فوجی قیادت کا نعرۂ امن

۔9دسمبر  کے روز سرینگر کے مضافاتی گائوں مجہ گنڈ میں فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین18گھنٹہ تک ایک معرکہ آرائی ہوئی جس میں 3عسکریت پسند مارے گئے اور7مکانات کوفورسز نے بارود سے تباہ کرڈالا۔مارے جانے والے عسکریت پسندوں میں چودہ سال کی عمر کا مدثر احمد پرے ساکن حاجن اور اُس کا پڑوسی دوست سترہ سالہ ثاقب بلال شیخ بھی شامل تھے۔اس کے علاوہ تیسرا جنگجو علی بھائی بتاجاتا ہے جو غیر کشمیری تھا۔اس طرح کے خون ریز واقعات نئے نہیں ہیںبلکہ اس سال کچھ زیادہ تعداد ہی میں عسکریت پسندوں کو مارا گیااور سینکڑوں مکانات تباہ کئے گئے۔سال بھر کی ان ہلاکتوں کے حوالے سے کشمیر کے حساس اور دردمند حلقوں نے سنگین افسوس اور کرب کا اظہار کرتے ہوئے بار بار یہ جتلایا کہ اس طرح سے نو عمر عسکریت پسند بے بسی کی سی حالت میں کیوں مارے جاتے ہیں یا مرنا پسند کرتے ہیں۔مجہ گنڈ معرکہ آرائی میں 14سالہ مدثر احمد پرے کی شہادت سے پورے سوشل میڈیا پر بھی اس بات پرزبردست شور اٹھا کہ عسکری قیادت اس طرح سے نوعمر اور نوآموز لڑکوں کو اپنی صفوں میں کیوں شامل کرتی ہے ۔مدثر احمد پرے کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہواہے جس میں وہ ایک سیاحتی مقام پر دوران ایکسکرشن پُر کیف انداز میں نعت شریف گنگنا رہے ہیں۔اس نعت نے مدثر کیلئے ہمدردی اور رحم کے سات سمندر گویا چھلکا ئے ہوں۔کئی بھارت نواز سیاسی حلقوںنے بھی ایسی کارروائیوںپر اعتراض جتایا ہے ۔سجاد غنی لون نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب معرکہ نو عمر لڑکوں سے ہو تو ایسے آپریشن نہیں کرنے چاہئیں جبکہ مقامی لوگوںکا بھی کہنا ہے کہ فورسز نے بلا وجہ سات مکانات کو بارود سے اڑادیاحالانکہ وہاں کوئی ملی ٹنٹ نہیںتھا۔بہر حال مدثر احمد پرے جیسے چودہ سالہ نو عمر بچوں کوملی ٹنٹ کے نام پر مارنا ہندوستانی فوج کی بوکھلاہٹ اور مرکزی سرکار کی بے ضمیری ہے کہ وہ ان ہلاکتوں پر کامیابی کے جشن مناتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ عسکری حلقوں کیلئے بھی تازیانہ اور مقدمہ ہے کہ وہ بھی قابل مواخذہ ہیںکیونکہ اس طرح کے نوعمر اور نو آموز لڑکوں کو عسکریت میں شامل کرکے کوئی بڑی مزاحمت نہیں لڑی جاسکتی ہے ۔اس سال جس طرح سے عسکریت پسندوں نے قربانیوں کے ڈھیر لگائے اور فورسز نے لاشوں کے انبار ،اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محض عسکریت پسندی ہی مزاحمت پسندی کی کارگر دوا نہیںہے ۔
اس طرح کی معرکہ آرائیوں کے حوالے سے ضمنی طو ر پر یہ بات کافی اہم ہے کہ عسکریت پسندوں کے مارے جانے کے بعد دوطرفہ جشن شروع ہوتا ہے ۔جہاں مزاحمتی سیاسی قیادت فوراً خراج عقیدت کے بیانات چھپوانے میں دیر نہیں کرتی ہے اور لوگوںکا سمندر مہلوکین کے گھر جاکراُن سے تعزیت اور تحریک حق میں اظہار ِ وابستگی کرتا ہے ،وہیں وہ لوگ بے یار و مدد گار غم کے آنسوبہاتے ہیں جن کے مکانات فورسزانتقاماً بارود سے اڑاکر انہیں نہ صرف آشیانہ سے بلکہ عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم کرتے ہیں۔آج تک حریت قیادت نے ان لوگوںکی مدد کیلئے کوئی میکا نزم نہیں بنایا ،محض چند مقامی افراد مدد کرتے ہیںجو بالکل ناکافی ہوتا ہے۔چونکہ اب یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کے ساتھ رہائشی مکانات کی تباہی معمول بن چکی ہے اور ایسے حالات میں بہت سارے افراد خانہ بے خبری سے ان حالات کا شکار ہوجاتے ہیںلیکن اُن کے گھروں کی بربادی کے بعدانہیں کوئی مدد نہیں کرتا ہے ۔مجہ گنڈ کے معاملے میں سوشل میڈیا پرایک صاحب نے شمالی کشمیر کے تمام خطیبوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جمعہ کے روز مسجد کیلئے چندہ جمع کرنے کی بجائے مجہ گنڈکے تباہ حال خاندانوں کیلئے چندہ جمع کریں۔ایسے میں غیر متعلق رنگے سیار بھی پیدا ہوتے ہیں جو دوسرے علاقو ں میں تباہ شدہ خاندانوںکیلئے رقوم اور امداد جمع کرنے کا نقلی بیڑا اٹھاتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ لوگ خود متاثرہ خاندانوںکی مدد براہ راست کرتے اور حریت کو چاہئے تھاکہ جو بے شمار لوگ عسکریت پسندوںکے جنازوںمیں شریک ہوتے ہیں اور اُن کے خاندانوںکے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں،وہ اس موقعہ پرمتاثرہ اور تباہ شدہ خاندانوں کیلئے بھی چندہ جمع کرکے خود براہ راست ان کی مدد کرتے ۔ایسے تباہ شدہ خاندان فورسز کی نظروں میں دشمن ،مقامی سرکار کی نظروں میں مشکوک اور بسا اوقات خود عام لوگ بھی انہیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیںکہ ہو نہ ہو،انہی لوگوں نے فورسز کواطلاع دی ہوگی حالانکہ یہ لوگ ایسے سارے معاملات میں بے خبر ہوتے ہیں اور اتفاقاً فورسز کے ظلم کا شکار ہوجاتے ہیں۔حالات ایسے ہوتے ہیں کہ متاثرہ تباہ حال خاندان اپنی بات کسی سے کہہ بھی نہیں پاتے ہیں۔وہ کہیں تو کیا کہیں۔میرے خیال میں سارے کشمیری سماج،مقامی لوگوںاور بالخصوص حریت قیادت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان لوگوںکی مدد کریں ۔کچھ اور نہ سہی ،انکی امداد کیلئے وہ لوگوں سے اپیل ضرو ر کرسکتے ہیں۔
جہاں تک مجموعی عسکری یا سیکورٹی صورتحال کا تعلق ہے تو ا سبارے میں اب فوجی قیاد ت بھی بیانات کے حوالے سے فعال نظر آتی ہے۔ریاست کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ وادی میں 250عسکریت پسندسرگرم ہیں اور حالات دن بدن ان کے خیال میں معمول پر آرہے ہین۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجی قیادت بھی اب کہہ رہی ہے کہ کشمیر مسئلہ کے حل میں فوج کا کردار محدود ہے ۔15ویں کورکے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹنٹ جنرل انل کمار بھٹ کا کہناہے کہ فوج ملی ٹینسی کو ختم کرسکتی ہے ،سنگ باری کے واقعات پر روک لگانے میں کردار نبھا سکتی ہے لیکن پائیدار امن کیلئے اور مسئلہ کشمیر کے دیرینہ معاملے کوحل کرنے کیلئے سیاسی گفت و شنید ، اچھی حکمرانی اور کشمیری نوجوانوںکے ذہنوں اور رجحانات کوبہترسمت دینے کی ضرورت ہے۔’’سنڈے ایکسپریس‘‘کو اپنے ایک انٹرویو میں جنرل نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میںفوج کا کردار محدود ہے اور باقی کام سیاسی قیادت کاہے۔انہوںنے بھی سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کے اقدامات کا ذکر کیاہے کہ کشمیریوںکے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے۔مجموعی طو ر پر ان کا کہنا ہے کہ کشمیریوں میںیہ اعتماد بحال کرنا ہوگاکہ اُن کا مستقبل ہندوستان میں محفوظ ہے ۔ اس سے قبل ہی جنرل پناگ (ریٹائرڈ)نے بھی تفصیل کے ساتھ یہ بات بتائی کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے بلکہ اس کا صرف سیاسی حل ہی ممکن ہے ۔اُن سے پہلے بھی کئی بھارتی فوجی جنرل اس طرح کے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ان میں جنرل پد منا بھن سب سے نمایاں ہیں۔
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوجی قیادت کے امن کے خیالات کا زمینی سطح پر کوئی اثر ہے اور نہ مطابقت ۔اگر یہی بات دیکھیں کہ انکائونٹر میں نو آموز اور نوعمر لڑکے مارے جاتے ہیں،پھر خوامخواہ انتقامی کارروائی کے طور پر رہائشی مکانات اور جائیداد تباہ کی جاتی ہے ۔یہ آرمی کا معمول بن چکا ہے ۔اس سے کشمیریوںمیں یہ نظریہ کبھی مستحکم نہیںہوسکتا ہے کہ ان کا مستقبل ہندوستان میں محفوظ ہے ۔جنرل بپن راوت اس سے قبل پاکستان کو دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ ایک اسلامی ملک کے ساتھ کوئی بھی امن کی گفت و شنیدنہیں کرسکتے ہیں ۔بقول اُن کے اگر پاکستان بھارت کے ساتھ دوستی چاہتا ہے تو اس کو سیکولر ملک بننا پڑے گااور اُسی بیان میںانہوںنے کہا تھا کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت اس کی اجازت دینے کاخطرہ اٹھاسکتی ہے کہ ملی ٹنٹوں کے خلاف ڈرون حملوں میں کولیٹرل نقصانات ہوں ،تو وہ ایسے حملے کرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔یوں جنرل بپن راوت ،جو بھارتی فوج کے سربراہ ہی ،کے جارحانہ بیانات اور15ویں کور کے جنرل بھٹ کے مصالحانہ خیال میں واضح تضاد موجود ہے۔
 جنرل بپن راوت ،جنرل بھٹ ،جنرل انبو،جنرل پناگ(ر)،جنرل ہوڈا(ر)اور دوسرے جنرل امن کے خیالات اور کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں لیکن عملی دنیا میں اس کا کہیں پر وجود نہیں ہے۔یہ صورتحال مزید طوالت اختیار کرگئی تو بھارتی افواج قاتلانہ نفسیات اور قاتلانہ مزاج کی آبادی بن جائے گی جو خود اپنے ہندوستانی سماج کیلئے مصیبت بن جائے گی کیونکہ بہت سارے فوجی ریٹائر ہونے کے بعدمقامی سطح پر آر ایس ایس میں شامل ہوکرنسلی منافرت اور غارت گری کا ہر اول دستہ بن جاتے ہیں۔حال ہی میں چھٹی پر گئے ایک فوجی جیتو نے بلند شہر میں سیانا کوتوالی کے انچارج سبودھ کمار سنگھ کو گولی ماردی۔اس کے بعد اس نے سوپور کے ایک کیمپ میں واپس جوائن کیاجس کو اب یوپی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔اس طرح کی بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہیںکہ فوج کو جس طرح یہاںقتل و غارت گری اور تباہی کی مکمل چھوٹ حاصل ہے ،اس سے خود اُن کی ذہنیت اور مزاج کی بربادی بھی ہورہی ہے ۔وہ قاتلانہ جبلت پال کراپنے ہی سماج کی طرف لوٹ رہے ہیں۔اس طرح فوجی قیادت اگر سچ مچ کشمیر میں امن کی فضاء دیکھنا چاہتی ہے توانہیں ایک جانب اپنی غارت گر کارروائیوں پر فوری روک لگانی چاہئے ۔14سالہ مدثر کومارنے اور سات رہائشی مکانات اڑانے جیسے واقعات بند کرنے چاہئیںاور دوسری جانب ملکی قیادت پر اصلیت آشکار کرکے انہیں امن اور انسانیت کی طرف لے جانے کیلئے دبائو ڈالناچاہئے ۔فوج ہندوستانی ریاست کا ایک طاقت ور ادارہ ہے ۔اس لئے اگر وہ چاہیں توملکی سیاسی قیادت ان کی رائے کو نظر انداز نہیں کرسکے گی۔
 نوٹ: بشکریہ ہفت روزہ’’ نوائے جہلم‘‘ سری نگر