بابا مرتضیٰ رے کاپرن شوپیانوئی
واہ! آپ مجھے باتوں سے بالکل بھی کسی قسم کے مریض معلوم نہیں ہوتے ہو۔
باتیں تو آپ ایک پاک دامن ولی کی طرح کرتے ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ کے بڑوں نے آپ کو باقی جانوروں کی طرح صرف پالا ہی نہیں بلکہ آپ کی بھر پور زمہ داری سے پرورش اور تربیت کی ہے۔کیوں؟ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ ذہنی مریضوں کے اسپتال میں ایک باصلاحیت ڈاکٹر صاحب ذہنی مرض میں مبتلاء ایک کے نوجوان بیمار سے تشخیص کے دوران پوچھ رہا تھا۔ دراصل ڈاکٹر صاحب نے اُس نوجوان کی باتیں سنی تھی جو وہ اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک شخص سے ڈاکٹر صاحب کے کمرے کے باہر کر رہا تھا۔ مگر نوجوان کی خاموشی توڑنے کے لئے ڈاکٹر صاحب کی ساری محنت سمجھو رائیگاں ہو رہی تھی۔ کیونکہ نوجوان نے مانو ٹھان لی تھی کہ اب کسی سے کچھہ بھی اظہار نہیں کرنا ہے کیونکہ وہ سماج کا بہت ہی زیادہ ستایا ہواتھا۔ وہ عہد کرچکا تھا کہ ہونٹوں کو پوری طرح مہر بند کرکے رکھنا ہے۔ جب مشکلات کا سامنا خود ہی کرنا ہے اور ہر چیز کا حل انفرادی طور پر ہی ڈھونڈنا ہے تو کسی سے اظہار کرکے اپنا تماشا کیوں بنانا ہے۔ہاں مگر قمیض کے سامنے والی جیب میں ایک ڈائری اور قلم رکھا ہوا تھا جس پر وہ کچھ نہ کچھ آئے دن لکھتا رہتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نہ جانے کیوں اس نوجوان سے بار بار صرف یہی پوچھتا رہا کہ آپ اتنے کیوں خاموش بیٹھے ہو۔خاموشی توڑ بھی دیجئے، شاید میں کوئی آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔ مگر نوجواں پتھر کے بت کی طرح سر اور پاؤں ہلاے بغیر ایک بے جان بُت کی مانند وارڑ کے کونے میں سمٹا ہوا تھا۔ لوگوں کے روئیوں سے پوری طرح بیزار ہوچکا تھا شاید یہی وجہ تھی کی لبوں کو جیسے ٹانکے لگائے بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اب دوسرے مریضوں کی دیکھ ریکھ میں مصروف ہوئے۔ تبھی ایک آدمی باہر سے وارڑ میں داخل ہوتے ہی اونچی اواز میں چلانے لگا ہے، “میرے دوست! میرے دوست! تجھے کون سی چیز یہاں اس ذہنی مریضوں کے اسپتال میں لے آئی پچھلے مہینے ہی ہم ملے تھے، تب تو تم بالکل ٹھیک ٹھاک دکھ رہے تھے۔ یہ منحوس خبر سنتے ہی جیسے مجھ پر آسمان ٹوٹ پڑا اور مجھ سے رہا نہ گیا اور میں یہاں تمہارا کا حال پوچھنے دوڑے چلا آیا۔ اپنے ذہنی مریض دوست کو گلے لگاتے ہوے اس سے مزید کہا کہ آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ میں اور میرے گھر والے تمہارے لئے کتنے فکر مند ہو رہے ہیں۔تم اتنا تناؤ کیوں لے رہے ہو۔تم شاید اپنی بیٹیوں کی شادی کو لے کر اتنے تناؤ میں آگئے ہو۔فکر نہ کرو، اگر خدا نے چاہا تو سب کچھ ٹھیک ہوگا۔ اگر میں نے مکان اور بیٹے کی شادی پر اتنا خوب سارا پیسہ خرچ نہ کیا ہوتا تو شاید میں تمہاری مدد ضرور کرتا۔تم تو جانتے ہی ہو کہ تم میرےواحد ایک ہی سچے دوست ہو جسکو میں دل و جان سے جانتا اور مانتا بھی ہوں”۔ ڈاکٹر صاحب مریضوں کے معائینے کے دوران وارڑ میں آئے ہوئے اس نئے شخص کی باتوں سے کافی متاثر ہوئے مگر اسی بیچ وہ نوجوان جو عہد کرچکا تھا کہ کچھ بھی ہو اب کسی سے کچھ بھی بولنا نہیں اسکی زبان سے بے ساختہ ہی۔۔۔۔ نقاب! نقاب! کے کلمات نکل پڑے۔ ڈاکٹر صاحب اور وارڑ میں بیٹھے تمام لوگوں کی توجہ اسی نوجوان کی اور چلی گئی۔اب ڈاکٹر چہل قدمی کرکے اس نوجوان کے پیچھے آکر ٹھہر گئے۔ نوجوان اس وقت ڈائری پر پہلے ہی ایک لکھے ہوئے شعر کو اونچی آو از میں پڑھنے لگا۔ شعر کچھ یوں تھا۔؎
ایک چہرے سے اُترتی ہیں نقابیں کتنی
لوگ کتنے ہمیں ایک شخص میں مل جاتے ہیں
ڈاکٹر صاحب اب نوجوان کے بالکل پاس آکر واہ! واہ! کہنے لگے اور اب شاید ڈاکٹر صاحب کو بھی یہ اندازہ ہوا کہ نوجوان اصل میں کس چیز کو لیکر اتنی مایوسی اور تناؤ کا شکار ہوچکا ہے۔ اب وہ اس نوجوان میں پہلے سے زیادہ دلچسپی لینے لگا اور نوجوان سے حلیمانہ انداز میں عرض کیا۔میں آپ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ کیا أپ مجھے اپنے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں۔ نوجوان ڈاکٹر صاحب سے جواب میں کہنے لگے۔ میں بھی ایک ڈاکٹر کا بیٹا ہوں ۔ میرے باپ نے مجھے ملک کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھایا لکھایا اور مجھے ریسرچ سکالر یعنی ڈاکٹر ضمیر بنایا۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی اور میرے والد صاحب کچھ سال پہلے اس فانی دنیا سے رحلت کرگئے۔ پھر میرے چچا نے آہستہ آہستہ تمام تر نظام اپنے قابوں میں کرلیا اور پھر وقت آنے پر کاغذی قرض دکھا کر قرض کا بٹوارہ کیا۔ مجھے اور میری پیاری ماں کو رب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ میں نے پرائیوٹ نوکری سے جدوجہد کرکے دن رات محنت و مشقت کی اور خون پسینے سے قرض کی ادائیگی کی۔ مگر میں آپ کو بتاؤں کہ اس عرصہ دراذ میں مجھے ایک چیز کی خوب مہارت حاصل ہوئی، وہ یہ کہ یہاں ہر ایک انسان چاہئے اپنا ہو یا پرایا بس نقلی صورت یعنی نقاب اوڑھا ہوا ہے اور ہر حال اور ہر مقام پر چہرے کا نقاب بدلتا رہتا ہے۔ اپنے مفاد اور عناد کے واسطے اپنے معیار،وقار، ساخت،وجود،ضمیر اور یہاں تک کہ پوری انسانیت کو شرمسار کرنےسے بھی نہیں ہچکچاتا۔بس نقلی ہمدردی، کھوکھلی تسلی، مگر مچھ کے آنسوئوں اور جھوٹ موٹ کا دلاسہ دیتے رہتے ہہیں۔ ہر ایک انسان کے قول و فعل میں واضح طور پر تضاد دکھائی دیتا ہے۔ باتوں سے ہر ایک ولی دکھائی دیتا لیکن عملی دنیا سے انکا واسطہ دور تک بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اپنے ماں باپ سے ہر ایک گھر میں بدسلوکی اور بے عزتی سے پیش آتا ہے اور باہر جاکر دوسروں کے سامنے مہذب بننے کی کوشش میں جُٹ جاتا ہے۔یہ نقلی عمل نہیں تو اور کیا ہے۔ چند نوالوں کے خاطر آجکل کا انسان ماں باپ کو بانٹ لیتا ہے اور باہر خیرات کی ریا کاری میں پیش پیش رہتا ہے اور دعویٰ خیر خواہی کا کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آج کل کا انسان اپنے بچوں کو پالنے پوسنے اور تربیت کے واسطے نوکر کے حوالے کرتا ہے اور خود اپنا سارا وقت اور دھیان کتا، بلی یا اور کوئی جانور کے پالنے اور دیکھ ریکھ میں صرف کرتا ہے۔
میرا اپنا چاچا جی میرے باپ کی ساری جمع پونجی ہڑپ کرکے مجھے اب گھر چلانے کے نسخے سکھا رہا ہے اور مجھ سے یہ امید کررہا تھا کہ میں بھی نقاب اوڑھ کر لوگوں کے ساتھ دھوکہ دھڑی کروں مگر وہ نہیں جانتا کہ میرا نام ضمیر ہے اور اپنے نام کا معنی خوب اچھے سے جانتا ہوں۔ڈاکٹر صاحب کو ڈاکٹر ضمیر کی باتیں خوب حق اور سچ لگیں اور وہ سارے کام بھول کر ضمیر کی باتیں دل کے کانوں سے سن رہا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ نوجوان خوب ساری باتیں کرنے تاکہ مجھے اندازہ ہو کہ نوجوان کس چیز کو لے کر انسانوں سے اتنا حتاش ہوا ہے۔ اب ڈاکٹر صاحب ضمیر سے کہنے لگے کہ پھر کون سی چیز آپ کو اس ذہنی مریضوں کے اسپتال میں لےأئی۔ ضمیر نے جواب میں کہا کہ یہاں مجھے میرا رویہ ، میرا سچ اور میرے چاچا جان کی حرص و لالچ لے آئی۔وہ مجھے ذہنی مریض دکھا کر لوگوں کو یہ دکھلانا چاہتا ہے کہ میں نہ نوکری کے قابل ہوں اور نہ ہی رشتے کے قابل ہوں۔ وہ میرا گھر بسا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔وہ میری ماں کی علالت کے بہانے روز میرے گھر جھوٹی ہمدردی کا نقاب اوڑھ کر یہ دیکھنے آتا ہے کہ کب میری ماں بھی اس عارضی دنیا کو چھوڑ کر دائمی دنیا میں چلی جائے اور میں انکی یہ بچی کھچی جائیداد بھی ہضم کرلوں۔۔
ڈاکٹر صاحب اچھا تو آپ آتے وقت اپنے چاچا جان سے ہی وہ گفتگوں کررہے تھے۔جی ہاں، وہی اور ایک نقاب اوڑھ کر مجھے یہاں زبر دستی لے آئے یہ دکھانے کے لئے کہ میں آپکا سچ مچ میں ہمدرد ہوں۔ دراصل وہ مجھے واقعی ایک ذہنی مریض ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اب پوری طرح اس کھیل کو سمجھ چکے اور نوجوان سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ مجھے آپ کی باتوں پر ذرہ برابر بھی شک نہیں ہوتا۔آپ نے جو بھی کہا میں سمجھ گیا۔مگر انسان اتنا اپنے معیار سے گر چکا ہے اور اتنا احساسات اور انسانیت سے دور چلا جا چکا ہے یہ آپ کی دردناک کہانی سنکر ہی محسو س ہو رہا ہے۔ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں آپ کو اپنے پرائیوٹ نرسنگ ہوم میں نوکری دے سکتا ہوں۔ مجھے بھی برسوں سے ایک قابل، زہین اور با صلاحیت نوجوان کی کھوج تھی۔اگر آپ جیسے زندہ دل، نیک رویہ اور حقیقی معنوں میں زندگی کو سمجھنے والوں کی قدر اور عزت نہ کی جائے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا سماج انسان نما بندروں کا جنگل بن جائے گا۔ اسکالر ضمیر نے ڈاکٹر صاحب کے یہاں نوکری کرنے کی مسکراتے ہوے حامی بھر لی اور ڈاکٹر صاحب نے ضمیر کو گھر کے لئے وارڑ سے خوشی خوشی فارغ کرنے سے پہلے ایک شعر سنانے کی درخواست کی اور نوجوان نے جیب سے ڈائری نکالی اور اس پر سے یہ شعر پڑھنے لگا۔
ضمیر بیچ کر شہرت کمانے والے سنؔ
تیرے عروج سے میرا زوال ہی اچھا ہے
���
موبائل نمبر؛7889379873