سرینگر //وادی میں فضائی آلودگی پھیلانے میں سرکاری اداروں کا بھی کلیدی رول رہا ہے ۔ فضائی آلودگی میں 5عوامل کارفرما بتائے جارہے ہیں۔پہلے نمبر پر پالی تھین کا بے تحاشا استعمال، دوسرے نمبر پر جنگلات کا کٹائو، تیسرے نمبر پر قدرتی آبی ذخائر کا سکڑ جانا ، چوتھے نمبر پر یہاں موجود چھوٹے بڑے کارخانوں سے زہریلی گیس کا اخراج اور پانچویں نمبر پر گاڑیوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں شامل ہیں۔وادی میں زیادہ کارخانے نہیں ہیں۔ لیکن جو بھی ہیں وہ ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کیلئے قواعد و ضوابط پر عملدر آمد کرنے سے مکمل قاصر ہیں۔وادی میں زیادہ تر اینٹیں بنانے کے کارخانے ہیں، جن کی تعداد 326ہے ۔ جبکہ سیمنٹ کارخانے اور دیگر چند اس طرح کے یونٹ کام کررہے ہیں۔کارخانوں سے زہریلی گیس کے اخراج سے نہ صرف آلودگی کی سطح میں اضافہ ہوتاہے بلکہ زرعی اراضی اور حیاتیاتی ماحول کیلئے بھی خطرہ پیدا ہورہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ محکمہ پولیو شن کنٹرول بورڈ کے پاس وادی میں بہت کم تعداد میں اینٹ بنانے کے کارخانے رجسٹر ہیں ۔یہ سبھی کارخانے زرعی یا باغات اراضی پر قائم کئے گئے ہیں اور سالہا سال سے کام کررہے ہیں۔ جموں وکشمیر Brick Kilns Regulation ایکٹ 2010 کے قواعد کے مطابق زرعی اراضی پر اینٹوںکے بھٹے قائم نہیں کئے جا سکتے جبکہ جنگل ، زراعت ، صحت اور تعلیمی اداروں کے آس پاس بھی ان بٹھوں کو قائم کرنے کیلئے پولیوشن کنٹرول بورڈ کیNOC کا حصول ضروری ہے اس کے علاوہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی اجازت بھی لازمی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہورہا ہے کہ ماحولیاتی کلیئرنس کے حوالے سے یہاں مکمل پاسداری نہیں کی جارہی ہے۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیات کے سربراہ شکیل رومشو نے اپنی ایک تحقیق میں اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ بہت سے علاقوں میں زرعی اراضی کو تالاب نما بڑے کھڈوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ زرعی زمین کو 2سے تین فٹ تک کھودا جاسکتا ہے لیکن اینٹ بھٹوں کیلئے مٹی نکالنے کیلئے 15 سے 25 فٹ تک گہری کھدائی کرتے ہیں جس کے بعد نیچے سے نمکیات اور ریتلی زمین نمودار ہوتی ہے جو زر خیر نہیں ہوتی اس طرح زرخیز اراضی کی اوپری سطح ختم ہورہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کھودی ہوئی زمین پر کوئی بھی فصل نہیں اُگائی جا سکتی ۔ایک ممتاز ڈاکٹر نے کہا ہے کہ وادی کشمیر میں بیشتر اینٹوں کے بھٹوں میں آلودگی کی سطح کو کم کرنے کیلئے طے شدہ اقدامات پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے ۔ ان علاقوں میں وہ عملی طور پر ماحولیاتی تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی ، حیاتیاتی ماحول کیلئے بھی خطرہ بن رہی ہے انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں نہ صرف زرعی اراضی ختم ہوتی جارہی ہے بلکہ میوہ باغات بھی متاثر ہورہے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والے گیس ماحول کو آلودہ کررہی ہے اور لوگوں کی صحت کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔‘‘جموں وکشمیر آلودگی کنٹرول بورڈ (ایس پی سی بی) کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق ، چمنی 115 فٹ سے لمبی ہونی چاہئے۔ بھٹوں کو کسی منظور شدہ واٹر اسکیم یا کسی بھی آبی زخائر سے کم از کم 500 میٹر کے فاصلے پر ہونا چاہئے۔ 50 میٹر کے دائرے میں آرکڈز اور رہائشی مکانات بھی نہیں ہونے چاہیں۔پولیشن کنٹرول بورڈ کے ریجنل ڈائریکٹر کشمیر رفت احمد بٹ نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیوشن کنٹرول بورڈ نے حال ہی میں حکومت کیساتھ ایک نیا پلان مرتب کیا ہے جس کی رو سے فضائی آلودگی کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیات کے حوالے سے کئی معاملات ہوتے ہیں جنہیں محکمہ کو ہی حل کرنے چاہیے۔