محکمہ صحت کے حوالے سے آئے روز جو ہوش ربا رپورٹ میڈیا کی توسط سے عام لوگوں تک پہنچ رہے ہیں،انہوں نے ذی حس عوام کی نیندیں ہی اچٹ دی ہیں کیونکہ عوام کے جان سے براہ راست تعلق رکھنے والے اس شعبہ کی جو حالت اخبارات کے ذریعے منکشف ہورہی ہے ،وہ انتہائی پریشان کن ہی نہیں بلکہ تشویشناک بھی ہے ۔ادویہ سکینڈل کوئی نئی بات نہیںہے بلکہ اب تو ہسپتالوں میں دستیاب سہولیات اور عملہ و ڈھانچہ کی قلت بھی درپیش ہے اور ایسے میں یہ ہسپتال محض نمائشی شفاخانے لگتے ہیںجہاں مریضوںکا خدا ہی حافظ ہے۔خرد برد اور بدانتظامی و مالی بے ضابطگیوں کے حوالے سے آئے روز جو نت نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں ،وہ اس بات کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ یہ کوئی انفرادی کورپشن کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک منظم دھندہ ہے جو برسوں سے اس محکمہ میں چلتا آرہا ہے اور اس کے تار نچلی سے لیکر اوپری سطح تک محکمہ کے منتظمین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ادویہ سے لیکر مشینری کی خریداری میں بھاری سکینڈلوں کی خبریں محکمہ صحت جیسے انتہائی حساس ترین محکمہ کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے اور یقینی طور پر اس سے حفظان صحت کا نظام درہم برہم ہوکررہ گیا ہے ۔یہ شاید اس معاملہ کی سنگینی کا ہی عالم ہے کہ ہر فرد آتش زیر پا ہے تاہم حیران کن طور پر حکومت نے لب سی لئے ہیں اور کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہے ۔حیرت ہوتی ہے کہ ارباب بست و کشاد،جو ہر معاملہ میں ٹانگ اڑانے اور بات کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کرتے ہیں،اس حساس ترین مسئلہ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور آج تک اس ضمن میں ایک آدھ لفظ بھی نہیں بول پائے ہیں۔اس بات سے کسی کو انکارنہیں کہ اعلیٰ حکومتی مشینری مقامی ہسپتالوں پر منحصرنہیں ہے اور وہ اپنا اور اپنے کنبہ کا علاج بیرون جموںوکشمیریا بیرون ملک نجی طبی اداروں میں کرواتے ہیں لیکن عوامی خدمت گارہونے کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اپنے لوگوں کو معیاری طبی سہولیات بہم پہنچائیں لیکن یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ محکمہ صحت کا خدا ہی حافظ ہے ۔ عنوانی نے ہسپتالی سپلائی کی خریداری اور اس کی چانچ کے سارے نظام کی حقیقت کوتہہ وبالا کرکے رکھ دیاہے ، کیونکہ ہر زاویے سے ایسا یہ محسوس ہوتاہے کہ ترجیحات میں عوامی مفادات کی بجائے چند لوگوں کی ذاتی منفعت رہتی ہے اور ظاہر بات ہے کہ جہاں ترجیحات میں اس قدر بْعد ہو وہاں متعلقہ انتظامیہ پر کیسے اعتبار برقرار رہ سکتاہے۔ کوئی بھی حکومتی ادارہ اگر بے اعتبار ہوجائے تو اس کی افادیت عملی طور پر فوت ہوجاتی ہے اور یہی معاملہ محکمہ صحت کا ہے ، جو اپنی اہمیت کے اعتبار سے مسیحیت کا شعبہ گرداناجاتاہے تاہم اب یہ شبیہ داغدار ہوچکی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ ہسپتالوں میں ایسا عملہ ضرور موجود ہے، جو اپنی پیشہ ورانہ دیانت اور قابلیت کے حوالے سے دنیا کے دیگر حصوں کے ہم پلہ ہی نہیں بلکہ کئی قدم آگے ہے مگر جب انہیں سرکار کی طرف سے میسر کئے گئے بنیادی ڈھانچے میں ہی شدید نوعیت کی خامیاں موجود ہوں تو ان کا پیشہ ورانہ معیار بھی متاثر ہونایقینی ہے۔عام حالات میں کرپشن اور خرد برد کے معاملات کوفیصل ہونے میں برسہا برس کاعرصہ درکار ہوتاہے لیکن موجودہ معاملہ اپنی سنگینی کی وجہ سے طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر اس کی تحقیق وتفتیش کو اس قدر طول دیا جائے کہ یہ عوامی یاداشت سے محو ہو جائے تواس کا کوئی فائدہ ہونے کی بجائے اس کے نقصانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔ اگر اس غیر انسانی دھندے میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچانے میں تاخیر ہوئی تو یہ ناسور انتظامیہ کے دیگر صیغوں میں سرایت کرکے یہ نیا معیار ٹھہرسکتاہے ، جس سے سارا سماجی ڈھانچہ اس انداز سے آلودہ ہوجائے گا،جہاں جواب دہی کا احساس اور تعزیر کا خوف ختم ہوجائے گا۔ دنیا میں اْبھررہے نئے اقتصادی نظام کے اندر سماج کے ایک طبقے میں راتوں رات کروڑپتی بننے کا رْجحان ایک خطرناک انداز سے ہمارے سماج میں بھی سرایت کررہاہے،جس کوقابو کیا جاناچاہئے اور اْس ماحول کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے جہاں محنت اور دیانت کی قدر وقیمت عیاں ہونہ کہ سیاسی اورتجارتی طبقوں کے ناپسندیدہ عناصر کے اتحاد سے پیدا ہوئے بدعنوانی کے مافیا رْجحان کوعزت وتوقیر ملے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تفتیشی انتظامیہ کو منفردانداز اختیار کرکے کورپشن کے الزامات کو فوراً سے پیشتر انجام کو پہنچاناچاہئے تاکہ اس کے منحوس اثرات سے ہماری سوسائٹی ،جوموجودہ حالات کے دبائو تلے پہلے ہی چرمرارہی ہے، منفی انداز میں متاثر نہ ہوسکے۔