رئیس احمد کمار
پاندریٹھن کے نزدیک جہلم کے کنارے پر ایک دوشیزہ اپنی ننھی خوبصورت ایک سالہ بچی کو سیمنٹ سے بنائے ہوئے باندھ پر بار بار کھڑا کر کے اپنے ساتھ سیلفی لینے میں مگن تھی۔ سڑک کی دونوں جانب لوگ اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھے اور کوئی اس کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا ۔
ایک بیس پچیس سال کا نوجوان، جس کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس کے پاس نہ اتنی دولت تھی اور نہ ہی رہنے کے لیے جدید طرز کا مکان جس وجہ سے کوئی بھی باپ اپنی بیٹی اسے دینے کے لیے تیار نہیں ہو جاتا تھاجو بھی پیدل چل رہا تھا سے رہا نہ گیا جب اس نے یہ منظر دیکھا اور اس نے دوشیزہ سے کہا۔۔۔۔ ہمشیرہ آپ یہ کیا کر رہی ہو؟ اس ننھی پھول جیسی بچی کی جان کو جوکھم میں ڈال رہی ہو۔ کتنے شادی شدہ جوڑے ایسے بھی ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں اور اس کے لیے ترس رہے ہیں۔ اللہ نے آپ کو ایسی گلاب جیسی پیاری بچی عطا کی ہے۔ اسے اپنی حفاظت میں رکھیں اور اللہ سے دعا کرتے رہنا کہ اس کی زندگی میں سکھ اور چین سدا رہے۔۔۔۔۔ ہمشیرہ کوئی بے ادبی تو میں نے نہیں کی؟ کیا آپ میری ان باتوں سے متفق ہیں؟ اس کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں اور نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے شکریہ ادا کیا اور اسے خوب دعائیں دیں۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان ایک طویل گفتگو ہوئی۔ گھر پہنچ کر دوشیزہ نے اپنی بہن سے کہا۔ آج میں نے تمہارے لیے ایک ایسے انسانی دل رکھنے والے نوجوان کو چنا ہے جو آپ کی ہمیشہ قدر کرے گا اور تمہیں سدا خوش رکھے گا۔ ایسے مخلص اور بااخلاق نوجوان اس مادہ پرستی کی دنیا میں بہت کم نظر آتے ہیں اور صرف خوش قسمتوں لڑکیوں کے نصیب میں ہی ہوتے ہیں۔ اس کی چھوٹی بہن نے بغیر کوئی بات کہے اپنی آمادگی کا اظہار اشاروں میں ہی کیا۔
���
قاضی گنڈ کشمیر