بدلتے حالات اور بدلتے زمانے نے ہمارے لئے ڈھیر ساری آسانیاں اور مختلف کاموں میں سہولتیں پیدا کی ہیں، گزشتہ زمانے کے مقابلے ہم مختلف جہتوں سے چین و سکون اور آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے ، لیکن اس دنیا کی رنگینیوں اور چکا چوند نے ہمیں اپنی سابقہ روایات کی پاسداری، معاشرتی حسن و خوبی اور اسلامی تہذیب و تمدن سے یکسر غافل کر رکھا ہے اور ہم بھی اس ذلت آمیز اور فانی دنیا کو اپنی حقیقی اور دائمی دنیا سمجھ کر اس میں مدہوش سرگرداں ہیں۔ تقریبا ایک صدی قبل جب سے مغربی تہذیب نے ہمارے درمیان جگہ بنائی ،تب سے ہم اسلامی کلچر اور اپنے معاشرے میں اچھائی اور بھلائی کے کاموں سے کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس رنگین دنیا اور بدلتے زمانے میں جہاں ایک طرف بہت سے ایسے طور طریقے ہمارے درمیان رائج ہو چکے ہیں، جنھیں کبھی اسلام میں غلط اور ناگوار تصور کیا جاتا تھا لیکن آج ان پر کثرت سے عمل کیا جاتا ہے اور ایسا کرنے کو فخر سمجھا جاتا ہے، وہیں اس کے برعکس وہ کام جو معاشرے میں باہمی الفت و محبت اور بھلائی کا ذریعہ ہوتے تھے،انہیں معیوب سمجھا جا رہا ہے،حتی کہ معاشرے میں اگر کوئی ایسا کام کرنے کی جسارت بھی کرے، تو اُسے حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور اس پر طعنہ زنی بھی کی جاتی ہے ۔
دور حاضر میں معیوب سمجھے جانے والے کاموں میں ایک کام مطلقہ اور بیوہ سے نکاح کرنا ہے، اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار خواتین ہیں ، کم عمری ہی میں کسی وجہ سے ان کی طلاق واقع ہو جاتی ہے یا پھر ان کے شوہر انہیں داغ مفارقت دے کر دنیائے بقا کی جانب چلے جاتے ہیں اور اس خاتون پر بیوہ کا ٹائٹل لگ جاتا ہے ۔بلاشبہ ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار خواتین ہیں جو اس درد و اَلم میں آبدیدہ ہو کر زندگی گزار رہی ہیں، ایسے بہت کم سسرال والے ہیں جو بیٹے کے انتقال کے بعد بہو کی کفالت کا ذمہ لیں، ورنہ اکثر تو لڑکیوں کو ایسی حالت میں ان کے پیدائشی گھر چھوڑ جاتے ہیں۔ بےچارے غریب والدین جنہوں نے نہ جانے کتنی صعوبتیں برداشت کرکے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کئے تھے، لیکن قسمت نے اس بیٹی کو پھر اسی جگہ لاکر کھڑا کردیااور پاس پڑوس اور رشتہ داروں کی ستم گری یہ کہ اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے بجائے اپنی چھوٹی بڑی محفلوں بوڑھے والدین کو ان کی مصیبت زدہ لاچار بیٹی پر عار دلاتے ہیں اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتے ہیں۔
کسی وجہ سے کسی خاتون کی اگر کم عمری میں طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر انتقال کر جائے تو کیا ایسی لڑکیوں کو معاشرے میں جینے کا کوئی حق نہیں ؟ اس میں اس بےچاری خاتون کا کیا قصور ؟ ایک شریف زادی کے لیے طلاق یا کسی بیوہ کے لیے اس کی صعوبتیں اور زحمتیں ہی برداشت کرنا سر پر غموں کے پہاڑ ٹوٹنے سے کم نہیں ہے، دنیا میں اس کا ایک ایک منٹ ہزاروں سال کے برابر گزرتا ہے ،اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے اور وہ خاتون گھٹ گھٹ کر اپنے آنسوؤں کو پی کر زندگی گزارتی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی مایوس زندگی میں ایک نئی امید پیدا کی جائے، اس کی تاریک زندگی میں خوشیاں لائی جائیں، اس کے غموں پر تسکین اور محبت کی چادر اوڑھائی جائے اور کوئی فرد بھلائی اور مواسات کی نیت سے آگے بڑھے اور شرعی طریقے سے اس خاتون کا ہاتھ تھام کر اُسے نئی زندگی کی شروعات کا موقع فراہم کرے۔ مطلقہ اور بیوہ کی غمخواری اور از روئے احسان ان سے نکاح کرنا حضورِ پُر نور احمد مجتبٰی محمد مصطفی ؐ اور صحابہ کرام ؓسے بھی ثابت ہے۔
آج معاشرے میں مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کو معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن جب ہم حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کی طرف غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں یہ سب معیوب ہونا تو بہت دور بلکہ باعث اجر و ثواب سمجھا جاتا تھا اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسی عورتوں سے نکاح فرما کر قیامت تک کے لیے ان خواتین کے مقام و مرتبے کو بلند فرما دیا اور ان خوش بخت خواتین کو اُمہات المومنین سلام اللہ علیہن کے مقدس لقب سے سرفراز فرمایا ۔اور دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرکے ان کی زندگیاں آباد کرنا معیوب نہیں بلکہ باعث اجروثواب ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں گیارہ عورتوں سے نکاح فرمایا، جن میں صرف ایک خاتون کنواری اور بقیہ سب مطلقہ یا بیوہ تھیں، جن کا ذکر حدیث کی بے شمار کتابوں میں مذکور ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓفرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرمایا اور میرے علاوہ کسی کنواری سے نکاح نہیں فرمایا۔ ( اخرجه الطبراني (٢٣/٣٠)حضرت خدیجہؓ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے قبل دو شادیاں ہوچکی تھی ، پہلا نکاح عتیق بن عابد سے ہوا اور اُن کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح ابو هالة التميمي سے ہوا اور ان دونوں کے ذریعے حضرت خدیجہ کے بطن سے اولاد بھی ہوئیں، ان کے وصال کے بعد نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت خدیجہؓ سے نکاح فرمایا ،اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال اور حضرت محمد مصطفیٰ ؐکی عمر شریف پچیس سال تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے علاوہ تمام ازواج مطہراتؓ مطلقہ یا بیوہ تھیں ، اور حضورﷺ نے از روئے احسان اور لطف و مہربانی کے طور پر ان سے نکاح فرمایا، بلاشبہ حضورؐ کے اس عمل میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہوسکتی ہیں،اس میں کوئی شک نہیں ،لیکن سب سے واضح اور آشکار پہلو جو سمجھ میں آرہا ہے وہ یہ کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس عمل سے اپنی اُمت کو ایک درس دینا چاہتے تھے کہ اگر کسی خاتون کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے اور وہ مطلقہ یا بیوہ ہو جائے تو اُسے منحوس سمجھ کر اس سے احتراز نہ کیا جائے، ان کو اسی حال پر چھوڑ دینے کے لیے اسلام ہرگز نہیں کہتا بلکہ اسلام تو اخلاق و مروت کا درس دیتا ہے، اسلام تو ہمیشہ پریشان حال کی غمخواری اور بےسہاروں کے لیے سہارا بننے کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا ایسے وقت میں اسلام اور انسانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ اُس مجبور خاتون سے نکاح کیا جائے یا مناسب رشتہ دیکھ کر اس کا نکاح کرایا جائے۔
کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں سے نکاح فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل گویا ہمارے لیے سنت بن چکا ہے اور ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ حضورؐ کی ہرسُنت کو اپنے لیے باعثِ اجر و ثواب سمجھ کر جہاں تک ہوسکے، اُس پر عمل پیرا ہو اور دنیا اور آخرت کے نعمتوں سے بہرہ وَر ہو۔
اگر معاشرتی زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مطلقہ یا بیوہ خواتین سے پُرامن اور پاک و صاف معاشرے میں کافی برائیاں پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے، جن کو اللہ حیا کی توفیق دے اور پاکدامنی عطا فرمائے، وہ بُرائیوں سے بچ جاتی ہیں، کیونکہ ایک نئی عمر کی خاتون طلاق شدہ یا بیوہ جو چند دنوں یا سالوں قبل اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں، اب وہ تن تنہا ہے اور اللہ کا قرآن کہتا ہے کہ’’بے شک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہوا ہے‘‘ (سورہ یوسف 12،آیت 5)
تو کیا بعید ہے کہ شیطان اس خاتون کو اپنے مکر و فریب میں پھنسا کر اُسے گناہ کی طرف آمادہ کر دے، تو یہ بُرائی پورے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لے کر جا سکتی ہے ۔ اہلِ خرد اس حوالے سے بخوبی واقف بھی ہوں گے۔یا ممکن ہے کہ کوئی شہوت کا بھوکا اس بیچاری لاچار خاتون کو مال و دولت کا لالچ دے کر اس کی غریبی اور بے بسی کا فائدہ اٹھائے اور نا جائز طور پر اس کا جنسی استحصال کر دے، جس سے معاشرے میں فساد پیدا ہوگا اور رفتہ رفتہ معاشرے کی رحمت و برکت کے زوال کا سبب ہوگا ۔
لہٰذا ہمارے اور پورے معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے سوچیں ، غور و فکر کریں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی حصولیابی اور سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کی نیت سے کسی بے سہارا خاتون کا سہارا بن کر اس کے لیے دو وقت کی روٹی اور جسم ڈھکنے کے لیے کپڑے کا اہتمام و انصرام کریں۔کیونکہ جب اس کے دل سے دعائیں نکلیں گی تو اللہ عزوجل قادر مطلق ہے، وہ اس کی ہر سانسوں کے بدلے آپ کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھ دے گا۔
( ریسرچ اسکالر، البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ۔)