ہیں بیٹھے خوار گرمی میں
فضائے پرُ تمازت کی لئے دستار گرمی میں
بڑی مُدّت سے بیٹھے ہیں بہُت لاچار گرمی میں
یہ سامانِ اذیّت کی فراوانی ارے توبہ!
بلکتے شیر خواروں پہ اماں یہ مار گرمی میں
کہ بحرِ زیست کا اب کے طلاطم خیز منظر ہے
نہ زیبِ تن ہے کُرتا اب نہیں شلوار گرمی میں
مزاجِ وقت کا اپنا وطیرہ بے سُرا ٹھہرا
کہیں سردی کے متلاشی ہیں بیٹھے خوار گرمی میں
الٰہی محوِ حیرت ہوں تِری اس کبریائی پر
ہے کوئی قصرِ شاہی میں، کوئی نادار گرمی میں
دفینے برق پاروں کے چناب ورودِ جہلمؔ ہیں
نکالو یہ متاع ان سے مِری سرکار گرمی میں
کبھی عُشّاقؔ ممکن تھا ملن مہ وش سے گلیوں میں
نظر آتا نہیں اب کے کوئی گُلنار گرمی میں
عُشّاقؔ کِشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ کشتواڑ
رابطہ؛ 9697524469
افسردہ دل…!
اے دل..!
کیوں…
اتنی…
اداسی چھائی .
کیسی چنتا
تجھ میں آئی۔
کیا کھویا ہے
جسکی خاطر
تم نے اپنی
جان گنوا?ئی۔
افسردہ دل..!
کیسے اور میں
کیا سمجھاؤں؟
کوئی نہ سمجھے
تری تنہا?ئی
تجھ کو کیسے
راہ دکھلاؤں
حال ترا یہ
جھیل نہ پاؤں۔
جسپال کور
نئی دلی،
9891861497
کوئی چیونٹی ستائو گے تو
کسی کا دل دُکھائو گے تو پھر دیکھو
کسی کو گر ہنسائو گے تو پھر دیکھو
جزا دیدے، سزا دیدے بَدی نیکی
کوئی چیونٹی ستائو گے تو پھر دیکھو
ہو خدشہ چوٹ کا جس سے وہی پتھر
اگر راہ سے ہٹائو گے تو پھر دیکھو
’’مدد‘‘کا ایک جذبہ ہے جو سینے میں
اسے دل سے مِٹائو گے تو پھر دیکھو
قہر، طوفاں، قحط سالی یہ بیماری
لہو بے جا بہائو گے تو پھر دیکھو
مسافر کوئی بھٹکا ہو جو راہوں میں
اسے منزل دِکھائو گے تو پھر دیکھو
لہو کا دیپ جلتا ہے تو جلنے دو
جو ٹھوکر سے بُجھائو گے تو پھر دیکھو
کوئی بچہ یتیمی میں جو ماں ڈھونڈے
جو سینے پہ سُلائو گے تو پھر دیکھو
حُسینیؑ خوں سے سحرا میں کِھلیں گلشن
اگر سر کو کٹائو گے تو پھر دیکھو
فلک جی خُواہشیں اکثر سکوں چھینیں
دبا کر جو سُلائو گے تو پھر دیکھو
فلک ریاض
چھتر گام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
ہار
چلو میرے یار اک تمہی کو
آج دل کی بات سناتا
میں بھی پاگل ہوں
اک پیڑ کو اپنا یار کہتا ہوں
چلو یار کہہ دیا تو
دل کی بات بھی کہتا ہوں
اب سنو بھی میرے یار
غور سے سننا ، انسانوں کی طرح
مذاق نہیں اڑانا !!
یہ عشق کا کھیل بھی
آسان نہیں ہے کچھ
وہ نادان ہے یار
جو اس کو آسان سمجھے
کوئی ہار کے جیت جاتا ہے
کوئی جیت کے ہار جاتا ہے
کوئی تو انجان ہو کر ہی
لیلیٰ کو پاتا ہے اور کوئی
مجنوں بن کر عمر بھر تڑپتا ہے
اور پھر پاگلوں کی طرح
پیار کے نغمے گاتا ہے
اس میں بھی شطرنج کی طرح
قدم قدم پہ ہوشیار رہنا پڑتا ہے
صرف بیگم کو دیکھنا نہیں ہوتا
دشمنوں پہ بھی نظر رکھنی پڑتی ہے
میں ہوں کہ دشمنوں سے دوستی کر کے
انہیں اپنا سمجھتا ہوں
اور اس کھیل میں یار
ہر بار ہار جاتا ہوں
منتظر یاسر
فرصل کولگام کشمیر، 9682649522