ثناءاللہ بہار
بارش کے موسم کی ایک سہانی شام, آسمان پر گہرے بادلوں کا جھلا تھا اور ہوا میں مٹی کی مہک گھُلی ہوئی تھی۔ میں نے بالکونی میں کھڑے ہو کر دور تک پھیلے ہوئے شہر کا نظارہ کیا۔ ہر طرف گھروں کی روشنیاں جگمگا رہی تھیں لیکن ان میں سے کوئی روشنی میرے دل کا سناٹا دور نہ کر سکی۔
پھر تمہارا خیال آیا، وہ ہنسی جو تمہارے لبوں پر ہمیشہ کھلی رہتی تھی، وہ باتیں جو لمحوں کو گھنٹوں میں بدل دیتی تھیں اور وہ چائے جو تم مجھے اکثر ہاتھ سے پلا دیتی تھیں۔ آج اسی چائے کی پیاس نے مجھے یاد دلایا تمہیں۔
میں نے اندر جا کر چائے بنائی،وہی چائے جس میں تم همیشه دو چمچ چینی ڈالتی تھیں، لیکن آج اس چائے میں وہ مذاق نہ تھا، وہ گرمجوشی نہ تھی جو تمہارے ہاتھوں کی بنی ہوئی چائے میں ہوتی تھی۔ ہر گھنوٹ کے ساتھ تمہاری یاد اور زیادہ شدت اختیار کرتی گئی۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا بات ہوئی جو ہم جدا ہو گئے؟ کیا وقت کی کمی تھی، یا پھر حالات نے ہمیں دور کر دیا؟ جواب کچھ نہیں ملا، بس یہی احساس رہ جاتا ہے کہ تمہاری کمی نے میری زندگی میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے جو پُر ہونا مشکل ہے۔
میں نے چائے کی پیالی ٹیبل پر رکھ دی اور وہیں بیٹھ گیا۔ باہر بارش تیز ہو رہی تھی, سڑک پر چلنے والوں کی آمد و رفت کم ہو چکی تھی۔ اس تنہائی میں صرف تمہاری یاد ہی میری ساتھی بن کر رہ گئی تھی۔
شاید یہ شام کبھی نہ ختم ہو، شاید یہ بارش کبھی نہ رکے، لیکن یہ جانتے ہوئے بھی ایک امید دل میں جگی ہے کہ شاید کسی دن، کہیں نہ کہیں، پھر سے ملاقات ہو جائے اور ہماری وہ چائے والی باتیں پھر سے شروع ہو جائیں۔
���
دارالہدی
[email protected]>