رحیم رہبر
شہر کے مصروف ترین بازار سے اُس کا جنازہ جارہا تھا۔ جنازے کے ساتھ رکھشا والوں کی ایک کثیر تعداد جارہی تھی۔ جن میں سے کچھ اللہ اکبر پڑھ رہے تھے اور کچھ رام رام ستہ ہے بول رہے تھے۔ ایک شخص، جو خدوخال سے رکھشا چلانے والا ہی لگتا تھا، میلی چادر آدھی اوپر تانے آدھی نیچے بچھائےسڑک کی ایک طرف خاموشی سے جنازے کا یہ کربناک منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ عجب حرکات کررہا تھا۔ کبھی اپنی میلی چادر میں سے کاغذ کی پرچی نکالتا تھا، دو چار بار اس کو چومتا تھا اور پھر چادر میں اس کو چھپاتا تھا! اُس شخص نے سیاہ چُوس کی طرح میری نگاہیں چُوس لیں۔ میں اُس شخص کے پاس گیا اور اس سے پوچھا۔
’’تم نے اس چادر کے نیچے کیا چُھپارکھا ہے؟‘‘
’’شہنامہ!‘‘ وہ دفعتاً بولا۔
’’شہنامہ!‘‘ میں چونک گیا۔
اُس نے سگریٹ جلائی۔دو چا رلمبے کش لئے۔ اُس کے رخسار کشمیری امبر سیب کی طرح لال ہوگئے اور مایوس لہجے میں یوں گویا ہوا۔
’’شاحب! اِس شہر کے شب رکھشے والے اَب یتیم ہوگئے ہیں۔ اِش نے شارے رکھشہ والوں کی کمر توڑ دی۔ ہمارے گھائو اب ہرے کے ہرے رہیں گے۔ ہمارے جخموں پہ مرہم لگانے والا ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ ہمارا مسیحا تھا۔۔۔ ہمرا ہمدرد ہمرا قائید !‘‘
اُس شخص کی باتوں نے مجھے حیران کردیا۔
’’بھائی یہ کس کا جنازہ جارہا ہے!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’فردوسی کا‘‘ اُس نے فوراً جواب دیا۔
’’فر۔۔۔فر۔۔۔فردوسی کا‘‘ میں نے انہماک سے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ہاں ہاں فردوسیؔ کا، جس نے۔۔۔۔۔‘‘ پھر وہ خاموش ہوا۔
’’وہی فردوسیؔ شاعر جس نے شہنامہ لکھا‘‘
’’ہاں! صحی سمجھا‘‘۔ اُس نے اپنی میلی چادر سے پرچی نکالی دوچار بار اس کو چوما اور پھر اس کو اپنی چادر کے نیچے چُھپا دیا۔ اِس دوران اُسکی آنکھیں نم ہوئیں۔
’’شاحب! ہمارا فردوسی ہمیں چھوڑ کے چلاگیا۔ اب ہمرا اِش دھرتی پہ کوئی نہیں ہے۔‘‘ اُس نے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا۔
’’میں تمہارا درد سمجھتا ہوں‘‘۔ میں نے بولا۔
’’ہمرا فردوسی غیرتمند تھا۔ ہم اُس کے ساتھ اپنا دُکھ درد بانٹتے تھے۔ اِش پتھرئوں کے نگر میں شِرف یہی ایک تھا جو ہمرا کرب قلم کے ذریعے اُونچے محلوں تک پہنچاتا تھا۔ یہی ایک تھا جس کے دل کے آنگن میں ہماری راتیں حسین ہوتی تھیں۔ پتھرئوں کے اِش نگر میں آج ہمرا شُننے والا کوئی نہیں رہا۔ پتھرئوں کی سرحدوں میں محصور ہم مجبور محنت کش مزدوروں کا اب کوئی شُننے والا نہیں رہا۔! پتھرئوں کے اِش نگر میں شاہرائوں پہ اخبار فروش پھر رہے ہیں۔ کل اِش جنازے کی خبر چند ٹکوں میں بک جائے گی! اُش فردوسیؔ شاعر نے ایک بادشاہ کی خاطر قصیدہ لکھا تھا اور ہمارا رکھشا چلانے والے فردوسی نے ہم جیسے غریب مزدوروں کے لئے قصے، کہانیاں اور گیت لکھے۔‘‘
آنسوئوں سے اُس شخصی کی کُھر دُری داڈھی تر ہوگئی۔ ’’ہمارے فردوسیؔ کو ہم پہ ناز تھا۔ اُس کا ماننا تھا کہ ایک محنت کش مزدور ہی مُلک کی تقدیر کو بنا سکتا ہے‘‘۔ سسکیاں لیتے ہوئے وہ شخص خاموش ہوا۔
اُس شخص نے گویا میرے اِدراک کا دریچہ وا کیا۔ مجھے یوں لگا جیسے کلّی کے لمس سے ہوا کے ہونٹوں میں شہد بھر گیا ہے۔ جیسے شب کے ماتھے پر چاند نے جھومر ٹکا دیا اور میرے قلم نے مُدت بعد ایک سنیپ شاٹ “Snap Short” رقم کیا۔!
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام،موبائل نمبر؛9906534724