ڈاکٹر عریف جامعی
’’نظم‘‘ کے لغوی معنی ’’لڑی‘‘ کے ہیں۔ لڑی ایک ایسا دھاگہ ہوتا ہے جس میں جب موتیوں کو پرویا جاتا ہے تو وہ ایسی مالا بن جاتی ہے جس سے کسی شخص، جو اسے پہنے، کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ تاہم اس مالا کی قدروقیمت کا دارومدار موتیوں سے پہلے لڑی کی مضبوطی پر ہوتا ہے۔ ’’ضبط‘‘ کسی چیز کی مضبوطی کے ساتھ حفاظت کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ یہ لفظ مضبوطی، تحمل اور برداشت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس طرح ’’نظم و ضبط‘‘ کی ترکیب سے ہمارے سامنے یہ تصویر ابھر کر آجاتی ہے کہ جس چیز میں نظم و ضبط یا ترتیب ہو، وہ اس مالا کی طرح خوبصورت اور مضبوط ہوتی ہے، جس کی لڑی میں موتی پروئے گئے ہوں۔
جب ہم نظم و ضبط کو سیرت کے تناظر میں دیکھتے ہیں، تو ہمیں نبیؐ کی ہر ہر ادا میں مضبوطی، تحمل اور برداشت جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ انسانی سیرت کی تین سطحیں ہوتی ہیں، یعنی فکری سطح، قولی سطح اور فعلی سطح۔ اللہ کے آخری نبیؐ کا طریقۂ کار ان تینوں سطحوں پر ہمیں نہایت ہی مضبوط، مربوط اور محکم نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ فکر، قول اور فعل کی انہی صفات سے وہ چیز ظاہر ہوتی ہے، جسے ہم نظم و ضبط یعنی ڈسپلن کہتے ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ ہم کبھی کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ نظم و ضبط صرف چال ڈھال کی حد تک ہی ضروری ہے۔ یعنی کبھی کبھی ہم یہ دیکھ کر مطمئن اور خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم اٹھنے بیٹھنے میں ایک خاص طرز اختیار کرکے نظم و ضبط کے پابند ہوگئے۔
تاہم سیرت رسولؐ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ سب سے پہلے فکر میں نظم و ضبط پیدا ہونا چاہئے۔ کیونکہ فکر ایک بیج کی طرح ہوتا ہے، جس سے ایک تناور درخت وجود میں آجاتا ہے۔ جب فکر میں نظم و ضبط پیدا ہوگا تو انسان کا ذہن انتشار، الجھن اور پریشانی سے نجات پاتا ہے۔ اس طرح انسان زندگی کے کسی بھی مسئلے پر بڑے ہی تحمل کے ساتھ غور و فکر کرکے کسی مثبت نتیجے پر پہنچتا ہے۔ ایسے انسان کا ذہنی تناؤ دور ہوتا ہے اور وہ معاشرے کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے انسان کی ہر محفل کو ضرورت پڑتی ہے اور ایسا ہی انسان نہایت پیچیدہ مسائل کو آرام کے ساتھ حل کرنا سیکھتا ہے۔ سیرت رسولؐ میں ہمارے پاس اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ تاہم یہاں پر ہمارے لئے اس قسم کی ایک مثال کافی ہوگی۔ ہوا یوں کہ جب قریش نے خانۂ کعبہ کی تعمیر نو شروع کی تو حجر اسود کو اپنی جگہ نصب کرنے پر ایک جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ اسی کا سردار اس پتھر کو اپنی جگہ پر لگانے کی سعادت حاصل کرے۔ جب لوگ لڑائی کے لئے تلواریں کھینچنے لگے تو کسی شخص نے تجویز دی کہ اس کا فیصلہ محمد ؐ کے سپرد کیا جائے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ واقعہ بعثت سے پہلے کا ہے اور ابھی محمدؐ نوجوان تھے۔ اس کے باوجود آپؐ کے فکر میں اس طرح کا انضباط (یعنی مضبوطی یا نظم و ضبط) تھا کہ آپؐ نے کھلے اور ٹھنڈے ذہن کے ساتھ مسئلے پر غور کیا اور یہ فیصلہ سنایا کہ جو کل صبح سب سے پہلے کعبے کے صحن میں پہنچے گا تو اسے ہی یہ سعادت حاصل ہوگی۔ دوسرے روز اگرچہ سب سے پہلے پہنچنے والے آپ ؐ خود ہی تھے، تاہم آپ نے ایک چادر بچھا کر حجر اسود کو اس پر رکھا اور مختلف قبیلوں کے سرداروں کو چادر تھامنے کو کہا اور اس طرح پتھر کو اپنی جگہ پر نصب کیا۔ اس طرح سبھی لوگ خوش اور راضی ہوگئے اور جھگڑا ختم ہوا۔
فکر کے ساتھ ساتھ جب انسان کے قول یعنی کلام یا بات میں نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے، تو وہ اپنی بات ناپ تول کر یعنی سوچ سمجھ کر کرنے لگتا ہے۔ ایسے شخص کو اپنی زبان پر اتنا قابو حاصل ہوتا ہے کہ وہ نہایت کم الفاظ میں بہت ہی معنی دار بات کہتا ہے اور سننے والے کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔ بقول احمد فراز:
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
ایسا ہی شخص سورہ الفرقان کے مطابق جاہلوں سے الجھے بغیر آگے بڑھنے کا ہنر جانتا ہے اور اپناتا ہے۔ سورۃ الفرقان میں نبیؐ کے صحابہ کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ وہ ’’جاہلوں کو سلام کے ذریعے نظر انداز کرتے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ صفت بھی صحابہ نے نبی ؐ سے سیکھی تھی، کیونکہ آپ ؐ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق ’’جوامع الکلم‘‘تھے، یعنی ’’آپؐ کم الفاظ بول کر بڑے معنی بیان فرماتے تھے۔‘‘ واضح ہوا کہ کلام میں نظم و ضبط پیدا ہو تو کلام میں ترتیب اور تنظیم آجاتی ہے اور انسان موقع اور محل کے مطابق بات کرتا ہے جو نہایت ہی پر اثر ہوتی ہے۔
انسانی شخصیت کی کارکردگی کی تیسری جہت اس کے فعل یعنی کام کی صورت میں سامنے آجاتی ہے۔ نظم و ضبط پیدا ہوتے ہی انسان ہر کام نہ صرف اپنے وقت پر کرتا ہے بلکہ کوئی بھی کام اپنے موقع اور محل یعنی صحیح وقت اور جگہ پر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر تازہ ہوا کے جھونکے صبح اور شام کے وقت باغوں اور مرغزاروں کی سیر و تفریح سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں، انہیں دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں بھرے بازاروں میں تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ کھیل کود کے مقصد کو کھیل کے میدان ہی میں حاصل کیا جاسکتا ہے، اسے بیچ راستے نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔ علم کی تلاش مدارس اور مکاتب میں ہی کی جاسکتی ہے، بازار میں گھومنے پھرنے سے اس کا حصول ممکن نہیں، کیونکہ وہاں انسان کا ذہن کسی علمی نکتے پر ارتکاز نہیں کرسکتا۔ نماز کی صورت میں خدا کے سامنے حاضری پانچ وقت مسجد میں پہنچ کر ہی دی جاسکتی ہے، یہ مقصد کسی اور جگہ پر اس انداز میں پورا نہیں ہوسکتا۔
یہاں پر یہ بات نہایت غور طلب ہے کہ اگرچہ نظم و ضبط کا اظہار انسان کی حرکات و سکنات اور اقوال و افعال سے ہوتا ہے، جس سے نظم و ضبط انسان کی ایک خارجی جہت معلوم ہوتی ہے، لیکن نظم و ضبط دراصل انسان کے احساسات اور خیالات کا ہی خروج ہوتا ہے۔ چونکہ انسان کا کردار انہی حرکات و سکنات اور اقوال و افعال کا مجموعہ ہوتا ہے، اس لئے اگر انسان کے کردار میں نظم و ضبط پایا جائے تو اس سے فکر و خیال کی درستگی اور تنظیم کا پتہ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص کے کرادر میں دوام اور ثبات نہیں ہوتا اس کے خیالات لازماً انتشار کا شکار ہوتے ہیں۔ خیالات کا یہی انتشار منتشر عمل بن کر خارج ہوتا ہے اور انسان کو افراط و تفریط کا مجسمہ بنادیتا ہے۔ اس قسم کا انسان پھر غیر اہم امور کو اتنی اہمیت دیتا ہے کہ اصل امور اس کی نظر میں اپنی اہمیت کھودیتے ہیں۔ اس قسم کا رویہ فرد اور معاشرہ، دونوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’اللہ تعالی کے ہاں زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے خواہ وہ کم ہو۔‘‘ (بخاری)
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مربی اپنے زیر تربیت طالب علم کے افکار و خیالات کو صحیح رخ دینے کے لئے اس کے اعمال یا کردار میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ طریقۂ کار، جس کا رخ خارج سے داخل کی طرف ہوتا ہے، طالب، سالک یا مرید کی فکر کو درست کرنے کے لئے پہلے اس کے عمل کو درست کرتا ہے۔ جب مربی کے تجویز کیے ہوئے اعمال شاگرد بار بار دہراتا ہے، تو وہ اس کی عادت بن جاتے ہیں۔ اس طرح یہ اعمال شاگرد کی طبیعت ثانیہ بن کر اس کے اندرون میں اپنے اثرات مرتسم کرتے ہیں۔ ان اثرات سے آہستہ آہستہ اس کے افکار میں ایک انقلاب آنا شروع ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ نبی ؐ انسانیت کے لئے مربی (استاد) بناکر بھیجے گئے تھے۔ (بعثت معلماً) اس لئے آپؐ کے ذریعے سکھائے گئے افکار اور اعمال نے آپؐ کے متبعین، جو اصل میں آپؐ کے شاگرد تھے، کے لئے تربیت کا دوہرا کام کیا۔ یعنی جب آپؐ نے افکار سکھائے تو ان کے ذریعے پہلے انسان کے اندر کی دنیا تبدیل ہوئی اور اس تبدیلی کے اثرات اندر سے باہر کی طرف منتقل ہوئے۔ اس بات کو نبیؐ کے ذریعے سکھائے گئے پہلے کلمہ، یعنی ’’قولوا لا الہ الا اللہ، تفلحوا‘‘ کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ جہاں یہ الفاظ سن کر درجنوں لوگ ’’السابقون الاولون‘‘ کی صف میں شامل ہوئے، وہیں نبی ؐ کا چچا، ابو لہب ’’تبت یدآ‘‘ کا مستحق ہوگیا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کلمے کے تقاضے ایسے ہیں کہ انسانی شخصیت کی جہات سہ گانہ (فکر، قول اور عمل) کا کایا کلپ ہوجاتا ہے۔
اسی طرح کا بلکہ یہی معاملہ ایمان کا ہے کہ اس کا بیج دل کی زمین پر پڑتے ہی انسان کی اندر کی دنیا میں انقلاب عظیم برپا کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عمل صالح کا ننھا پودا اپنی کونپلیں نکالنا شروع کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ انسان کا کردار اعمال صالحہ کے تناور درخت کی صورت میں معاشرے میں نمودار ہوتا ہے، جو معاشرے کے لئے سعادت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس معنی کو قرآن کی یہ آیت خوبصورتی کے ساتھ سمیٹتی ہے: ’’جو شخص عزت کا طلب گار ہے تو عزت تو سب خدا ہی کی ہے۔ اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتے ہیں۔‘‘(الفاطر، ۱۰) اس طرح اب تربیت کا رخ اعمال سے افکار یعنی خارج سے داخل کی طرف ہوتا ہے۔ یعنی اب اعمال کے ذریعے افکار مضبوط ہوتے ہیں، جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں بندے کے تقرب کا وسیلہ بنتے ہیں۔
اب چاہے نماز کے ذریعے ’’فحشاء اور منکر‘‘ سے بچنا ہو یا روزے کے ذریعے ’’قول زور‘‘ سے بچ کر، حلال اور طیب غذا تلاش کرکے، خدا کے لئے سفر کرکے اور فروتنی کا لباس پہن کر تقوٰی کا حصول ہو، ان سبھی اعمال میں بندے کی داخل سے خارج اور خارج سے داخل کی تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہی تربیت انسان کو نظم و ضبط کی اعلی ترین سطح یعنی صبر تک پہنچاتی ہے، جس سے انسان ہر قسم کی مشکلات اور شدائد کا مقابلہ خندہ پیشانی کے ساتھ کر پاتا ہے۔ واضح رہے کہ صبر کسی جمود، کسل مندی یا بزدلی کا نام نہیں، بلکہ یہ زندگی کے نشیب و فراز میں ہوش و حواس اور دل جمعی کے ساتھ ثابت قدمی رہنے کا نام ہے۔ صبر سے ہی انسان دین اور دنیا کے درمیان اعتدال قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور اسی سے انسان دنیا میں صلاح اور آخرت میں فلاح کے مقام کو پالیتا ہے۔ ابدی خسارے سے بچنے کے لئے بنیادی چار شرائط میں سے ایک شرط صبر ہی ہے۔ (العصر) یعنی توحید کا نظریہ ہمارے فکر میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے، توحید پر مبنی صدق مقال (یعنی سچا کلام) ہمارے قول یعنی بات میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے اور توحید کے مطابق عبادات کا نظام الاوقات (یعنی ٹائم ٹیبل) ہمارے افعال یعنی ہمارے کام کاج میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔9858471965
[email protected]