے سڑکوں کو تعمیر اور سنوارنے کے لئے مختص کئے جاتے ہیں، وہ پیسے کبھی بھی جائز طریقوں سے صرَف نہیں کئے جاتے ہیں۔ سڑکوں کی مرمت و تعمیر کے کاموں پر معمور بعض بے ضمیر اور بے ایمان افسر ،اہلکار اور ٹھیکیدارمختص رقومات کا بیشتر حصہ چور دروازوں سے اُڑالے جاتے ہیں۔اور پھر بچا کچا مال بھی ہڑپ کرلیتے ہیںاور اس طرح لیتے ہیںایک روپے کا بیسواں حصہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی حرام خور گھات لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں جو اس بیسویں حصے سے بھی اپنا حصہ لے جاتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، بلکہ سرکار کی آنکھوں کے سامنے چور چوریاں انجام دیتے ہیں اور عوام بس دیکھتے ہی رہ جاتےہیں۔ اسی طرح اُن پہاڑی علاقوں میں موجود سڑکوں کی خستہ حالت بھی حادثات کا موجب بنتی ہیںجو تنگ،کچی اور پُرانی ہوتی ہیںاور جن پر سال بھر بارشوں اور برفباری کا براہ راست بُرااثر ہوتا ہے،اُن سڑکوں کی تعمیر و مرمت میں بھی مبینہ طور پر ٹھیکیداران اور متعلقہ محکمہ کے فیلڈ ارکان ہر طرح کےلوٹ کھسوٹ میں مصروف رہتے ہیںاور آپسی ملی بھگت کے تحت اِن کچی سڑکوں کی تعمیر و مرمت میں غیر معیاری میٹیریل استعمال کرتے رہتے ہیں ،جس کے نتیجے میں ان سڑکوں کی ناپائیداری بھی حادثات کا باعث بنتی ہیں۔تیسری وجہ ہے نابالغوں کے ہاتھوں میں گاڑیاں تھما دینا۔ آج جس طرف بھی نظر دوڑائی جائے، نابالغ لڑکے اور لڑکیاں موٹر گاڑیوں اور موٹر بائیکوں کی سٹیرنگ کو تھامے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں۔ تجربہ سےخالی یہ نابالغ بیشتر سڑک حادثات کا موجب بنتے ہیں۔ ایک نااہل لڑکا یا لڑکی کیسے قومی شاہراہ کے علاوہ گاؤں کی تنگ سڑکوں پر گاڑیوں کو نفیس انداز سے چلا سکتے ہیں، یہ عقل سے بعید ہے۔ چوتھی وجہ ہے سڑکوں پرناجائز قبضہ۔ ہم اتنے گرے ہوئے ہیں کہ ہم سڑکوں کو اپنی تحویل میں لینے سے ہرگز گریز نہیں کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم میں سے بیشتر لوگ سڑکوں پر ناجائز قبضہ جماتے ہیں۔ دن بہ دن اس ناجائز قبضہ داری سے سڑکوں کی چوڑائی کم ہوتی جارہی ہے۔ دکانداربھی ناجائز تجاوزات کے عادی ہوچکے ہیں، وہ دکان کا آدھاسامان فُٹ پاتھ تو کُجا بیچ سڑک پر کھڑا کرتے ہیں۔ اس سے بھی حادثات کے امکانات بڑھتے ہیں اور انسانی جانوں کا نقصان ہوتا رہتا ہے۔ اس صورت حال کے منفی اثرات اور برآمد شدہ نتائج ہمارے سامنے واضح ہورہے ہیں،جیسا کہ مضمون کی ابتداء میں ذکر کیا گیا ہے کہ ہر روز کشمیر میں اوسطاً تین افراد کی جانیں ٹریفک حادثات میں چلی جاتی ہیں۔ اس سے موجودہ نسلوں کے علاوہ آنے والی نسلوں پر بھی بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیںاور موت کا رقص جاری رہتا ہے،جس پر قدغن لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
اول ، ٹریفک قوانین کو سخت بنانا ہوگا، جو بھی ٹریفک قوانین کی مخالفت کرتا ہوا پکڑا جائے، اُس کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ کسی بھی قسم کی رشتہ داری اور سیاسی اثر ورسوخ ، سرکاری قوانین کے آڑے نہیں آناچاہیے۔ اس کے علاوہ نا بالغوں کے ہاتھوں میں موٹرگاڑیوں کی سٹیرنگ دینے سے مکمل پرہیز کیا جانا چاہیے۔ یہ قتل کے مترادف ہے۔ ان باتوں کے علاوہ اُن سرکاری افسروں اور ٹھیکیداروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جانی چاہیے جو غبن ، جھوٹاور فریب کا راستہ اختیار کرکے خزانہ عامرہ کو لوٹتے ہیں۔ ان کا پراپر آڈٹ ہونا چاہیے۔ اُن سے پائی پائی کا حساب لیا جانا چاہیے۔ کسی بھی قسم کی نرمی برتنے سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں لوگوں کو خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ سڑک پر ناجائز قبضہ کرنے سے کیا فائدہ ملتا ہے۔ دکانداروں کو بھی سڑکوں پر چیزوں کو بیچنے سے احتیاط کرنا چاہیے۔ گاڑیاں کی تعداد آئے دن بڑھ رہی ہیں لیکن سڑکیںسُکڑ رہی ہیں۔ اس تضاد بھرے ماحول میں عقل اور قانون کا صحیح استعمال ہی ٹریفک حادثات میں کمی لانے میں کار آمدثابت ہوسکتاہے۔ امید ہے کہ ہم زندگی کو ترجیح دے کر ہوش و حواس کے ساتھ اپنی موٹر گاڑیاں سڑکوں پر دوڑائیں اور خود بھی سڑکوں کو نقصان پہنچانے سے پرہیز کریں،یہی وقت کی ضرورت ہے۔
رابطہ۔7006031540