یہ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے؟ وہ ذہن میں بھی سبقت لے جا کر دکھائیں اور اخلاق میں بھی فوقیت حاصل کر کے دکھائیں اس کے بغیر مسلمان ہونا ایک غیر ذمہ داری کے ساتھ اسلام کو مان لینے کا عمل تو ہو سکتا ہے لیکن اسلام قبول کیے جاتے ہی جو ذمہ داری کا شعور فطری طور پر دے دیتا ہے ہمیں اس کے لیے کسی کاوش اور استدلال کی ضرورت نہیں، اس ذمہ داری سے روگردانی ہے یا جو ہماری نوبت آ چکی ہے کہ ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے مغرب کے Episteme کو اختیار کرنے کے پابند ہو چکے ہیں، اس صورتحال کو سمجھو کہ آج تمہارے کسی بھی نظریے، دنیا کے بارے میں علم اور تصور کے بننے کا ساراعمل جو ہے وہ مغرب کے مادہ علم سے عمل میں آتا ہے، تشکیل پاتا ہے، تو یہ کتنی بڑی نالائقی ہے میری کتنی بڑی نا اہلی ہے، میری کتنی بڑی غفلت ہے کہ انسانی وجود اور شعور دونوں کو سیراب کرنے والا پانی مغرب کے چشمہ زہراب سے آتا ہے یعنی مغرب کا جو زہراب کا چشمہ ہے اس سے تم اپنے شعور کے درختوں اور پودوں کو پانی دے رہے ہو اور اگر اس سے نہ نکلے اور اس سے نکلنے کی بہت منظم کوششیں نہ کی تو پھر شناختی کارڈ والے اسلام کے علاوہ کوئی مسلمانی باقی نہیں رہے گی۔
مثال کے طور پر فلسفے کو لے لیں، سماجی علوم میں کلاسیکل hierarchy کے مطابق، روایتی نظام مراتب کے مطابق سماجی علوم میں سب سے بڑی حیثیت فلسفے کی تھی، جو اب نہیں رہی، لیکن بہرحال سماجی علوم بلااستثناء فلسفے کی ذیلی شاخیں ہیں اور فطری علوم بھی، یعنی یہ طبیعات وغیرہ بھی پہلے فلسفے کے شعبے تھے۔ اگر ارسطو کو آپ پڑھیں تو اس میں سائنسی علوم بھی فلسفے کے شعبے تھے، نفسیاتی علوم بھی فلسفے کے شعبے تھے، تو فلسفہ کائنات کی ایک مشترک حقیقت ہے، اس کائنات کی حقیقت واحدہ یقینا ہے، لیکن اس حقیقت واحدہ کا تجربی شعور ہمیں حاصل نہیں ہے، اس حقیقت واحدہ پر عقلی دلائل وضع کیے جاسکتے ہیں، لیکن اس کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا، تو فلسفے کا اصل موضوع یہ تھا کہ اس حقیقت واحدہ کے اثبات کے لیے قائل کر دینے والے دلائل ایجاد کرے اور ان دلائل میں اتنی شدت پیدا کرے کہ اس حقیقت واحدہ کے تجربی مشاہدے کی خواہش غائب ہو جائے،یہ فلسفے کا اصل مقصد تھا، تو وہاں بھی اگر آپ دیکھیں یعنی کلاسیکل فلسفے کو اور سقراط وغیرہ سے پہلے کے فلسفے کو، ہندوستان کے فلسفے کو، اس میں آپ کو صاف نظر آئے گا فلسفہ وحی کے نہ ہونے کے ماحول میں دین جیسا ہمہ گیر، ہمہ جہت ڈسکورس بننا چاہتا ہے۔ یعنی فلسفے کا مطلب ہے یونان کا فلسفہ، یونان کی تہذیب وحی سے جیسے خالی تھی، جب فلسفہ پیدا ہوا فلسفہ گویا شعور کی ایمانی خواہشات کو عقل کی کمک لے کر پوری کرنے کا نام تھا۔ اس کے بعد اس کلاسیکل فلسفے پر ضرب لگائی ڈیکارٹ نے، اس نے مابعد الطبعیات اور مادے کو ایک دوسرے سے منقطع کر کے ان دونوں کے لیے درکار دلائل کو ایک دوسرے پر غیر مؤثر کر کے شعور کے دو حصے کر کے، کہ خدا کو خدا کی طرح مانو چیزوں کو خدا کے حوالے سے ماننا چھوڑ دو، نہ چیزوں میں خدا کو دیکھو نہ خدا سے چیزوں کو جوڑ کے دیکھو، یہ ہے اس کے فلسفے کا بہر حال خلاصہ۔ تو فلسفہ ایک کل تھا، جس میں اندر سے ڈیکارٹ نے دھماکا کر دیا۔ اندر دھماکا ہونے کے بعد اس کل کے تمام اجزا اس سے منحرف ہوتے چلے گئے۔ یہ ہے جدید دنیا، جدید سماجی علوم، جو فلسفے کے کل میں ڈیکارٹ اور ہیوم کی طرف سے کیے گئے دھماکوں کے نتیجے میں اس کے منحرف اجزا کی حیثیت سے اپنی الگ الگ حیثیتیں بنانے میں اور منوانے میں کامیاب رہے۔
اب جو صورتحال ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت کسی حقیقت واحدہ کائنات کی کوئی بھی جستجو کسی بھی علم کا موضوع نہیں ہے۔ موجودہ جو صورتحال ہے اس میں حقیقت اور صورت کے اصطلاحوں سے پیدا ہونے والے ذہن کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس میں میٹافزیکل حقائق کو مان لینے، مان سکنے کی کوئی گنجائش، کوئی اجازت نہیں ہے۔ اس میں جو کچھ ہے، وہ فزیکل ہے، یہ بات میری دانست میں ایسی ہے جو ممکن ہے کہ کتابوں میں پڑھنے میں دیر لگے، تو اس کو میں تھوڑا سا اور واضح کر دوں کہ ہماری تشخیص یہ ہے کہ ذہن کو مابعد الطبعیات یا ہم اپنی اصطلاح میں کہیں تو ایمانی تناظر سے عاری کرنے کے بعد، کیونکہ ذہن کی میٹا فیزیکل امنگوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا، تو اس کے اس شور سے اس آواز سے بچنے کے لیے جہاں ذہن ما بعدالطبیعی حقائق کو طلب کرتا ہے، انہوں نے نفسیات اور تھیوری آف پرسیپشن کا سہارا لیا۔
اب آپ ان کا دجل دیکھیے کہ شعور جو ہے، وہ خدا کے حضور میں رہے بغیر چیزوں کو اپنے علم کا حصہ بنا ہی نہیں سکتا۔ یہ ذہن کی فطرت ہے کہ اگر خالق کائنات کا حضور اگر پہلے سے اسے میسر نہ ہو تو وہ کائنات کے بارے میں کسی بھی علم کی صحیح یا غلط تعبیر یا تشکیل نہیں کر سکتا۔تو انہوں نے ذہن کو اس کی فطرت سے ہٹانے کی کاوش کی ہے۔ اس کاوش کو اب نئے ذہن کی تعمیر میں صرف کرنے اور ذہن کو اس کی فطرت اصلی سے ہٹانے کے لیے جہاں وہ کہتا ہے، خدا کہاں ہے، جس کی مدد سے میں چیزیں ڈیفائن کرو ں،‘خالق کائنات کہاں ہے، جس کی مدد سے میں کائنات کے میکینکس کو سمجھوں وہ ہدایت کہاں ہے جو مجھے اس نظامِ فطرت سمجھنے، حقیقت جاننے کو ممکن بناتی ہے، تو اس کے لیے انہوں نے علم نفسیات میں نظریاتی جہتیں پیدا کی ہیں، وہ جو بات میں کہہ رہا ہوں میرے خیال میں اس بات پر ہمیں غور کر کے اور اس سے مطابقت رکھنے والے مواقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شعور کے تمام مابعد الطبیعی تقاضوں کو اس کی لاشعوری سرگرمیاں قرار دے دیا، یعنی نفسیات کسے کہتے ہیں، جدید نفسیات کی کیا تعریف ہے، جدید نفسیات نام ہے انسٹنکٹ instinct اور شعور میں تعلق کی قسمیں اور ان کی تاثیرات دریافت کرنے کا، کہ کچھ محرکات ہیں جن سے میری طبیعت پسند نا پسند کا مزاج تشکیل پاتا ہے، کچھ جبلتیں ہیں جو میرے وجود کے حیوانی عنصر کے قیام کے لیے ضروری ہیں، ان جبلتوں کا میرے شعور کی بلند سطح یعنی میرے ذہن اور شعور سے عملی اور فنکشنل ایفیکٹیو تعلق کیا ہے، اس کے جواب کو نفسیات کہتے ہیں۔
انہوں نے یہ کیا، کہ جتنا شعور میں گونج تھی، خدا ہے، خدا ہے، مالک ہے، خالق ہے، معبود ہے، اس گونج سے ذہن کے کان کو بہرا کرنے کے لیے انہوں نے ذہن کو محدود کر دیا اور شعور کو اس کی فطری ساخت میں لاشعور قرار دے دیا۔ لاشعور کا مطلب یہ ہے، کہ جس کے contents کی مدد سے آپ کسی علم کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ جس کے contents آپ کے تخیل کی تشکیل میں تو استعمال ہو سکتے ہیں، لیکن لاشعور میں موجود چیزوں کو جوڑ کر آپ کوئی حقیقی علم اور واقعی دانش تخلیق نہیں کر سکتے۔ (یہ) علم کہلانا کوالیفائی نہیں کرتا۔ تو اب آپ اس دھوکے کو دیکھیے اور اس کے مقابلے میں اپنی ذمہ داریوں کو دیکھیے، کہ انہوں نے شعور کی خدا طلبی، شعور کی آخرت خوئی، شعور کے اندر فطرت میں رکھا ہوا ملکہ، خداشناسی اس طرح انسانی ذہن سے لاتعلق کر دینے میں کامیابی حاصل کی، اپنی تہذیب میں تو انہوں نے پوری کامیابی حاصل کی۔
شعور کا جو ایمانی ڈیٹا ہے، اس کے تخیل کا حصہ ہے، اس کے خوابوں کا حصہ ہے، اسے اس کی بیداری سے کوئی تعلق نہیں۔ لاشعور کا مطلب ہے سویا ہوا شعور، جو خواب دیکھ رہا ہے۔ تو سوئے ہوئے شعور کے خوابوں کو بیداری سے غیر متعلق کرنے کی انہوں نے ایسی کوشش کی، جس کی بنیاد پر ان کی موجودہ تہذیب اور موجودہ ذہن کا پورا ڈھانچا کھڑا ہوا ہے، اب وہ اس پورے مزاج کو، اس پوری perception کو، اس پوری مصنوعی حالت کو مسلط کر رہے ہیں، اپنے علوم کے ذریعے، اپنے مختلف نظاموں کے ذریعے سے، اپنی طاقت کے ذریعے سے، اپنے آپ کو ہراعتبار سے ناگزیر اور پرکشش بنا لینے کے ذریعے سے، (وہ) ہمیں اس طرف کھینچ رہے ہیں کہ ہم بھی اپنے ایمانی شعور کو لاشعور کے قبضے میں دے کر اس کی امنگوں سے اس کے مسلمات سے، اس کے معتقدات سے فارغ، بے نیاز اور غافل ہو جائیں۔یہ صر ف ایک نفسیات کا معاملہ نہیں ہے، لسانیات (بھی اس لیے استعمال ہو رہی ہے) جو اس وقت فلسفے کی آخری پناہ گاہ ہے۔ فلسفے کو طبیعات وغیرہ نے دیس نکالا دے دیا، اب مغرب میں فلسفہ کی آخری پناہ گاہ لسانیات ہی ہے۔ لسانیاتی فلسفہ باقی رہ گیا، باقی فلسفی اُچکوں کی طرح کام کر رہے ہیں، کچھ اِدھر سے، کچھ اُدھر سے لے کر وہ اپنا کام چلا رہے ہیں۔ فلسفہ مغرب میں بھی عالم نزع میں ہے۔لسانیات میں آپ دیکھیں، انسانی ذہن اور اس کے نظریے کا تعلق بالکل اسی انداز کا ہوتا ہے، جس انداز کا تعلق لفظ اور اس کے معانی میں ہوتا ہے۔ انسانی ذہن اپنے نظریے اور مسلمے اور عقیدے کو اسی طرح محفوظ رکھتا ہے، جس طرح محفوظ کرنے کی عادت لفظ کی ہے، یعنی لفظ جس طرح معانی کو اپنے اندر رکھتا ہے، انسانی ذہن ایسے ہی اپنے حقائق کو contain کرتا ہے۔ اگر لفظ میں معانی کا وجود مشتبہ قرار دے دیا جائے، اگر لفظ اور معانی کے سارے تعلق کو فرضی اور خیالی مان لیا جائے، تو اس کے نتیجے میں لامحالہ یہ ماننا ناگزیر ہو جاتا ہے کہ ذہن اور اس کے عقیدے کا تعلق بھی فرضی ہے، اضافی ہے۔ اگر آپ لفظ میں موجود معانی کو یہ کہہ رہے ہیں، کہ یہ لفظ کے ساتھ نسبت رکھنے میں مفروضے کی طرح ہے، یعنی معانی لفظ کے لیے ایک مفروضہ ہے، گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ ذہن کے لیے اس کا ایمان، اس کا عقیدہ ایک مفروضہ ہے۔آج کل ادب اور فلسفہ کے قارئین deconstruction کی تھیوری سے ضرور واقف ہوں گے۔ ایک فلسفی گزرا ہے حال ہی میں، دریدا، اس نے یہ نظریہ پیش کیا ہے۔ اس نظریے کا ایک حصہ ہے suspension of meaning، یعنی معنی کا تعطل، وہ یہ کہتا ہے کہ ہم جو چیز بھی لفظ یا کسی بھی indicator سے اخذ کرتے ہیں، وہ معانی نہیں ہوتے، بلکہ معانی کی طرف اشارہ کرنے والی کچھ قابلِ ادراک چیزیں ہوتی ہیں، وہ معانی کی فرضی صورتیں ہوتی ہیں، معانی ہمیشہ معطل رہتا ہے، معانی نہ کبھی لفظ کی تحویل میں آتا ہے نہ کبھی ذہن کے قبضے میں آتا ہے۔ اب آپ یہ سوچیے کہ یہ کتنی گہری ضرب ہے اس ذہن پہ، جو یہ کہتا ہے کہ میرے لیے میرے معانی حقیقی اور یقینی ہیں اور جو یہ جانتا ہے، کہ لفظ جن معانی کو بیان کر رہا ہے، وہ مفروضے نہیں، حقائق ہیں۔اس کے علاوہ بھی آپ معاشیات میں چلے جائیں، اخلاقیات میں، جس میں بھی چلے جائیں۔ آپ کسی بھی پہلو سے کسی بھی سماجی علوم کو دیکھ لیں، آپ کو واضح لگے گا کہ ان لوگوں نے ایک منصوبے کے طور پہ دینی ذہن کو شعور کی اقلیم سے خارج کر دینا ٹھان رکھا ہے، تو ایسی نامساعد، ناموافق اور ناسازگار علمی صورتحال میں ہم سب کا یہ اجتماعی فریضہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کو اپنے شعور کا منبع اور مرجع بنا کر دکھائیں، ہم اپنے ایمان کو اپنے علوم کا ماخذ اور علوم کا مقصود بنا کر دکھائیں۔ ہم اپنے تصور علم کو اس طرح عمل میں لا کر دکھائیں، جس میں غلطی سے ڈرنے کی ضرورت نہ ہو، کیوں نہ ہو، کیوں کہ اس کی مقصود صحت مجھے حاصل ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا، کہ ہر چیز خدا کی نشانی ہے، یہاں ہر شے کا علم اس کی حقیقت سمیت مکمل ہو گیا، اب اس کی صورت کے تجزیے میں دو آدمی مختلف ہو سکتے ہیں، دونوں صحیح یا دونوں غلط ہو سکتے ہیں، وہ ثانوی بات ہے۔ تو سب سے پہلے ہمیں ایمان کا ام العلوم ہونا ثابت کرنا ہے اور اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم چیزوں کو اس تعریف‘ہر چیز خدا کی نشانی ہے کے سائے میں رکھ کر لائقِ علم بنائیں کہ یہ سب اللہ کی متعدد مختلف نشانیاں ہیں۔تعلیم کا مطلب ہے کہ ذہن اور اخلاق میں فرق نہ رہے، جو علم اچھا آدمی نہ بنائے وہ علم نہیں اور جو علم ذہن کو حالت تسکین میں نہ رکھے، وہ بھی علم نہیں۔ تو طبیعت خیر کی بنیاد پہ تسکین میں رہے، ذہن حق کے اثر پر تسکین میں رہے، بس یہی علم ہے، جسے یہ دونوں حالتیں فراہم ہو جائیں، وہی علم ہے۔ تویہاں کا تعلیمی نظام، تعلیمی مقاصد، قابل رشک ہیں۔ یہاں کی پروڈکٹس قابل رشک ہیں۔ میری گزارش ہے کہ آپ حضرات (شعبہ تعلیم کے منتظمین، مربی حضرات، سسٹمز کے مالکان) مہربانی فرما کر اپنے نصاب تعلیم میں، اپنے تدریسی عمل میں اس چیز کو بھی شامل کر لیں کہ ایمان کو تمام علوم کا مبداء واحد کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ایمانی شعور کو شعورکے دیگر تمام شعبوں کا مربی اور سرپرست کیسے بنایا جا سکتا ہے۔شعور کے کئی شعبے ہیں۔ مذہبی شعور ہے، اخلاقی شعور ہے، جمالیاتی شعور ہے، عقلی شعور ہے۔ اس میں ہم سب پہ لازم ہے، کہ ہم اپنے ایمانی شعور کو جمالیاتی شعور کا بھی مربی بنائیں، عقلی شعور کا بھی رہبر بنائیں، اخلاقی شعور کا بھی کفیل بنائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے اور اپنے ہر تعلیمی عمل میں اس ذمہ داری کو مقصود کے طور پہ پیش نظر رکھنا چاہیے، کہ میرا جمالیاتی شعور بھی اللہ کے حضور سے سیراب ہو، میرا عقلی شعور بھی اللہ کے حضوری میں رہنے سے مانوس ہو، یہ ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے۔جیسا کہ سقراط نے کہا تھا کہ علم کے نتائج اگر اخلاقی نہیں نکلتے، تو وہ علم نہیں ہے۔ یہ بات سقراط سے کہیں زیادہ تیقن اور تحکم سے ہم کہہ سکتے ہیں، ہمیں کہنے کا حق ہے کہ علم کے نتائج اگر اخلاقی نہیں ہیں تو وہ دینی علم نہیں ہے، کیونکہ دینی علم اللہ کے خوف سے شروع ہوتا ہے، اللہ کے خوف پہ تمام ہوتا ہے۔ اس کی محبت کو سمیٹ کر، اس کی معرفت کو سمو کر۔ بس اللہ ہم سب کو اس لائق بنائے کہ اگر ہم نے اپنی ذمہ داری کا صحیح احساس کیا ہے، تو ہم اسے مؤثر انداز میں عمل میں لانے کے لائق بنائے۔ (ختم شد)
(بحوالہ: ’’دانش ڈاٹ پی کے‘‘۔۱۶؍فروری ۲۰۱۹ء)
((((())))))))