لاش کا بھوگ

اپنے غلیظ انگ دھونے کے بعد اُس کو وہ قتل یاد آگیا جو کچھ دیر قبل اُس کے ہاتھوں ہوا تھا۔ وہ بُلند آواز میں چلانے لگا۔ ’’مجھے کس کو قتل کرنا تھا! اور کسے قتل کر بیٹھا! لیکن میں نے اِس کو قتل کرنا ہی تھا،۔۔۔ میں مجرم ہوں۔۔۔۔میں قاتل ہوں۔۔۔ مجھے ہتھکڑی پہنائی جائے گی۔۔۔ مگر ۔۔۔ مگر نہیں، مجھے پھولوں کا ہار پہنایا جائے گا۔۔۔ کیونکہ میں نے وہی کیا جومجھے کرنا تھا ۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہاں ۔۔۔ ہاں۔۔۔! میں اخبار کی شہ سرخی بن جائوں گا۔ اخبار والے مجھے کیش کرلیںگے۔۔۔ میں اُونچے دام بِک جائوں گا۔ لوگ مجھے پڑھیں گے۔۔۔۔ خبر پڑھ کر مجھے میونسپلٹی کے بڑے ڈسٹ بِن میں ڈالا جائے گا‘‘۔  وہ اور بھی بہت کچھ بُک رہا تھا۔ پھر وہ زور سے ہنسا اور چلانے لگا۔
’’پُرانے کاغذ‘‘
’’پرانے اخبار‘‘
اُس نے اپنے خون آلودہ ہاتھوں کو چوما اور دفعتاً لاش کے نزدیک ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔ وہ لاش کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا اور بلند آواز میں بولنے لگا۔
’’بچے مجھے کوڑی کے دام بیچ دیں گے۔ چند ٹکوں کے عوض میرا سودا ہوگا۔ کچھ لوگ مجھے میخانے میں کیش کریں گے اور کچھ قصاب کی دُکان پر! I am an unsung Hero.کوئی مجھ پر مرثیہ نہیںلکھے گا۔ میونسپلٹی کی گاڑی ۔۔۔ ہتھکڑی۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ پھولوں کے ہار کے ساتھ کچرے کے ڈھیر پر پھینک دے گی۔ پھر میں خبر کی طرح کچرے کے نیچے دفن ہوجائوں گا!‘‘
سچ تو یہ ہے کہ مجھے اُس اجنبی دیوانے۔۔۔ نہیں اُس اجنبی فلسفی کی باتیں سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ مجھے اُس کی انوکھی حرکات پسند نہیں تھیں۔ لیکن نہ جانے میں اس کو پھر بھی کیوں غور سے دیکھتا تھا۔! وہ پھر لاش کے سامنے آگیا۔ 
اُس نے لاش کے چہرے سے سفید رنگ کی چادر سرکا دی۔ اُس کے چہرے کو دوچار بار چوما اور لاش سے یوں مخاطب ہوا۔
’’میں موت سے زندگی کے چند لمحات اُدھار مانگ کر اپنے ادھورے خوابوں کو مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ تم ۔۔۔ ہاں ہاں تُم بالکل عُریاں تھی۔ میں تمہاری چھاتی پر ایک حسین بیٹی، ایک حسین عورت اور ایک حسین ماں کی تصویر کو دیکھتا تھا۔
ایک خوبصورت عورت کی تصویر دیکھ کر میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ لیکن ماں کی عظمت کو بچانے کے لئے میں نے آپ کی چھاتی میں اپنا چُھرا گھونپ دیا۔ میں نے تمہیں قتل کیا! تمہارا قتل ہونا میرے لئے واجب تھا۔ اس لئے کہ جب تک سورج کے ہاتھوں رات کا قتل نہیں ہوتا ہے تب تک نئی صبح جنم نہیں لیتی ہے۔ سورج کے سب قتل معارف ہیں! اس کے ہاتھوں ہر روز عُمر کا ایک حصہ زبح ہوتا ہے۔ اس طرح ہر روز ایک نئی کہانی ایک نیا افسانہ جنم لیتا ہے۔‘‘
وہ پھر لاش کے آگے جُھکا۔ اُس کے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور خود جنگل کی راہ لی۔
���
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،موبائل نمبر؛9906534724