والدین کے ساتھ حسنِ سلوک فکر و ادراک

ارشد مبین 
اسلام میں والدین کے حقوق ، ان کی اطاعت اور فرماںبرداری کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے۔قرآن کریم کی تعلیم جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ اولاً عبادت اللہ تعالیٰ کی ہے اور حکم بھی اللہ تعالیٰ ہی کامانناہے یہ ایمان کی پہلی شرط ہے ۔یہ ہدایت ہر نبی اور پیغمبر کی بنیادی اور اولین دعوت حق رہی ہے۔ اس کے بعد قرآن میں پانچ جگہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد ماں باپ کے حکم کی تاکید آئی ہےکہ انسان والدین کی اطاعت اور فرماں برداری کرے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ لہٰذا جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت ضروری ہے ۔وہاں والدین کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ماں دنیامیں لانے کا سبب اور بیوی اس دنیا میں ساتھ نبھانے کے لیے ایک خوش گوار ذریعہ ہے۔
ہم جب اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تواس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ماں باپ دونوں کی برابر کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ گھر اور خاندان کے امور مل جل کر نبھائیں۔اس طرح ماں اور باپ کے درمیان ذمہ داریوں کی تقسیم اسلام کے بتائے ہوئے طریقے سے ہم آہنگ ہوتی ہیں ،جو ذمہ داریاں عورت پوری نہیں کر سکتی، انہیں مرد کی ذمہ داری قراردیا گیاہے اور جو ذمہ داریاں مرد ادا نہیں کرسکتے ،وہ عورت کی ذمہ داریاں قراردی گئی ہیں۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے معاون و مدد گار کی حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں ایک ہی ترازو کے دو پلڑے دیکھے اور سمجھے جاتے ہیں۔
حدیث نبویؐ میں ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتایا گیا ہے ۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے : اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کومعبود نہ ٹھہرا۔ تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یایہ دونوں بڑھا پےکو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا ،عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دُعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر، جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ (سورۂ بنی اسرائیل )
اس آیت میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جس سے والدین کی اطاعت اور ان کی خدمت اور ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کردیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ’’ہوں‘‘ اُف تک کہنے اور انہیں ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں والدین کمزور، بے بس اور لاچار ہوجاتے ہیں،جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض و متصرف ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے جذبات اور بڑھاپے کے سرد وگرم ، تجربات میں تصادم ہوتا ہے، ان حالات میں والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم اﷲتعالیٰ کے یہاں سرخرو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا ۔
جیسا کہ پرندے ،جب وہ اپنے بچوں کو اپنے سایۂ شفقت میں لیتے ہیں تو ان کے لئے اپنے بازوئوں کو پست کردیتے ہیں ۔ یعنی تو بھی والدین کے ساتھ اس طرح اچھا اور پر شفقت معاملہ کرنا اور ان کی اس طرح کفالت کر جس طرح انہوں نے تیرے بچپن میں تیری پرورش کی۔جب پرندہ اُڑنے اور بلند ہونے کا ارادہ کرتا ہے تواپنے بازو پھیلا لیتا ہے اور جب نیچے اُترتا ہے تو بازوئوں کو پست کردیتا ہے ۔ اس اعتبار سے بازوں کے پست کردینے کے معنی والدین کے ساتھ تواضع اور عاجزی کے اظہار کرنے کے ہوںگے۔
والدین کے ساتھ نیکی (بر) کرنے کامطلب ،ان سے حسن سلوک کرنا ہے۔ اس میں ان کی خدمت ،اطاعت،ادب واحترام سب کچھ آجاتاہے۔ کیونکہ حسن سلوک میں یہ ساری چیزیں شامل ہیں۔ان کی خدمت میں یا ان کی اطاعت و فرماں برداری میں یا ان کے ادب و احترام میں کوتا ہی حسن سلوک کے منافی ہے۔ بہرحال والدین کے ساتھ حسن سلوک بھی افضل اور محبوب ترین اعمال میں سے ہے۔