فدا حسین بالہامی
جو شخص ایک ثمر آور باغ تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ، اسے پہلے چھوٹے موٹے پودوں کی نرسری لگانا پڑے گی۔ اور وہ ہرگز ان ننھے منھے پودوں کی دیکھ ریکھ سے اور نشو نما سے غافل نہیں رہ سکتا ہے۔ یوں ہی جو قومیں انسانی وسائل کے اعتبار سے خود کو خود کفیل دیکھنا چاہتی ہیں انہیں تعلیم و تربیت کا آغاز آغوش ِ مادر سے نہیں بلکہ بطنِ مادر سے کرنا ہوگا ۔ اسلامی تعلیمات میں اس تربیتی نظام کے خد وخال نہایت ہی واضع ہیں۔ جدید علم حیاتیات کے ماہریں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ بچے کی نشو نما چاہے و ہ ذہنی ہو یا جسمانی کا دارو مدار اس کے والدین کی جسمانی ، معنوی ، نفسیاتی ،نسبی و حسبی ہیت و کیفیت پر ہوتا ہے ۔
نو خیز بچے طبعیت کے اعتبار سے صاف و شفاف اور نفسیاتی اعتبار سے بڑے نازک اور حساس ہوتے ہیں ۔ ان کا ذہن و قلب رشک و حسد ، بغض و کینہ اور غرور گھمنڈ جیسی نفساتی بیماریوں سے منّزہ ہوتا ہے ۔ ان کا آئینۂ فطرت خود غرضی کی دھول سے گرد آلود نہیں ہوتا۔ان کی نگاہیں تمام تر زہر آلود نظروں سے پاک ہوتی ہیں۔اور پورے وجود پر معصومیت سایہ فگن ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کو کورے کاغذ کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے بر عکس اس کے بڑے بوڑھے ان کاغذوں کی مانند ہیں کہ جن پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہوتا ہے ۔معنی خیز عبارت نہ سہی الٹی سیدھی لکیریں ہی سہی ۔لہٰذا بڑے بوڑھوں کی تربیت کا اثر زود رس نہیں ہوتا۔کیونکہ بھرے پُرے ظرف میں کوئی اور چیز رکھنے کے لئے پہلے سے پڑی چیز کو نکال باہر کرنا پڑے گا۔ اس لئے بڑوں کی نسبت بچوں کو جو کچھ بھی سکھایا جائے، وہ بہت جلد قبول کر لیتے ہیں۔ مگر اس بات یہ فرض نہ کیا جائے کہ ان کی قوتِ جاذبہ تر و تازہ ہوا کرتا ہے اس لئے ان کی تربیت بھی آسان ہے۔ باوجود اس کے بچوں کو چھوٹے موٹے پودوں کی طرح بآسانی کسی بھی سمت موڑا جا سکتا ہے، ان کی تربیت میں بھی کافی زیادہ پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔کیونکہ ایک کم سن بچے کی ہمہ جہت تربیت کے لئے اس کی جسمانی اور ذہنی ساخت کے ساتھ نفسیاتی کیفیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے، اور تو اور اس کی تخصیصی صلاحیتوں اور فطری رجحانات کی کھوج بین بھی اس سلسلے میں لازمی ہے ۔علامہ اقبالؒ اپنے ایک اہم مضمون میں رقمطراز ہیں کہ’’ بچے کے استادیا مربی اس بات کا خیال رکھے کہ بچے مدرکات ،تصوّرات اور تصدیقات میں ترقی کرتے چلے جائیں۔ پھر لکھتے ہیں’’ طریقِ تعلیم کامل ہو گا جو نفسِ ناطقہ کے تمام قویٰ کے لئے یکساں پرورش کا سامان مہیا کرے ، ادراک ، فکر تحقیق ، تاثر ، غرض کہ نفسِ ناطقہ کی ہر قوت حرکت میں آنی چاہئے کیونکہ کامل طریق تعلیم کا منشا یہ ہے کہ نفس ناطقہ کی پوری پوشیدہ قوتیں کمال پذیر رہیں۔ ‘‘
اس عنوان کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ تربیتِ نونہالاں کسی خاص گروہ یا طبقے کا وظیفہ نہیں ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ بچے کی اولین درسگاہ اگر ماں کی آغوش ہے تو باپ کی نگرانی و سرپرستی بھی اس کی جسمانی،فکری اور معنوی نشو نما کے لئے بنیادی کردار کی حامل ہے۔ایک جانب گھر کا رہن سہن اسے بد ترین یا بہترین اخلاق کی جانب مائل کراتا ہے تو دوسری جانب تعلیمی ادارے بھی اس کی تعلیم و تربیت میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے کے تہذیبی اور تمدنی پہلو کا بھی اس معاملے میں کافی عمل دخل ہے۔ دورِ حاضر میں ذرایع ابلاغ بھی بچوں کی تربیت کے حوالے نہایت ہی موثر ہیں۔اس سلسلے میں اس جانب اشارہ کرنا کافی ہے کہ آج کل مختلف ٹیلیوژن چینلوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے کاٹون فلموں اور ویڈ گیموں کی جو بھر مار ہے جو صرف اور صرف بچوں کی ذہنی ساخت کو مدنظر رکھ کر بنائیں جاتی ہیں۔ان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک خاص مقصد حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔عالمی میڈیا پر جن عناصر کی اس وقت گرفت مضبوط ہے اور جو اپنے دشمنوں اور حریفوں کے انسانی وسائل کو تباہ و برباد کرنے پر کمر بستہ ہیں ۔ ان کے بہت سے ہتھیاروں میں میڈیا بھی ایک خطر ناک ہتھیار ہے جو ’’نرم جنگ ‘‘(soft war ) میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے ۔اسی موثر اور خطرناک ہتھیار کے ذریعے انہوں نے غیر محسوس طریقے پر نسلوں کی نسلیں تباہ کر دی ہے۔ہم بچوں کے لئے بنائی گئیں ویڈیو گیم اور کارٹون سیرئیل کی غرض و غایت محض وقتی تفریح برائے اطفال سمجھتے ہیں۔لیکن ان کے بنانے والے ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے یہ کام انجام دیتے ہیں۔ یہاں ضمناًاس بات کی جانب توجہ مبذول کرانا نہایت ہی ضروری ہے کہ ہم میں سے اکثر افراد نے بچوں کی تربیت کو درد ِ سر گردانا ہے اس لئے اب ہم بچوں کو ٹی وی اور موبائل فون کے حوالے کر دیتے ہیں۔حقیقتِ حال یہ ہے کہ اکثر والدین اور دیگر نگران افراد بچوں کو ٹی وی کے سامنے بٹھا دیتے ہیں یا ان کے ہاتھ میں موبائل تھما دیتے ہیں تاکہ بچوں کے طفلانہ مطالبوں اور بچگانہ حرکتوں سے ان کی جان چھوٹے۔حالانکہ ان کی یہ بچگانہ حرکتیں فطری ہیں کہ جن کو نہ صرف غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک خاص طرح دے کر ان بے ہنگم حرکتوں سے ہی بچوں میں تعمیری ذہنیت پروان چڑھائی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کی طبعیت میں ہمیشہ ایک اضطراری کیفیت ہوتی ہے وہ ایک ہی کل پر بہت دیر تک ٹک نہیں سکتے،اسی لئے وہ اپنی حالت بدلتے رہتےہیں۔ اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہئے کہ وہ ایک جامد نہیں بلکہ متحرک وجود لے کر دنیا میں وارد ہوئے ہیں۔ان کا ایک جگہ نہ بیٹھنا اس بات کا ازخود اعلان ہے کہ وہ پتھر کہ مورتیاں نہیں ہیں کہ جس طرح نصب کیا جائے تو وہ صدیوں ویسی کی ویسی رہیں گی۔ان کا مٹی کے گھروندے بنانا ظاہر کرتا ہے کہ ان میں ایک تعمیر گرچھپا بیٹھا ہے ۔جسے ایسا ماحول فراہم کرنا ہے کہ وہ ظاہر ہونے پر مجبور ہو جائے۔ان کا جی اگر بہت جلد ایک قیمتی کھلونے سے بھر جائے اور پھر کھول کریا توڑ کر یہ دیکھنے کوشش کریں کہ آخر اس کے اندر کیا میکانزم ہے ۔تو جان لیجئے کہ ان میں تحقیق اور کنجکاوی کا عنصر زندہ ہے۔وہ اس جذبہ و شوق کو لے کرصحنِ زندگی میں داخل ہوئے ہیں کہ وقت آنے پر وہ کائنات کے سربستہ رازو ں کو فاش کرنے کی جرأت کا اظہار کریں گے۔جس بار بار سوال پوچھنے کے عمل پر والدین یا دیگر سرپرستوں کو عجیب قسم کی کوفت ہوتی ہے ، وہ چھوٹے بچوں کے لئے ایک ایسی خاصیت ہے کہ جس پر ان کے علم و آگہی کی بنیاد پڑتی ہے ۔غرض یہ کہ جن عادتوں کو عام طور پر بد تصور کیا جاتا ہے وہ عادتیں نہ صرف فطری ہیں بلکہ ان کو مہمیز دے کر اچھے خصائل ابھارے جا سکتے ہیں۔ اور بظاہر تخریبی حرکتوں سے تعمیری کام لیا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس حوالےسے ایک بہت گہری بات اپنے مقالے میں لکھی ہے لکھتے ہیں’’ بچوں میں اعصابی قوت کی ایک زائد مقدار ہوتی ہے، اسے متعلم نہیں بلکہ متحرک ہستی سمجھئے ۔ ان کی طفلانہ حرکت سے کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ شور سے راگ سکھایا جا سکتا ہے ۔ چیزیں ادھر اُدھر پھینکیں تو اینٹوں سے گھر بنانا سکھایئے‘‘مگر ہمارے یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہر ایک اس عظیم مگر مشکل کام کو دوسرے کے سر ڈال دیتا ہے۔والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کی تربیت تعلیمی اداروں اور استادوں کے ذمے ہیں اور تعلیمی ادارے اس خیال کی تائید کرتے نہیں تھکتے کہ ان کا زیادہ تر وقت تعلیمی اداروں کے بجائے گھروں میں گزرتا ہے، اس طرح یہ ذمہ داری گھر والوں کی ہی ہے۔ جس کا راست نتیجہ یہ نکلا ہماری نئی نسل ذرایع ابلاغ کے رحم و کرم پر رہ گئی ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جو نونہال ہماری نظر کے سامنے بلکہ ہماری گودیوں میں پل بڑھ رہے ہیں، اصل میں وہ اغواہ شدہ ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس اغواہ کاری کی ہمیں بھنک تک نہیں پڑتی۔ہم اس کام سے تو غافل ہیں لیکن دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک نئی دنیا تعمیر کرنے میں کوشاں ہیں۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ ’’نئے عالمی نظام ‘‘(new world order)کو وجود میں لانے کے لئے انسانی وسائل کا من مرضی کے مطابق استعمال بلکہ استحصال کرنا نا گزیر ہے۔ لیکن یہ استحصال تب تک ناممکن ہے کہ جب تک حریف قوموں کی نئی نسل کو اپنی ہی تہذیب و ثقافت سے بیگانہ نہ کیا جائے۔وہ اس شعوری کوشش میں بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ کہ ہمارے بچوں کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی غذا بھی ان کی تیار کردہ ہو۔فی زمانہ اس حقیقت کا انکار کوئی بھی صاحبِ اولاد فرد نہیں کرسکتا ہے کہ ہمارے اپنے بچوں کو لفافہ بند غذا (junk Food )مرغوب لگتی ہے اور ذہنی غذا کے اعتبار سے انہی کے تیار کردہ ویڈیو گیمیں اور کا ٹون سیرئیل وغیرہ کا چسکا انہیں بُری طرح لگ گیا ہےاور ہمارے کمزور تربیتی نظام کا عالم یہ ہے کہ ہم اپنے بچے کے ہاتھ سے چپس (chips) کی پیکٹ چھین لینے اور اسے صرف اور صرف اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ غذا ہی کھلانے سے قاصر ہے، نیز ہم اس کی نظریں ٹی ،وی ، کمپیوٹر اور موبائل سیکرین سے ہٹا کر انہیں سبق آموز کہا نیاں اپنے منہ زبانی سنانے کی پوزشن میں نہیں ہیں ۔ اگر آج ہم نے ان بچوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو کل کو بدلے میں یہی بچے اگر اپنے بزرگ والدین کو اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیں تو عینِ متوقع ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُن اغوا شدہ بچوں کو جو ہماری آغوش میں کھیلتے کودتے ہیں اورہمارے ہی گھر پلتے بڑتے ہیں، بازیاب کرائیں۔ بازیابی کے بعد انہیں اپنائیں اور پھر شعوری طور پر اُن کی تربیت کا اہتمام کریں ۔ مگر یہ کام وقت طلب بھی ہے، مشقت طلب بھی ہے اور دقعت طلب بھی ۔ بصورت ِ دیگر نونہالانِ قوم کی تربیت کو سبک سمجھنے والوں کو یہ شکوہ کرنے کا حق نہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے نئی پود ان کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
(رابطہ۔7006889184)
Email: [email protected]