مولانا قاری اسحاق گورا
قومی شناخت اور مذہب کے درمیان تعلق ایک پیچیدہ، تاریخی اور متنازعہ موضوع ہے۔ دنیا میں بعض ممالک اپنی شناخت کو کسی مخصوص مذہب سے جوڑتے ہیں، جبکہ دیگر ممالک سیکولر اقدار کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کی نئی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ممالک میں عوام قومی شناخت کے تعین میں مذہب کے کردار کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ تحقیق جنوری سے مئی 2024 کے دوران کی گئی، جس میں ایشیا پیسیفک، یورپ، لاطینی امریکہ، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، شمالی امریکہ اور سب صحارا افریقہ کے تقریباً 55,000 افراد سے سوالات کئےگئے۔ اس سروے کا بنیادی مقصد یہ جاننا تھا کہ لوگ قومی شناخت کے لیے مذہب کو کس حد تک اہم سمجھتے ہیں، وہ پالیسی سازی میں مذہب کے اثر و رسوخ کو کیسے دیکھتے ہیں، اور’’مذہبی قوم پرستی‘‘ کے رجحانات کہاں زیادہ اور کہاں کم ہیں۔
قومی شناخت اور مذہب کا تعلق کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ یہ انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی موجود ہے۔ قدیم مصر، بین النہرین (میسوپوٹامیا)، یونان اور ہندوستان میں مذہب اور ریاست کا گہرا تعلق تھا۔ فرعون کو خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا جبکہ ہندوستان میں مذہب کا ریاستی امور میں نمایاں کردار رہا۔ یورپ میں کیتھولک چرچ صدیوں تک طاقت کا مرکز رہا اور اکثر بادشاہوں کی حکمرانی کو مذہبی جواز دیا جاتا تھا۔ 17ویں اور 18ویں صدی میں یورپ میں سیکولر ازم کی تحریک اٹھی، جس کے بعد کچھ ممالک میں مذہب اور ریاست کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی، جیسے کہ فرانس اور امریکہ۔
یہ سوال کہ آیا کسی ملک کی قومی شناخت کسی مخصوص مذہب کی بنیاد پر قائم کی جا سکتی ہے، کئی تاریخی اور سیاسی عوامل سے جڑا ہوا ہے۔ بعض ممالک نے اپنی شناخت کو سرکاری طور پر مذہب کے ساتھ جوڑ رکھا ہے، جیسے کہ سعودی عرب اور ایران میں اسلام بطور ریاستی مذہب تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کے قوانین شریعت پر مبنی ہیں۔ ویٹی کن سٹی کی قومی شناخت مکمل طور پر کیتھولک عیسائیت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، جہاں مذہب قومی شناخت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کچھ ممالک نے اپنی قومی شناخت کو مذہب سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے، جیسے کہ فرانس میں 1905 کے قانون کے تحت چرچ اور ریاست کو علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ ترکی میں 20ویں صدی میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے ترکی کو ایک سیکولر ریاست بنایا۔ چین ایک کمیونسٹ ملک ہونے کے ناطےسرکاری طور پر مذہب کو حکومتی پالیسی سے الگ رکھتا ہے۔ بعض ممالک سرکاری طور پر سیکولر ہیں، لیکن ان کی قومی شناخت میں مذہب کا گہرا اثر موجود ہے۔ بھارت آئینی طور پر سیکولر ہونے کے باوجود مذہب بھارت کی سیاست اور عوامی شناخت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہونے کے باوجود جمہوری اصولوں پر قائم ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق درمیانی آمدنی والے ممالک میں مذہب کو قومی شناخت کا ایک لازمی عنصر سمجھا جاتا ہے۔ بھارت میں 73فیصدہندوؤں نے کہا کہ’’صحیح معنوں میں ہندوستانی‘‘ ہونے کے لیے ہندو ہونا ضروری ہے۔ 12فیصدبھارتی مسلمانوں نے مذہب کو قومی شناخت کا لازمی حصہ سمجھا۔ 57فیصدہندوؤں نے کہا کہ ملکی قوانین کو مذہبی تعلیمات پر مبنی ہونا چاہیے، جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح 26فیصد تھی۔ بنگلہ دیش میں 94فیصدلوگوں کا کہنا تھا کہ مذہب معاشرے کے لیے فائدہ مند ہے۔ انڈونیشیا، فلپائن اور تیونس میں تین چوتھائی سے زیادہ عوام نے مذہب کو قومی شناخت کے لیے اہم قرار دیا۔
زیادہ آمدنی والے ممالک میں مذہب کی کم اہمیت دیکھی گئی۔ سویڈن میں 42فیصدافراد نے مذہب کو قومی شناخت کے لیے اہم سمجھا، اور سویڈن کی نصف سے بھی کم آبادی مذہبی ہے۔ جرمنی، فرانس اور جاپان میں زیادہ تر عوام مذہب کو قومی شناخت سے جوڑنے کے خلاف تھے۔ اسرائیل میں کم از کم 33فیصدعوام یہودیت کو قومی شناخت کے لیے اہم مانتے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر نے’’مذہبی قوم پرستی‘‘ کی اصطلاح کا تجزیہ کیا اور اس کے لیے درج ذیل چار نکات کو بنیاد بنایا۔ قومی شناخت کے لیے کسی بڑے مذہب سے تعلق کتنا ضروری ہے؟ قومی رہنماؤں کے لیے اپنے مذہبی عقائد کا اشتراک کرنا کتنا ضروری ہے؟ کسی بڑے مذہب کی مقدس کتابوں یا تعلیمات کو قومی قوانین پر کس حد تک اثر انداز ہونا چاہیے؟ اگر مذہبی تعلیمات عوامی رائے سے متصادم ہوں تو قوانین بنانے میں کس چیز کو ترجیح دی جائے؟
مذہبی قوم پرستی کے مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہیں کہ مذہب قومی اتحاد کا باعث بن سکتا ہے اور مذہبی تعلیمات اخلاقی اصولوں کو فروغ دیتی ہیں۔ منفی پہلو یہ ہیں کہ اقلیتوں کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور مذہبی قوم پرستی سے انتہا پسندی بڑھ سکتی ہے۔
کیا دنیا میں مذہب کا قومی شناخت پر اثر بڑھے گا؟ ترقی پذیر ممالک میں مذہب کا کردار برقرار رہے گا، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں مذہب کا اثر کم ہونے کا امکان ہے۔ کچھ ممالک مزید سیکولر ہونے کی طرف بڑھیں گے، جیسے کہ فرانس اور جرمنی۔ دیگر ممالک میں مذہب اور قومی شناخت کا تعلق مزید مضبوط ہو سکتا ہے، جیسے بھارت اور اسرائیل۔ نوجوان زیادہ لبرل خیالات کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور تعلیم کا اثر مذہب کی قومی شناخت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
دنیا میں قومی شناخت کے تعین میں مذہب کا کردار ایک پیچیدہ اور متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں مذہب اور قومی شناخت کے تعلق کو مختلف نظریات اور تاریخی تجربات کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ کچھ ممالک میں مذہب قومی شناخت کا ایک لازمی عنصر سمجھا جاتا ہے، جبکہ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں مذہب کا کردار کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس تحقیق نے اس بات کو واضح کیا کہ درمیانی آمدنی والے ممالک میں مذہب قومی شناخت کا ایک اہم جزو ہے، جبکہ زیادہ آمدنی والے ممالک میں اس کا اثر نسبتاً کم ہے۔
مذہب اور قومی شناخت کے تعلق کو سمجھنے کے لیے تاریخی پس منظر اور مختلف معاشرتی و سیاسی عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ قدیم تہذیبوں میں مذہب اور ریاست کے درمیان کوئی واضح حد بندی نہیں تھی۔ مذہبی عقائد اور رسوم حکومتی پالیسیوں کا لازمی حصہ تھے۔ یورپ میں قرون وسطیٰ کے دوران مذہب ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا اور بادشاہوں کی حکمرانی کو چرچ کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔ تاہم، جدید دور میں، خاص طور پر سیکولر ازم کے فروغ کے بعد، کچھ ممالک نے مذہب کو ریاستی معاملات سے علیحدہ کر دیا۔
اس کے باوجودکئی ممالک میں مذہب اب بھی قومی شناخت کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب، ایران اور پاکستان جیسے ممالک نے اپنی ریاستی شناخت کو براہ راست مذہب سے منسلک کیا ہے۔ ان ممالک میں قومی قوانین اور پالیسیوں پر مذہب کا واضح اثر ہے۔ دوسری طرف فرانس، ترکی اور چین جیسے ممالک نے مذہب کو ریاستی امور سے الگ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ ان ممالک میں مذہب ایک ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے اور قومی شناخت پر اس کا اثر کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق درمیانی آمدنی والے ممالک میں عوام کی ایک بڑی تعداد مذہب کو قومی شناخت کے لیے اہم سمجھتی ہے۔ بھارت، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور تیونس جیسے ممالک میں مذہب کو نہ صرف ایک ذاتی عقیدہ بلکہ قومی تشخص کا ایک بنیادی عنصر سمجھا جاتا ہے۔ بھارت میں خاص طور پر ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے باعث مذہب اور قومی شناخت کے درمیان تعلق مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ بھارت میں 73فیصد ہندوؤں کا ماننا ہے کہ’’صحیح معنوں میں ہندوستانی‘‘ ہونے کے لیے ہندو ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا میں، جہاں اسلامی عقائد کو قومی شناخت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، عوام کی اکثریت کا ماننا ہے کہ مذہب ایک اہم سماجی عنصر ہے۔
دوسری طرف زیادہ آمدنی والے ممالک جیسے کہ سویڈن، فرانس اور جرمنی میں عوام کی اکثریت مذہب کو قومی شناخت سے جوڑنے کے حق میں نہیں ہے۔ سویڈن میں صرف 42فیصد افراد نے مذہب کو قومی شناخت کے لیے اہم قرار دیا، جبکہ فرانس اور جرمنی میں یہ تعداد اور بھی کم ہے۔ ان ممالک میں سیکولر ازم کی مضبوط جڑیں ہیں اور عوام مذہب کو زیادہ تر ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر نے ’’مذہبی قوم پرستی‘‘ کے تصور کا بھی تجزیہ کیا اور اسے ایک ایسا نظریہ قرار دیا جس میں قومی شناخت کے لیے کسی بڑے مذہب سے تعلق کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس تحقیق میں چار بنیادی نکات کو مدنظر رکھا گیا:(۱) قومی شناخت کے لیے کسی بڑے مذہب سے تعلق کتنا ضروری ہے؟(۲) قومی رہنماؤں کے لیے اپنے مذہبی عقائد کا اشتراک کرنا کتنا ضروری ہے؟(۳) کسی بڑے مذہب کی مقدس کتابوں یا تعلیمات کو قومی قوانین پر کس حد تک اثر انداز ہونا چاہیے؟(۴) اگر مذہبی تعلیمات عوامی رائے سے متصادم ہوں تو قوانین بنانے میں کس چیز کو ترجیح دی جائے؟
ان نکات کے ذریعےپیو ریسرچ سینٹر نے اس بات کا تعین کیا کہ کن ممالک میں مذہبی قوم پرستی کا رجحان زیادہ ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور تیونس جیسے ممالک میں مذہبی قوم پرستی کی سطح زیادہ دیکھی گئی، جبکہ سویڈن، فرانس، جرمنی اور جاپان میں یہ رجحان کمزور تھا۔
مذہبی قوم پرستی کے کئی مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ مثبت پہلوؤں میں یہ شامل ہے کہ مذہب قومی اتحاد کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ یہ ایک مشترکہ عقیدہ اور ثقافتی شناخت فراہم کرتا ہے۔ مذہبی تعلیمات اکثر اخلاقیات، انصاف اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں، جس سے معاشرتی استحکام میں مدد مل سکتی ہے۔
تاہم مذہبی قوم پرستی کے کئی منفی پہلو بھی ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اقلیتوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ جب کوئی ملک اپنی قومی شناخت کو کسی ایک مذہب سے جوڑتا ہے تو اس سے اقلیتیں خود کو الگ تھلگ محسوس کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی قوم پرستی بعض اوقات انتہا پسندی اور تعصب کو فروغ دیتی ہےجو سماجی تقسیم اور تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔
دنیا میں مذہب اور قومی شناخت کے تعلق کا مستقبل کئی عوامل پر منحصر ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں مذہب کا کردار برقرار رہنے کا امکان ہے، کیونکہ یہاں مذہب اب بھی روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان ممالک میں عوام مذہبی اقدار کو قومی تشخص کے ساتھ جوڑتے ہیں اور مذہب کو ریاستی پالیسیوں میں شامل دیکھنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک میں سیکولر ازم کا رجحان بڑھنے کا امکان ہے۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں مذہب کا اثر کم ہو رہا ہے اور نئی نسلیں زیادہ تر مذہب کو ایک ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں۔ ایسے ممالک میں مذہب کا قومی شناخت پر اثر مستقبل میں مزید کم ہو سکتا ہے۔
نوجوان نسل کا مذہب اور قومی شناخت کے بارے میں رویہ بھی بدل رہا ہے۔ تعلیم، سوشل میڈیا اور عالمی مواصلاتی ذرائع کی وجہ سے نوجوان زیادہ لبرل خیالات کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھنے کے حق میں ہے۔ یہاں تک کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی شہری علاقوں کے نوجوان مذہبی قوم پرستی کے بجائے زیادہ کثیرالثقافتی شناخت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مذہب اور قومی شناخت کا تعلق مختلف نوعیت کا ہے۔ درمیانی آمدنی والے ممالک میں مذہب کو قومی شناخت کے لیے زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے جبکہ زیادہ آمدنی والے ممالک میں یہ تعلق کمزور ہے۔ بھارت، انڈونیشیا، اور تیونس جیسے ممالک میں مذہب کو قومی شناخت کا ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے، جبکہ یورپی ممالک میں یہ رجحان کم ہے۔مذہب اور قومی شناخت کے درمیان توازن ضروری ہے۔ ایک طرف مذہب کو قومی تشخص کا لازمی عنصر بنا کر اقلیتوں کو الگ نہیں کیا جانا چاہیے۔ دوسری طرف سیکولر ازم کے نام پر مذہب کی مکمل نفی کرنا بھی بعض معاشروں میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ایک متوازن نقطہ نظر وہی ہوگا جہاں مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ تسلیم کیا جائے، لیکن اس کے سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ یہ موضوع مستقبل میں بھی اہم رہے گا، کیونکہ مذہب، سیاست اور قومی شناخت کا باہمی تعلق ہمیشہ بحث و مباحثے کا باعث بنتا رہے گا۔
[email protected]