جب بھی دنیا میں وبائی بیماریاں زور پکڑتی ہیں تو کارخانۂ قدرت سے بھی صدائے کن فیکون سے پوری دنیا متزلزل ہوجاتی ہے۔آفات، مصائب یا مشکلات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ناراض ہوکر ہی نازل کرتا ہے،اور اپنے نیک بندوں کو بھی آزماتا ہے تاکہ وہ اپنے رب کے سامنے گڑگڑ ائے اور منکسرالمزاج ہوکر بارگاہِ الٰہی میں اپنی التجائیں پیش کریں تاکہ اللہ راضی ہوسکے۔اللہ کو اپنے بندوں کی آہ وزاری نہات ہی پسند آتی ہے اورجب بندہ صرف اسی ذات کو اپنی دردبھری ندائواں سے التجاکرتا ہے تو رب کریم جلال میں اسے درگزر فرماتاہے۔ بندہ جب جب بھی روگردانی کی حالت میں ہوتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ اسے سبق سکھانے کا عمل شروع کرتا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر اس انسان کو پہلے ڈھیل دیتا ہے ، کھلی چھوٹ دیتا ہے، اپنے من مانی کرنے میں اسے ایک دم پکڑتا نہیں البتہ اپنا شکنجہ ہروقت اس انسان کے لئے تیاررکھتا ہے جو اپنی برائیوں ، بدیوں ، ظلم وجبر کرنے، شدت پسندی سے کام لینے اور ناحق قتل کرنے سے گریز نہیں کرتا اور اپنی بد کرداری سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش ناحق کرتا رہتا ہے۔ توخدائے بزرگ وبرتر ایسے انسانوں کے لئے ایسا جال بچھا دیتا ہے جس پھر چھٹکارا پانا محال کیا بلکہ اس کے لئے ناممکن بن جاتاہے۔ بقول کسے:
مچھلی کو ڈھیل ہے لقمے پہ شاد ہے
صیّاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی
صیّاد جال بچھا کر خود مطمئن ہوتا ہے ، کیونکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن شکاری جال میں آہی جائے گااور پھنس کر پھر واپس نہیں جائے گا۔ ایک اہم بات جس کی طرف آپ کے ذہن اور ضمیر کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ جب بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جاتا ہے ،یاکسی فاسق، جابر، ظالم ،قاتل کی تعریفیں کی جاتی ہیں ، یا ظالم کو ظلم کرنے سے روکا نہیں جاتا ، بلکہ اس کے بدلے اس کی بھرپور مدداورمعاونت کی جاتی ہے تو عرشِ الہٰی اللہ کے سخت غضب سے لرز جاتا ہے۔
شرک ایک ایسی بیماری اور وائرس ہے جو نجس (جس میں کئی طرح کے جراثیم شامل ہوتے ہیں )کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اس گندگی میں چھلانگ لگانے والوں کو کبھی پاکیزگی اور طہارت نصیب نہیں ہوتی، اور انہیں بخشا بھی نہیں جاتاہے۔ قرآن میں ارشادِ ربانی ہے’’ اللہ کے ساتھ اگر کسی کو شریک بنایا جائے تو یہ گناہ وہ کبھی معاف نہیں کرے گا ، اور اس کے علاوہ جو دوسرے گناہ ہیں انہیں وہ جسے چاہے معاف کردے، اور جس نے کسی کو اللہ کاشریک بنایا وہ گمراہی میں دور تک چلا گیا ‘‘۔(سورہ نساء ۔۔۔آیت ۱۱۴)
دنیا میں کوئی کتنا ہی بڑا رئیس ، امیر، عقلمند کیوں نہ ہو لیکن اللہ کی شان کے آگے وہ سر نگوں ہے، اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے البتہ اس کے آگے اگر کسی کو مرتبہ و مقام حاصل ہے تو وہ بس پکا موحد اور متقی ہے ۔ اس لئے اگر کہیں راہِ نجات ہے تو وہ بس توحید اور پرہیزگاری میں ہے۔ سورہ انبیاء میں اللہ کا فرمان ہے’’اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی الہٰ نہیں ، لہٰذا صرف میری عبادت کرو‘‘۔(سورہ انبیاء۔۔۔ ۲۵) توحید کی برکت سے ہی ایک گناہ گار کے گناہ بخش دئے جاسکتے ہیں بلکہ توحید اس کے حق میں مغفرت کی ضامن بن سکتی ہے۔
شرک کی شامت سے باقی تما م اچھے اور نیک کا م ناکارہ اور ضائع ہو جاتے ہیں ، یعنی اللہ کی بارگاہ میں شرک کی کوئی وقعت اور جگہ ہی نہیں اور نہ ہی جنت اس کی جاگیر ہوسکتی ہے۔ اس لئے اس شرک کو اللہ بے حد نا پسند کرتا ہے۔جب یہ حد سے تجاوز کر جائے تو اللہ کی پکڑ سخت ہوجاتی ہے ، اور موجودہ وبائی بیماری جیسی لوگوں پہ مسلط کردی جاتی ہے۔ مطالعہ قرآن وحدیث اور تاریخ سے اس بات کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ ایک انسان تب تک اپنے عقائد کی درستی کرنے کی کوشش نہیں کرتا جب تک اسے کسی متزلزل حالت کاسامنا نہ ہو اور جب تک اس کے ذاتی وجود کو ہلایا نہ جائے۔جب اس پر کوئی آفت ، مصیبت ، طوفان، سیلاب یا کوئی پریشانی نازل ہوتی ہے،یا جب کورونا وائرس جیسی مہلک بیماریاں پھیل جاتی ہیں تو اس وقت تمام باطل خدا گر جاتے ہیں ،تو وہ پکار اٹھتا ہے کہ اے اللہ تو ہی سب کا مالک ، خالق اور بادشاہ دوجہاں ہے ، تیرے سوا سب محتاج ہیں ،بس تیری ہی مدد کے طلب گار ہیں ،تو ہی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے، تیرے آگے سب ہیچ ہیں اور حقیر ہیں ،توہی غنی ،حمیداور توہی نگران اعلیٰ ہے، توہی تکالیف کو رفع کرتا ہے اور بے قرار کی دعائیں سنتا ہے، توہی نقصان سے بچانے والا ہے، توہی مصیبت کو ٹالنے والاہے۔ لیکن جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو انسان پھر سے سرکش اور باغی بن جاتا ہے۔
اللہ سخت ناراض ہے ہم سے اور اس ناراضگی کا ایک عذاب آج کی وباء ہے۔ جب شرک اور برائیاں مل کر حد سے تجاوز کرجاتی ہیں تو اس طرح کی آفات وبلیات کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ موجودہ دور میں انسان شرک اور بے حیائی میں اس طرح چاروں طرف سے اس کا اس کا خوگر ہوچکا ہے کہ معلوم ہی نہیں کب اور کیسے اس نجس کے تالاب میں غوطہ زن ہوا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم صرف واویلاکرتے رہتے ہیں کہ ایسی مصیبتیں اور آفات و بلیات کیوں آتی ہیں ، جن کا ہم مقابلہ بھی نہیں کر پاتے ہیں ۔ میرے عزیز بھائیواور بہنو، بزرگو اور دوستو، جتنا ہم شرک اور بے حیائی سے اجتناب کریں گے اتنا ہی ہم ان جسیے وبائی امراض اور آفاتِ سماوی و ارضی سے نجات پا سکتے ہیں ۔ ہمارے سامنے قوم لوط، قوم نوح، قوم عاد وغیرہ جیسی قوموں کی عبرت ناک مثالیں اور واقعات موجود ہیں جن سے ہم سبق حاصل کرسکتے ہیں ۔ اگر اب بھی ہم اللہ کی بادشاہت اور قدرت کاملہ کی قدر نہ کریں تو بھلا ہماری قدر ہی کیا ہوگی بارگاہِ الٰہی میں ۔ اللہ نہ کرے ہم تو پھر کبھی کامیاب ہی نہیں ہو پائیں گے۔ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ربانی ہے : (یعنی آپ لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جس کا وہ مستحق ہے)آپ لوگوں نے ان کو اپنا خدا بنایا ہے جو خود مدفون ہیں اور انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کب دوبارہ قبروں سے اٹھایا جائے گا ۔ جبکہ آپ لوگ اللہ کو چھوڑ کر انہیں کو پکارتے رہتے ہو اور آپ اس حال میں ہیں کہ چاروں طرف پریشان ہوگئے۔ کیونکہ آپ لوگ اللہ کی عبادت کم اور غیر اللہ کی عبادت کرنے میں کچھ زیادہ ہی دلچسپیاں لے رہے تھے۔مولانا حالی ؔنے فرمایا :
بنانا نہ تربت مری صنم تم
نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم
آج اللہ پاک اپنی کبریائی کا جلوہ دکھا رہا ہے اور دنیا کے انسانوں سے کہہ رہا ہے کہ کہاں گئے وہ بادشاہ، وہ حکیم ، وہ تکبر کرنے والے، وہ گھمنڈی اور سرکش لوگ، کیا انہیں فرعون یاد نہیں ، نمرود یاد نہیں کہ کیسے ان کا تخت ہی پلٹ دیااور دنیا سے نیست و نابود ہوگئے۔ کیا یہ لوگ اب بھی ظلم کرنے اور ناحق قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیںاور کیا یہ لوگ اب بھی شرک کی غلاظت اور گندگی سے دور نہیں ہوں گے۔
افعال ناشائستہ کے پیش نظر ہم امراض و آفات میں مبتلا ہوکر صحت یابی اور خوشحالی سے محروم ہوگئے ہیں ۔ شرک ایک ایسی گندگی ہے جو پورے ماحول اور سوسائٹی کو اپنی لپیٹ میں لے کر توحید کے پرتو کو مسخ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور مشرکین و منکرین کی چالوں سے کئی لوگ اس میںایسے مبتلا ہوچکے ہیں کہ اب اللہ ہی حافظ ہے۔
دوسری بات جس کی طرف میں آپ کا توجہ چاہتا ہوں وہ یہ کہ موجودہ دور میں مشاہدہ ہورہا ہے کہ سنت کی جگہ بدعات و خرافات نے لے رکھی ہے۔ عام لوگ شکوک و شبہات کے شکار ہورہے ہیں ۔ ان کے لئے یہ چیز نہایت ہی اہم اور ناگزیر ہے کہ جن چیزوں اور کاموں سے رسولﷺ نے منع فرمایا ہے ان سے متنفر اور مجتنب ہونا ہماری اہم ذمہ داری ہے اور جن کاموں سے انہوں نے منع نہ فرما یا ہو ان کو کرنے اور عملانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیئے۔ جس سے انہوں نے روکا اسے نہ لو اور جس سے انہوں نہیں روکا اسے اخذ کرنے کا عمل جاری رکھنے سے اللہ بھی راضی اور نبی اکرم ﷺ بھی راضی۔ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہواہے’’رسول ؐ جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے تمہیں روکے اس نہ لے لو‘‘۔ (سورہ حشر ،آیت ۷)
سمجھنے کی بات ہے کہ ہمارا اللہ اور رہبر صادق المصدوق پیغمبر اعظم ؐکی حکمِ عدولی پر ہمارے لئے کیا خاک بہتری ہوگی۔ حکم کی تعمیل پر بادشاہ اور مالک دوجہاں رب العالمین واقعی خوش ہوتا ہے اور ہمارے پیارے نبیؐ بھی خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے بدلے دیکھئے کہ ہم سے کون سا عمل قرآن اور حدیث کے مطابق ہورہاہے اور ہم کن غیر اسلامی عوامل میں گرفتار اور مصروف ہیں۔ ہم فرائض و سنن کے برعکس رسم و رواج اور بدعات وخرافات کے زیادہ خوگر ہیں اور نتیجہ آج ہمارے سامنے وبائی بیماریوں کی شکل میں ہے۔اسلام کے بنیادی عقیدے توحید سے بے خبری اور اس سے دوری اختیار کرنے سے بے حیائی اور برائی جنم لیتی ہے۔ بے حیائی بھی ایک ایسا پوشیدہ مرض ہے جو بالکل آج کی وائرس کی طرح انسان کے ذہن اور دل میں گھس کر اندر ہی اندر اسے کھوکھلا بنا دیتی ہے اور زندگی کے آخری لمحے پر پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔کیونکہ یہ ایک خطرناک وائرس’شیطانی وائرس‘ سے استحکام پاتا ہے ۔ شیطانی وائرس کے مختلف روپ ہیں جو اس میں مبتلا ہوگیا سمجھو اس کا واپس آنا محال نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ الّا ماشاء اللہ۔ اس لئے جتنا ان چیزوں سے اجتناب کیا جائے اتنا ہی ہمارے اور ہماری سوسائٹی کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ نئی نسل کے جوان لڑکے اور لڑکیاں برائیوں ، بدیوں ، منشیات فحاشیوں میں بری طرح اسیر ہیںاور ان نامعلوم امراض کی یہ برائیاں بھی ایک وجہ ہے ۔
ہم سب اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ہیں ۔اس لئے جو بھی عمل ہم کرتے رہتے ہیں چاہے پوشیدہ طور یا اعلانیہ ،بہرحال اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ یہ کورونا وائرس جس کے بارے میں آج کل ہرطرف چرچے ہورہے ہیں ، بالخصوص ہندوستان میں جو یہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اصل میںیہاں ابھی بھی دماغی توازن برقرار نہیں ہے ۔ کوئی بھی واقع پیش آئے تو ایک دوسرے پر طعنہ زنی کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ یہاں کا میڈیا بھی بے فائدہ چیزوں کے پیچھے لگا رہتا ہے اورفضول بحثوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ۔اس سے بہتر تھا انہیں کہ سائیسنی ٹیکنالوجی کی طرف دھیان دیں تاکہ ان جیسے آفات کاسد باب ہوسکے۔ ارے ہوش کے ناخن لو ! یہ کسی انسان نے ہندوستاں میں نہیں لایا بلکہ یہ اللہ کا قہر اور ناگہانی آفت ہے ۔ یہ دنیا کے سب سے عظیم بادشاہ کا تنبیہ ہے ، ہوشیاری ہے ، تاکہ ہم سب لوگ سدھر جائیں، لیکن آپ اس پربھی اپنی سیاست کھیلنے میں مشغول ہورہے ہیں۔ اللہ کی جانب سے یہ ہر اس فرد کے لئے سدھرنے کا ایک موقع ہے جو اپنے تکبر اور گھمنڈ میں پتہ نہیں کس سمت جا رہا ہے ۔ اس لئے یہ سیاست کھیلنے کا وقت نہیں ہے بلکہ مل جل کر توبہ کرنے کا وقت ہے اور اس بیماری سے نمٹنے کے لئے تدابیر کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی بھی ترقی سے کوسوں دور ہیں ۔ یہاں کسی بھی چیز کو بنیاد بنا کر مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا رواج عام ہوچکا ہے۔
باقی آپ خود عقلمند اور دانا ہیں ،آپ خود بھی محاسبہ کر سکتے ہیں اور میری ان گزراشات کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ اللہ اس موجودہ بیماری کے ساتھ ساتھ ہماری ذہنی بیماریوں کا بھی علاج کرے ۔آمین
ای میل۔[email protected]