رئیس احمد کمار ،قاضی گنڈ کشمیر
باپ کے مرنے کے بعد دونوں بھائیوں کی زندگی اجیرن بن گئی تھی ۔ نہ اپنا تعلیمی سفر پورا کیا نہ ہی جوانی کی بہاریں دیکھیں ۔ بلکہ قدم قدم پر مصیبتوں کا ہی سامنا دونوں بھائیوں کو کرنا پڑا ۔ نہ صرف گھر کی مالی حالت کمزور ہوگئی تھی بلکہ اپنا مستقبل بھی تاریک ہونے سے نہ بچا سکے ۔ دوستوں اور احباب نے بھی ان کی کوئی مدد نہ کی، نتیجتاً ان کو خود ہی اپنے ٹانگوں پر کھڑا ہونا پڑا ۔
بڑے بھائی نے شہر کے ایک بڑے ریڈی میڈ گارمنٹ شاپ پر بحیثیت سیلز مین کام کرنا شروع کردیا اور چھوٹے بھائی نے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں گیٹ کیپر کا کام سنبھالا ۔ دھیرے دھیرے دونوں بھائیوں کا کاممیں جی لگا ۔ گرچہ ان دونوں کو ابھی کم عمری کی وجہ سے کام میں نہیں لگانا تھا بلکہ یہ انکے پڑھنے لکھنے کے دن تھے مگر باپ کے اچانک گزر جانے سے گویا ان کی تقدیر ہی بدل گئی ۔ ان کے خواب اور ارمان ہی مٹی میں مل گئے ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں بھائیوں نے ترقی کے منازل طے کئے۔ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے لگے اور دیانتداری اور ایمانداری سے اپنا کام نبھاتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔
پانچ سال بعد دونوں بھائیوں نے نہ صرف ایک عالیشان مکان تعمیر کروایا بلکہ اپنی بیوہ ماں کو بھی بیرون ملک علاج و معالجہ کرواکے نئی زندگی عطا کی ۔ شوہر کے فوت ہونے کے بعد ہی وہ ڑپریش کی شکار بن گئی تھی اور اپنے دونوں لڑکوں کی دکھ بری حالت دیکھ کر اس کے زخموں پر گویا نمک چھڑک جاتا تھا ۔ اپنا علاج کرواتے کرواتے وہ تھک گئ تھی کیونکہ بیماری کی شدت روز بروز مزید بڑھ ہی جاتی تھی اوراس میں سدھار کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ شوہر کے یہی بنائے ہوئے کچے بوسیدہ مکان پر جب اسکی نظر پڑ جاتی تھی تو وہ اور د ل شکستہ ہو جاتی تھی کیونکہ اپنے محلے میں اونچے اونچے مکان اسے گویا پریشان کرتے تھے ۔
لیکن ان دونوں بھائیوں نے ماں کو جسمانی و نفسیاتی دونوں امراض سے نجات دلوائی ۔ اپنے دونوں لڑکوں کی ترقی دیکھ کر ہی وہ ٹھیک ہونے لگی ۔ عالیشان مکان ، آرام دہ گاڑی اور مہنگے لباس پہننا وغیرہ وغیرہ اب ان کا معمول بن گیا ۔ کل تک جو اپنے مستقبل کا رونا روتے تھے اب خوشی میں پھولے نہیں سماتے ۔ کچے اور بوسیدہ مکان کی جگہ اب ایک عالیشان حویلی نظر آتی ہے ۔ کئ کلومیٹر کا پیدل سفر کرنے کی بجائے اب گھر کے آنگن میں ہی آرام دہ گاڑی ہمیشہ میسر رہتی ہے ۔ سال میں ایک یا دو ہی بار نئےملبوسات خریدنے کے بجائے اب ہر ہفتے نئے کپڑے لانے کے لئے بازار کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔ جس طرح ایک گرا ہوا شخص اپنی ٹانگوں پر دوبارہ کھڑا ہو کر دوڑ میں پھر سے شامل ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح دونوں بھائیوں نے اپنے گھر کی ناگفتہ بہ حالت کو مستحکم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
اب بس وہ اپنی شادیاں کرنا چاہتے تھے کیونکہ گھر میں ماں کے سوا کوئی عورت تھی نہیں جو اس کو گھریلو کام میں ہاتھ بٹاتی ۔ گھر کی مالی حالت بھی مستحکم ہے اور پراپرٹی بھی اچھی خاصی ہے ۔ اس لئے ہر کوئی شخص اپنی لڑکی ان کو دینے کے لئے تیار ہوگا کیونکہ اس گھر میں لڑکی کو آرام بھی ملے گا اور عیش و عشرت سے بھی زندگی گزرے گی ۔
ایک ہی ہفتے کے اندر دونوں بھائیوں کے رشتے طے ہوئے ۔ اینگیجمنٹ وغیرہ کی تقریب بڑی ہی دھوم دھام سے منائی گئی۔ شادی کی تاریخ بھی اگلے مہینے ہی مقرر کی گئی ۔ اب وہ شادی کے لئے سامان وغیرہ جمع کررہے ہیں ۔
حالات نے اچانک پلٹی کھائی۔راتوں رات ہمسایہ ملک کے حملوں سے نہ صرف ان کی نیندیں حرام ہوگئیںبلکہ حملوں کی شدت اتنی بھیانک تھی کہ انہوں نے وہاں سے نکل جانےمیں ہی اپنی بہتری سمجھی ۔ گولیوں ،مارٹرگولوں اور دیگر ہتھیاروں کے استعمال نے پوری بستی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ مالی و جانی نقصان کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوگیا ۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ، بچے یتیم اور مرد بے گھر ہوگئے ۔ قیامت کے منظر نے عالم انسانیت کو ایک دم گہری نیند سے اٹھایا اور اپنا ردعمل دکھانے پر مجبور کر دیا ۔
دونوں بھائی اور ان کی بیوہ ماں بھی ایک ہفتے بعد جب اپنے آشیانے کو دیکھنے گئے تو وہاں اسکا پتا لگانا محال تھا کیونکہ گاؤں کی پوری بستی گویا سیلابی ریلے میں بہہ گئی تھی ۔ وہاں صرف ملبہ اور کھنڈرات دکھائی دے رہے تھے ۔ حالت دیکھ کر تینوں نیچے گر پڑے ۔ اردگرد جمع ہوئے مجموعے نے انکی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔