وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

یہ بات ایک مسلمہ حقیقت کی طرح عیاں ہے کہ عورت آدھی دنیا کہلاتی ہے ۔ دنیا کی کل آبادی کا تقریباًنصف حصہ عورتوں پر مشتمل ہے ۔ اس لیے اگر ہم ، ہمارا معاشرہ اور ہمارا سماج عورتوں کے تئیں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کریں گے تو یہ عورت ذات کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوگی ۔ جب سے انسانی تاریخ چلی آرہی ہے، تب سے اس صنف نازک پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنا بھی کبھی غلط تصور نہ کیا جاتا ۔ دورِ جہالت میں جن مصائب و آلام اور مظالم کا شکار عورت ذات رہی ہے، آج کے اس سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اُسے ایسے ہی مظالم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔بغور جائزہ لیا جائے تو آج بھی اس دھرتی پر رہنے انسانی آبادی کا نصف حصہ یعنی عورت ذات بنیادی حقوق سے محروم ہے ۔ اس لیے مرد زات کو چاہیے کہ وہ انفرادی، اجتماعی، معاشرتی اور سماجی سطح پر عورتوں کی حفاظت، ان کی خوشحالی اور ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرے تاکہ انسانیت اور سماج کا یہ نصف حصہ خود کو کہیں پر غیر محفوظ نہ سمجھیں ۔ عورتوں کے خلاف جرائم کا گراف جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے وہیں ملوثین کو کڑی سے کڑی سزا دینے کے بجائے ان کے بچنے کی آسان راہیں ممکن بنائی جارہی ہیں۔ ہمارے سماج کا ہر طبقہ خاموش تماشاہی بن بیٹھا ہے ۔ جو ذات آج عورتوں کو کمتر اور ان کے حقوق کی پامالی میں بلواسطہ یا بلاواسطہ اپناتعاون دیتا رہتا ہے، شاید ابھی تک وہ ذات یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کا وجود ایک ماں صورت میںاُسی ذات کا مرہون ِمنت ہے،جس پر وہ مختلف طریقوں سے ظلم ڈھاتا ہے اور اُسے اُن بنیادی حقوق سے محروم کرتا رہتا ہے جو اُسے اللہ نے دیئے ہیں۔ اگر ایک باپ اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت اور دیگر ضروری اخراجات کو پورا کرنا ضروری سمجھتا ہے ، اس کے لیے دن رات محنت و مشقت کرکے اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہےتو بیٹی کی تعلیم و تربیت اور دیگر ضروری اخراجات کو پورا کرنا غیر ضروری سمجھتا ہے ،تو اِس سے بڑھ کر دوہرا سوچ کیا ہوسکتا ہے؟ کیا ہم اس جدید دور میں بھی جنس کی بنیاد پر انسانیت کو تقسیم کر سکتے ہیں، جب کہ اسلام نے باضابطہ عورتوں کے حقوق کی پاسداری کی ہےاور اس پر عمل کرنے کی تاکید کی ہے ۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاس جہاں میں آنے کے ساتھ ہی عورت ذات کو نہ صرف چھینے ہوئے حقوق حاصل ہوئے بلکہ جینے کابہترین سلیقہ بھی عنایت ہوا ۔ اپنے تواریخی خطبے ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الودع کے موقعے پر مسلمانوں کو ارشاد فرمایا  میں بھی یہ بات زور دے کر فرمائی کہ عورتوں کے بارے میں خالق حقیقی سے ہمیشہ ڈرتے رہنا ۔ اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے اور ہمارے ذہنوں کو کشادگی ملتی ہے کہ ہم عورتوں کے تئیں کتنے سنجیدہ رہیں اور ان کی خوشحالی، ترقی اور زندگی کے بارے میں کتنے فکر مند رہنا چاہیے ۔
صنف نازک کے بارے میں ہماری ذمہ داریاں واضح ہیں ۔ جہاں بیٹیوں کی پرورش کی بنا پر ہم جنت کے وارث بن جاتے ہیں وہیں ہمیں بہ حیثیت ایک باپ اس بات کا سبق بھی ملتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے حوالے سے جنسی تفریق  ہر سطح پر ناقابل ِ برداشت ہے۔ اگر موجودہ بگڑتے سماجی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو بیٹی اللہ کی طرف سے ایک بہترین تحفہ ثابت ہورہی ہے کیونکہ دنیا کے کونے کونے میں اولڈ ایج ہوموں کے قیام نے سماج اور معاشرے پر ایک سوالیہ نشان لگایا ہے، جس سماج اور معاشرے نے بیٹی کو ہمیشہ نظرانداز کیا ہے، وہی بیٹی آج باپ کے آخری ایام میں اس کے راحت کا سامان بن رہی ہے۔ اس کے برعکس بیٹے بیرون ملکوں میں اپنے عیال کے ہمراہ عیش وعشرت کی زندگی گزارنے میں مصروف نظر آرہے ہیں ۔ کیا پھر بھی عورتوں کو سیکنڈ گریڈ سٹیزن کا درجے میں رکھا جاسکتا ہے۔ اب بھی گھر اور گھر سے باہر اُسے ظلم و تشدد کا شکار بنایا جاسکتاہے؟ کیا اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہم کشادہ ذہن بننے کے بجائے اپنے تنگ نظریہ کو ہی کام میں لاتے رہیںگے ۔ بالکل بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک خوشحال اور ترقی یافتہ سماج تعمیر کرتے ہوئے عورتوں کے حقوق کی پاسداری کرنا ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے۔ تاکہ دینوی اور دُنیوی طور ہم سرخ رُو رہ سکیں۔
ایک عورت کی ساری عمر دو گھر سنبھالنے اور تعمیر کرنے میں گزر جاتی ہے مگر پھر بھی معاشرےمیں زیادہ ترہر معاملے اور ہر سطح پر مردوں کا غلبہ نظر آرہا ہے۔ عورت کو نہ میکے میں اور نہ ہی سسرال میں وہ مقام و مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے ،جس کی وہ حقدار ہے۔ والدین کے گھر میں بھی اُسے یہ کہہ کر کوسا جاتا ہے کہ تو پرایا دھن ہے،تجھےدوسرا گھر بسانا ہے۔  اور شادی کے بعد سسرال میں اس کی ازدواجی زندگی اجیرن بنانے کی تمام حدیں پار کی جاتی ہیں ۔ آج کا شوہر اپنی شریک حیات کے تئیںغیر سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔معمولی معاملات پراُسے طرح طرح کی اذیتوں سے گذارا جاتا ہے،تنگ کیا جاتا ہےاور اس کی زندگی دوبھر کی جاتی ہے۔ آئے دن اب ہمیں پرنٹ،الیکٹرانک میڈیااور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں، جن میں عورتوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کی المناک داستانیں ہوتی ہیں۔ کیا ہمیں مذہبی اور اخلاقی تعلیمات پر نظر نہیں پڑتی کہ کس طرح صنف نازک سے ہمیں پیش آنا ہے اور اس کی بقا کے لئے معاشرہ کو کیسے تشکیل دینا ہے؟ شادی سے پہلے ایک بیٹی یا ایک بہن اپنے والدین اور اپنے بھائی کے لئے کیا کچھ نہیں کرتی ہے لیکن افسوس اس کی شادی کے بعد یا بھائی کے بھی شادی کے بعد اُس گھر میں ہی آنا تک محال بنتا ہے ۔ اُسی بھائی کی اہلیہ اس کے لئے دروازے بند کرتی ہے۔ یہ تصویر کا دوسرا رخ تو ہے ہی کہ ایک عورت کے ذریعے ہی عورت کے حقوق سلب ہو رہے ہیں لیکن اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو  ہر معاملے میںمرد کا ہی قصورہوتا ہے کیونکہ ایک بہو اپنی نند کو میکے کے دروازے تب تک بند نہیں کرسکتی جب تک اس کو شوہر کا تعاون ساتھ نہ ہو ۔ آج کل ہماری نظر جہاں تک جاتی ہے ،ہر طرف عورتوں کے حقوق سلب ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔مختلف قسم کی زیادتی کی جارہی ہیںاور نا انصافیاں بھرتی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ سےبہت سی عورتوں نے موت کو ترجیح دے کر اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کرڈالا ہے ؟ بیشتر خواتین آج بھی مردوں کے مظالم کا نشانہ بن کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبورہوچکی ہیں؟ 
اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ایسے سماج اور معاشرے کی تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے، جس میں عورت نہ صرف خود کو محفوظ تصور کرے بلکہ گھر اور معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا بھر پوررول ادا کرسکے۔ آخر میں اپنے تخلیق کردہ شعر سے ہی مضمون کا اختتام کرنا چاہتا ہوں ۔؎
گر تو چاہتا ہے جہاں میں خوشحالی وترقی
تو کر حقوق نسواں کی پاسداری و رکھوالی 
قاضی گنڈ کشمیر