بھدرواہ //لگاتار خُشک سالی کی وجہ سے وادی چناب کے بالائی علاقوں میںرہائش پذیر لگ بھگ 35000 خانہ بدوش اپنے مال و مویشیوں کو لیکر بہت ہی پریشان حال ہیں کیونکہ لگاتار 45 دنوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے سرسبز چراہ گاہ اب مستقل طور سے پیلے پڑ گئے ہیں اور آبی باڈیز تیزی سے سوکھ رہے ہیں۔خانہ بدوش طبقہ بشمول گوجر، بکروال اور گدی ،جو کہ روایتی طور سے بالائی چرا گاہوں میںاپنے مال و مویشیوں بشمول بھینس ،بھڑ،بکریوں ،خچروں اور گھوڑوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیںاور گوشت، دودھ اور دودھ کے پروڈکٹ سپلائی کرنے کے اہم سپلائر ہیں،جو کہ ریاست کی 65فیصدی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔دہائیوں سے یہ خانہ بدوش ،جو پدری، بال پدری،کینٹھی، جائی،سیوج ،سرتھل ،گُلڈانڈا،لال درمن، سُبار دھار ،فُکلان دھار، لالو پانی، کنسار ،گوہا ،بگاڈ و دیگر چراگاہوں پر موسم گرما میں ماہ اپریل سے نومبر ماہ تک جاتے ہیں۔اور اس مدت کے دوران وہ مکمل طور سے قدرتی چارہ اور آبی باڈیز پر منحصر ہوتے ہیں۔لیکن امسال لگاتار خُشک سالی کی وجہ سے پانی کی قلت اور چراگاہوں کے جلد سوکھ جانے کی وجہ سے چارہ کافی تعداد میں کم ہوگیا ہے۔کینتھی دھار کے ایک خانہ بدوش چودھری عبدالکریم نے کہا کہ ابھی بھی وادی چناب کے چراگاہوں میں50,000گوجر اور بکروال ابھی بھی بکھرے ہوئے ہیں اور ہمارے مال مویشی بغیر پانی کے گُذارہ کر رہے ہیں کیونکہ گذشتہ دو مہہینوں سے بارشیں نہیں ہوئی ہیں جسکی وجہ سے ہمارے پروڈکٹ میں بھی کمی آئی ہے۔اس نے کہا کہ میں روزانہ1100روپے کا پنیر بیچتا تھا جو کہ اب 200روپے روزانہ پر پہنچ گیا ہے۔ان خانہ بدوشوں کو یہ بھی تشویش لاحق ہے کہ اگر اگلے کئی دنوں تک بھی بارشیں نہیں ہوتی ہیں تو انکے مال کو کافی نقصان ہو سکتا ہے۔کوٹہ ٹاپ کے سیف الدین ڈھکار نے کہا کہ لگاتار خشک سالی کی وجہ سے ڈھلان بہت سخت ہوگئے ہیںجسکی وجہ سے ہمارے مویشی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتے اسلئے ہمیں ان کو مکانوں کے اندر ہی رکھنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں ،تاکہ کسی بھی سانحہ سے بچا جا سکے۔کینٹی دھار کے ایک اور خانہ بدوش گوجر مسکین علی کھٹانہ کا کہنا ہے کہ اس مرحلہ پر ہم اپنے مویشی وادی کے نچلے علاقوں میں بھی نہیں لے جاسکتے کیونکہ وہاں پر کھیتوں میں مکی اور شالی کی فصل ابھی تک موجود ہے۔اس طرح سے ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے ماسوائے اسکے کہ ہمیں مزید 15 دنوں تک ان سوکھے ہوئے چراگاہوںمیں ٹھہرنا ہوگا جب تک کہ فصل کٹائی کا موسم ختم نہیں ہوتا ہے۔ اُس نے کہا کہ تقریبا ً25برسوں کے بعد ہمیں ایسی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس قدرتی آفات سماوی نے ہمیں لاچار بنا دیا ہے۔اُس نے کہا کہ ہم نے ان چراگاہوں میں اپنے مویشی چرانے کیلئے50,000 سے ایک لاکھ روپے ادا کئے ہیںلیکن خشک موسم نے ہمیں دیوالیہ بنا دیا ہے کیونکہ ان چراگاہوںمیں کوئی گھاس نہیں ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقریباً35,000 خانہ بدوش بشمول گوجر، برکوال اور گدی قبائل کے لوگ اپنے مال و مویشی لیکر وادی بھدرواہ اور وادی چناب کے دیگر حصوں میں موسم گرما کے دوران اپنے مویشی چرانے کے لئے جاتی ہیں۔