مدثر مرچال ،زینہ گیر کشمیر
انیسویں صدی سے دنیا بھر میں خواتین کو با اختیار بنانے کی مہم جوئی نے زندگی کے کئی اہم شعبہ جات میں خواتین کو ترجمانی کرنے کا موقعہ ضرور فراہم کیا ۔عورت کی سیاسی، سماجی اور معاشی خودمختاری کی دنیا بھر میں وکالت کی گئی ،جس کے نتیجے میں کم و بیش ہر ملک کے انتظامی ڈھانچے میں خاص تبدیلیاں رونما ہوئیں اور کئی طرح کے اقدام اُٹھائے گئے جیسے سرکاری نوکری کے لئے خواتین کو ملنے والی ریزرویشن ، کئی ممالک کے قانون ساز اداروں میں خواتین کے لئے مقرر کی جانے والی نشستیں وغیرہ ۔ لیکن Women empowerment کی اس دوڑمیں بھی عورت کے بنیادی مسائل توجہ طلب ہی رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا Women Empowerment کے ڈھول بجائے جانے کے باوجود عورت محفوظ ہے؟ کیا عورت کو جہیز ، گھریلو تشدد اورجنسی زیادتی جیسے مسائل سے آزادی ملی؟ اس کا جواب فی الحال مثبت معلوم نہیں ہو رہا۔ جس کی گواہی دنیا بھر کے اخبار دیں گے جن میں ہر روز دل دہلانے والی خبریں چھپی ہوتی ہیں۔ بات ہندوستان کی کریں تو یہاں ملک کے ایوانوں میں عورت کو ترجمانی ملنے کے باوجود اور خواتین کو تحفظ دینے والے قوانین کے باوجود جہیز، گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی جیسے مسائل آج بھی موجود ہیں۔ ذرایع کے مطابق 2023 ءمیں ہندوستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے بربریت کے 28811معاملات درج ہوئے جبکہ 2022 ء میں 30864معاملات درج ہوئے تھے ۔ جنسی زیادتی ایک ایسا تباہ کُن جرم ہے، جہاں مجرم کو سزا ملے نہ ملے لیکن متاثرہ کو زندگی بھر ذہنی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے۔ ذرایع کی مانیں تو بھارت میں عصمت دری ، خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں چوتھے نمبر پر ہے۔ National Crime Records Bureau کے اعداد و شمار کو مزید ٹٹولا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2021ءمیں ہندوستان میں 31677عصمت ریزی کے معاملات درج کئے گئے ۔ یا 2019 ءکے اعداد و شمار کے مطابق ہر ۱۶ منٹ میں عصمت دری کا ایک واقعہ پیش آتا ہے۔ملک کی تاریخ میں عصمت ریزی کے چند ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جنہوں نے پورے ملک کوشرمسار کر دیا۔ ۱۹۹۲ء کے اجمیر معاملے کی بات ہو، جس میں اسکول اور کالیج جانے والے سینکڑوں لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد سالہا سال بلیک میل کیا جاتا رہا۔ ۲۰۱۲ء میں دہلی میں ہونے والی اجتماعی عصمت دری کا ذکر کریں، جس میں ۲۳ سالہ طالبہ کو چلتی بس میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔جس میں متاثرہ کی حالت اتنی خراب ہوئی کہ بے حد کوششوں کے باوجود اس کی جان نہ بچائی جا سکی۔ یا اسی سے ملتا جلتا واقعہ جو ممبئی میں ۲۰۱۳ء میں پیش آیا ،جس میں ایک ۲۲ سالہ خاتون صحافی کو پانچ درندوں نے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ایک فردِ ہوشمند انگشت بدنداں ہونے پر مجبور ہوتا ہے۔ یا اسی طرح ریناگاٹھ ،ڈیلٹا میگوال، کٹھوعہ اور انائو جیسے حوادث کے زخم ہنوز تازہ ہیں ۔
یہ ملک کی تاریخ میں لگے یہ وہ دھبے ہیں، جنہیں مٹانا کافی مشکل ہے۔اب جہاں کوشش کی بھی جاتی ہے کہ متاثرین کو انصاف دلا کر اِن دھبوں کو مٹایا جائے تو اتنے میں کوئی اور من چلا اپنی من مانی و خود غرضی میں ملک کی ساکھ پر ایک اور کاری ضرب لگانے کی فراق میں نیچ حرکت کر ہی دیتا ہے۔
انائو ، کٹھوعہ اور دہلی جیسے معاملات کو ابھی بھولے بھی نہ تھے کہ چند روز قبل کرناٹک سے ایک سنسنی خیز خبر موصول ہوئی ۔ در اصل جنتا دل سیکولر کے سیاسی راہنما اور حسن لوک سبھا کانسچونسی کے JD(S) امیداوار پرجول رونہ (Prajwal Revanna) جو کہ سابقہ وزیرِ اعظمِ ہند (H.D. Deve Gowda) کے پوتے ہیں، اب تک کے غالباً سب سے بڑے سکینڈل میں اُس وقت پھنسے، جب اس کی کالی کرتوت کے لگ بھگ۲۹۰۰ویڈیوکلپ ، پین ڈرایئو کے ذریعے پبلک پارکوں اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں اچانک پائے گئے۔ جس کسی نے بھی پین ڈرائیو کے اندر موجود ویڈیڈیو دیکھے، وہ غم و غصے سے بھر گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے کرناٹک میں بات پھیل گئی اور سیاسی حلقوں میں غیر معمولی ہلچل شروع ہوئی۔آناً فاناً سپیشل انویسٹی گیسن ٹیم SIT تشکیل دی گئی ،جس کی جانچ میں کئی اہم چیزیں سامنے آئیں۔ پرجول کے علاوہ اس کے والد ایچ ڈی رونا بھی اس بہت بڑے سکینڈل میں ملوث پائے گئے۔ اس واقعے کے فوراًبعد پرجول رونہ جرمنی چلے گئے ،جس پر ملک بھرسے سوال اٹھنے لگے کی انویسٹی گیشن کے مکمل ہونے سے پہلے ملزم ملک چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے۔ تادم تحریر ملزم فرار ہے۔چنانچہ پرجول رونہ JD(S) ٹکٹ پر لوک سبھا چُناو لڑ رہے ہیں جو فی الحال NDA کے حمایتی ہیں، اس لئے یہ معاملہ سیاسی حلقوں میں آگ کی طرح پھیل گیا ۔ ملزم کے والد ایچ ڈی رونہ نے اپنے بیٹے کو معصوم اور سیاسی انتقام گیری کا شکار بھی جتایا۔ بلکہ اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ایک مضحکہ خیز بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیوز چار پانچ سال پُرانے ہیں۔
الزام لگایا جا رہا ہے کہ پرجول رونہ مجبور یوں کا فائدہ اُٹھا کر خواتین کو اپنی درندگی کا شکار بناتا تھا اور پھر اس کی ویڈیو بنا کر اپنے موبائل میں موجود رکھتا تھا تاکہ جب کبھی موقعہ ملے اس خاتون کو بلیک میل کیاجائے ۔ بے سر و سامان لوگوں کی مجبوریوں کا سودا کرنے والی ایسی ہی ۲۹۰۰ ویڈیو زاُس نے ابھی تک عکس بند کی تھیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ویڈیو مذکورہ مفرور ملزم کے سابقہ ڈرائیور کے ذریعے منظرِ عام پر آئے ہیں، جو ان کی آپسی رنجش کا نتیجہ ہے۔
بہر حال متاثرہ خواتین کو انصاف ملے گا یا نہیں، پرجول کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا یا نہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے ۔ لیکن اس حادثے نے ایک بار پھر،’’بیٹی بچائو ، بیٹی پڑھائو ‘‘ کے فلک شگاف نعروں کے بیچ میں سسکتی ہوئی اس بیٹی کی طرف اشارہ ضرور کیا ہے جو آج بھی عزت و جان کی امان چاہتی ہے۔ ملک کی بیٹی اپنی مجبوریوں اور انہی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے والوں کے بیچ آج بھی اکیلی ہے۔ اسے ا ب سڑک چھاپ من چلوں سے اِتنا ڈر نہیں لگتا ہوگا جتنا کہ وقت کے مسیحائوں سے لگتا ہوگا ۔حیرا ن کُن بات یہ ہے کہ بھارت میں پچھلے پانچ برس میں ۱۳۴ MLA اور MP کے خلاف جنسی زیادتی اور اغوا جیسے معاملت درج کئے جا چُکے ہیں۔یعنی قوم کی بیٹی کو ہوس کا شکار بنانے والا یا تو سڑک ، پانی ، بجلی کا وعدہ دے کر ووٹ مانگنے والا رہنما ہے یا پھر اس کی مشلات کا روحانی حل نکالنے کا وعدہ کرنے والا گرمیت رام رحیم، آسارام باپو اور نتھیانند جیسے گرو ہیں۔
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔