گْزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت تیزی سے وائرل ہوا۔ آپ نے بھی دل کو چیرنے والے اس ویڈیو کو ضرور دیکھا ہوگا۔ویڈیو دیکھ کرانسان کا کلیجہ پھٹ جاتاہے اور آنکھ نم ہوجاتی ہے۔ ڈیڑھ منٹ کے ویڈیو میں تقریباً چالیس الفاظ استعمال ہوئے ہیں لیکن ان چند لفظوں کے پیچھے غموں کی ایک کتاب ہے، ظلم کی طویل داستاں ہے ،بے بسی کا سمندر ہے، بے کسی کا طوفان ہے، حق تلفی کی انتہا ہے۔ چنانچہ غم کے سمندر میں اْٹھنے والی ذور دار موجوں نے مذکورہ شخص کے قلب و ذہن پر ایک طلاطم پیدا کیا اور اسطرح سے وادی گْل پوش کا ایک جواں سال شخص اور ایک مظلوم باپ کا چشم و چراغ زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرنے کے لئے مجبور ہوگیا۔آخر ایسا کیوں ہوا؟ کیا یہ دفتری طوالت کا نتیجہ ہے یا افسر شاہی کا شاخسانہ۔ اب جو بھی ہے ظْلم ہی ہے،نا انصافی ہی توہے۔ گزشتہ دو سال سے تنخواہ کے انتظار میں تھک چکے باپ نے کون سا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا لیکن کسی کی جوں تک نہ رینگی۔ عشروں سے محکمہ تعلیم میں کام کرنے والے استاد کو نہ ہی ابھی تک تنخواہ ملی اور نہ ہی کسی نے انکی بات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق مظلوم باپ کے بیٹے نے ایسا خطرناک قدم اْٹھایا۔ جموں و کشمیر میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقع ہے جس میں ایک پسرنے اپنے پدر کا کاغم برداشت نہ کرتے ہوئے اپنی شمع حیات گْل کردی۔ خودکشی کا واقع پیش آنے کے بعد مختلف سوالات ذہن میں گردش کر رہے ہیں جن میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ایک استاد کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔آخر دو سال کی طویل مدت میں متعلقہ محکمہ نے ان ملازمین کو اپنے حقوق سے محروم کیوں رکھا۔ آخر ڈائریکٹر موصوف نے دو سال میں فایلوںپر دستخط کیوں نہیںکئے؟آخر ان لوگوں کو سرکار ہی نے محکمہ میں تعینات کیا،اور اْنکا باضابطہ تقرر عمل میں لایا تو پھر یہ تانا شاہی اور افسر شاہی کیوں؟ کیا وادی میں درجنوں فورموں نے اپنے ساتھیوں سے ہورہے ظلم پر کبھی احتجاج کیا؟کیا ابھی تک ملازمین انجمنوں نے اِن مظلوموں کی آواز اْٹھائی اور کیا کسی نے ابھی تک انکی دادرسی کی۔
تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زندگی ایک امانت ہے اور یہ زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔عزم و استقلال اور یقین محکم کے جذبے کے تحت زندگی میں پیش آنے والے مصایب کے ساتھ ہی مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر کیونکر کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص اپنی جانِ عزیز کو ختم کرنے کے لئے مجبور ہوجائے۔ قبل اسکے دو اساتذہ کینسر کی مہلک مرض میں مبتلا ہوئے لیکن بھر وقت علاج نہ ملنے کی صورت میں وہ دونوں اللہ کے پیارے ہوگئے۔