یو این آئی
نئی دہلی//چیئرمین جگدیپ دھنکڑ نے بدھ کو راجیہ سبھا میں کہا کہ امن و قانون ، خوشامد، جسے اکثر مفت سہولت کہا جاتا ہے، پر اس ایوان کو غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ خرچ کے لئے سرمایہ دستیاب ہونے پر ہی ملک ترقی کرتا ہے۔ دھنکڑنے ایوان میں ایوان میں وقفہ صفر کے دوران یہ تبصرہ اس وقت کیا، کیا جب سماج وادی پارٹی کے پروفیسر رام گوپال یادو نے ایم پی فنڈ کو بڑھا کر 20 کروڑ روپے سالانہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ پروفیسر یادو نے کہا کہ پہلے ایک ہینڈ پمپ لگانے پر 15 ہزار روپے کا خرچ آتا تھا لیکن اب یہ بڑھ کر 85 ہزار سے ایک لاکھ روپے ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم پی فنڈ سے مختلف کاموں کے لئے روزانہ سینکڑوں لوگ آتے ہیں لیکن لاگت میں اضافہ اور فنڈز کی کم دستیابی کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے جس کا براہ راست اثر لوک سبھا الیکشن پر پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے تقریبا ایک تہائی اراکین پارلیمنٹ الیکشن ہار جاتے ہیں۔اس فنڈ کے بارے میں حکومت کو تجاویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس فنڈ کو بڑھا کر 20 کروڑ روپے سالانہ کیا جانا چاہئے یا اسے ختم کر دیا جانا چاہئے۔ پروفیسر یادو کی کئی دوسرے اراکین نے بھی تائید کی ۔چیئرمین نے پھر کہا کہ انتخابی عمل ایسا ہے کہ یہ انتخابی فتنہ بن گیا ہے اور اس کے بعد جو حکومتیں اقتدار میں آتی ہیں وہ اپنے آپ کو بہت بے چین محسوس کرتی ہیں، اس قدر بے چین ہوتی ہیں کہ وہ اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک قومی پالیسی کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت کی تمام سرمایہ کاری کو کسی بھی شکل میں وسیع تر فائدے کے لیے منظم طریقے سے استعمال کیا جائے۔ دھنکڑ نے کہا’’ہمارے آئین میں مقننہ، ایم پیز، ایم ایل ایز کے لیے انتظام تھا، لیکن یکساں نظام نہیں تھا، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ کئی ریاستوں میں مقننہ اراکین اسمبلی کو اراکین پارلیمنٹ سے زیادہ الانس اور تنخواہیں دیتی ہیں اور یہاں تک کہ ایک سابق ممبر اسمبلی کے لیے پنشن بھی ایک سے 10 کے پیمانے پر مختلف ہوتی ہے۔ اگر ایک ریاست میں کسی کو 10 گنا زیادہ تنخواہ ملتی ہے، تو کسی کو 10 روپے ملتے ہیں‘‘۔چونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جہاں قانون سازی اس مسئلے سے نمٹ سکتی ہے اور اس سے سیاست دان کی مدد ہوگی، اس سے حکومت کی مدد ہوگی، اس سے ایگزیکٹو کی مدد ہوگی اور یہ سرمایہ کاری کے اعلی معیار کو بھی یقینی بنائے گی‘‘۔ دھنکڑنے کہا کہ اگر زراعت جیسے شعبوں میں سبسڈی کی ضرورت ہے تو اسے براہ راست دی جانی چاہئے، ترقی یافتہ ممالک میں یہی رواج ہے۔ انہوں نے کہا ’’میں نے امریکی نظام کو چیک کیا ہے۔ امریکہ کے پاس ملک میں کسانوں کی تعداد کا 1/5 واں حصہ ہے، لیکن ایک امریکی کسان خاندان کی اوسط آمدنی ایک امریکی خاندان کی اوسط آمدنی سے زیادہ ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی براہ راست، شفاف اور کسی مڈل مین کے بغیر ملتی ہے‘‘۔چیئرمین نے کہا ’’معزز ممبران، مجھے دستور ساز اسمبلی کی وہ بحث یاد ہے جہاں ایک معزز رکن مسٹر سدھوا ججوں کو ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ کے اختیارات پر غور کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا دوسرے عناصر کی جانچ کیے بغیر طاقت کو کم کرنا بہت اچھا ہے۔ لیکن میرا یقین کریں ججوں کی تعداد بڑھے گی، ہم ایک جج کو بھی ہٹا نہیں سکیں گے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ان کے تبصرے پر دونوں فریقوں کو غور کرنا چاہئے اور اس پر ایوان میں بحث ہونی چاہئے۔