فریبِ برتری افسانہ

راجہ یوسف

خالد حسین کے ذہن و دل میں شافیعہ کی سوچ جیسے منجمد ہو کر رہ گئی تھی۔ اس کاذہن کبھی دل کو مورد الزام ٹھہراتا تھا تو کبھی دل سوچ کو قصوروار گردانتا تھا۔ اس کے دن کا چین اور راتوں کی نیند اڑ چکی تھی۔ وہ دن رات بس شافیعہ کے بارے میں سوچتا جارہا تھااور اسی کے خلاف بڑبڑاتا رہتا تھا۔
’’ میرے خدشات سچ ثابت ہو رہے تھے۔کہ اب تم نہیں بلکہ تمہارا غرور بول رہا تھا۔ تکبر نے تمہارے ذہن و دل کو جکڑکر رکھاتھا۔جو میرے معصوم احساس کو دبانے کی کوشش کررہاتھا۔ لیکن جب میں نے گھر چھوڑااوراپنا گائوں چھوڑ کر آیاتو تب تم بہت زیادہ خوش ہوئی تھیں۔تم جانتی تھیں کہ یہ سب میں نے صرف تمہارے لئے کیا تھا ۔ تمہارے ساتھ رہنے کے لئے ۔تم کو اپنانے کے لئے ۔ یاد ہے نا میری چھوٹی سی کہانی بھی اگر کسی اخبار میں شائع ہوتی توتمہارا چہرہ مسرت سے کھل اٹھتاتھا۔ جب کسی بڑی کانفرنس میں تم ا ٓڈینس میں ہوتیں اور میںپرزیڈیم میں بیٹھایا مائیک پر بول رہا ہوتا توتم کو مجھ پر فخر ہوتا تھا۔ جب بھی کوئی ریاستی یا ملکی سطح کی ادبی یا علمی کانفرنس ہوتی تو مجھے وہاں پر بلایا جاتا اور تمہاری ڈیوٹی لگ جاتی تھی۔ میرے ساتھ کواپریٹ (Cooperate )کرنے کی اور میری ایک ایک چیز کا خیال رکھنے کی ہدایت مل جاتی تھی۔ کسی بھی کانفرنس کے دوران تم اپنے آفیسرز اور کلیگس کے سامنے میرا تعارف کراتے تھکتی نہیں تھی اور فخر سے ہمارا رشتہ ظاہر کرتی تھیں لیکن اب تمہارا آہنکار بڑھ رہا ہے اور میرے خدشات بھی۔‘‘
اٹکی ہوئی سوئی آہنکار کے ریکارڈ پر چلتے چلتے گھِس چکی ہے ۔خالد حسین کو لگ رہا تھا کہ اس کی بیوی شافیعہ کے سوچ کی سوئی اب غرور کی انتہا پر پہنچ کر اٹک چکی ہے۔ اس لئے اب وہ بار بار صرف تکبر ، غرور اور نفرت کی ہی باتیں دہراتی تھی ۔
’’ نفرت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ لیکن تمہاری بد گماں نظریں جو زہریلے نشتر چلا رہی ہیں وہ نہ صرف میری روح بلکہ میرے احساس کو بھی زخمی کر رہے ہیں۔ وہ احساس جس کو جگانے کے لئے تم نے سارے دائو کھیلے تھے ہزار نہیں بلکہ لاکھ جتن تھے ، جو بار بار مجھے احساس دلا رہے تھے کہ مجھے تمہارے بارے میں سوچنا ہوگا ۔ یہ وہی احساس ہے جس نے مجھے تمہارے قریب ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ اور اب یہ وقت آن پہچا ہے کہ تم میرے انہی احساسات کی دشمن بنی بیٹھی ہو۔‘‘
ذہن کے کشکول میں جب خیال کے سکے گرنے بند ہوجاتے ہیں تو ذہنی اپج کنگال ہو جاتی ہے۔ ایک جمود آجاتا ہے جو جھنجلاہٹ کا محرک بن جاتا ہے۔ دماغ وہیں تک سوچتا ہے جہاں پر سوچ کی سوئی اٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی رکی پڑی سوئی ایک ہی جملے کی اتنی تکرار کرواتی ہے کہ سننے والے کا دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ گھسی ہوئی سوئی منجمد خیال کو گھِستی چلی جاتی ہے اور انسان خود بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے دراصل وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کی مکمل ترسیل نہیں ہو پاتی۔ اور وہی شخص جو کل تک آنکھ کا تارہ ہوتا ہے اسی کا چہرہ سب سے زیادہ برا اور منحوس لگتا ہے۔
خالد حسین بڑا ہی خاموش طبیعت انسان تھا لیکن جب بھی بولتا تھا تو اس کی باتوں سے صرف علم و دانش کا اظہار ہوتا تھا۔ لکھتا تھا تو پڑھنے والوں میں جادو جگاتا تھا ۔ یونیورسٹی میں لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد تھی جو خالد کے پرستار تھے ۔ کئی لڑکیاں اسے چاہتی بھی تھیں لیکن شافیعہ نے سب پر سبقت لے لی تھی ۔ وہ خالد کی شاعری اور کہانیوں سے زیادہ اس کی پرسنلٹی، اس کے Behavior پر فریفتہ تھی ۔ وہ ہر حال میں خالدحسین کو اپنا بنانا چاہتی تھی۔
خالد حسین ضلع شاہ آباد کے دور دراز گائوں شاہ پور کا باسی تھا۔یہ گائوں اپنے حسن و جمال اور خوبصورتی کے لحاظ سے اپنی مثال ا ٓپ تھا۔ سرسبز میدان ، پہاڑ وںسے اترتے گرتے صاف و شفاف جھرنے ، قدرتی پھلواریاں اور جنگلوں کے لمبے لمبے سلسلے ۔ خالد حسین قدرت کے حسن کا دیوانہ تھا اور اپنے گائوں سے بہت پیار کرتا تھا۔ وہ یہاں کے بڑے زمیندار حیات خان کا تیسرا بیٹا بڑے دوبیٹے باپ کے کارو بار کو سنبھال رہے تھے۔ خالد حسین یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویشن کا طالب علم تھا۔ اسکول اور کالج کے دنوں وہ ہفتے کا انتظار کرتا رہتا تھا۔ کہ کب سنیچر آجائے اور وہ شہر کے اس کنکریٹ جنگل سے بھاگ کر اپنے گائوں چلا جائے ۔ جہاں وہ سرسبز جنگلوں کی تازہ تازہ ہوا میں سانسیں لے سکے۔ لیکن جب وہ یونیورسٹی پہنچا تو پہلے ہی دن سے یہاں اس کا دل لگ گیا۔ یونیورسٹی ڈل جھیل کے کنارے پر واقع تھی۔ ڈل جھیل میں دن بھر رنگ برنگی کشتیاں تیرتی رہتی تھیں۔ ساتھ ہی قریب میں حضرت بل کی زیارت عالیہ ، جہاں سے خوش کن اذان اور درود و اذکار سے دل کو راحت اور روح کو سکون مل جاتا تھا۔
یونیورسٹی پہنچتے پہنچتے خالد حسین اچھا شاعر اور کہانی کار بن چکا تھا۔ یہاں کے ہر ادبی پروگرام میں اس کی شرکت ناگزیر مانی جاتی تھی۔ چونکہ وہ امیر باپ کا بیٹا تھا اس لئے اس کے پاس پیسوں کی کوئی کمی بھی نہیں تھی۔ دوستوں کے ساتھ شکارے میں بیٹھ کر ڈل جھیل کی سیرکرنا اس کا معمول تھا۔ شہر کی تمام خوبصورت جگہوں کے علاوہ وادی کے لگ بھگ سارے سیاحتی مقامات کی سیر بھی کر ڈالی۔پڑھائی کے دوران ہی خالد حسین اور شافیعہ کی محبت پروان چڑھتی گئی ۔ شافیعہ محبت میں قسمیں کھانے اور وعدہ وفا کرنے کی قائل نہیں تھی۔ اسے شادی کی جلدی تھی۔ وہ کسی بھی طرح خالد حسین سے جلد از جلد شادی کرنا چاہتی تھی۔ اسے ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی دوسری لڑکی خالد حسین کو اڑا کر نہ لے جائے ۔ وہ یار دوستی ،پیار محبت میں زیادہ بھروسہ نہیں رکھتی اسلئے وہ خالد پر بھی شک کرتی تھی کہ کہیں وہ خود ہی کسی اور کا نہ ہوجائے اور وہ دیکھتی رہ جائے ۔ وہ کسی بھی قیمت پر خالد حسین کو حاصل کرنا چاہتی تھی۔ لیکن خالد حسین شادی سے گھبرا رہا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اس کے گھر والے اس رشتے کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے اور نہ ہی خود اس میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اپنے باپ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا۔۔ ۔ شافیعہ تو چاہتی ہی یہی تھی کہ خالد حسین اپنے گھر سے کٹ جائے ۔ اپنے گائوں کو بھول جائے ۔ بس اسی کا ہوکر یہیں شہر میں بس جائے ۔ اور وہی ہوا بھی ۔ دونوں نے کورٹ میں شادی کردی ۔ خالد حسین کے چند ایک دوست اور شافیعہ کے لگ بھگ سارے گھر والے شادی میں موجود تھے۔ شافیعہ کے گھر والے غریب لوگ تھے اور کئی فیملیز کی شراکت داری میں ایک ہی مکان میں رہتے تھے ۔ اس لئے ان کے پاس اتنی جگہ نہیں تھی جہاں خالد حسین اور شافیعہ بھی سما سکتے تھے۔ ویسے بھی خالدحسین ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے ایک کرائے کے گھر میں رہنے لگے ۔ کچھ مہینوں تک گھر سے لائے پیسوں پر گزارہ چلتا رہا اور بلا آخر جمع پونجھی ختم ۔ اب جینے کے لالے پڑ گئے۔ نوکری کی تلاش میں در در بھٹکنے کے بعد خالد حسین نے ایک اخبار میں نوکری کرنا شروع کرلی ۔ وہ دال روٹی (ہاک بتہ) کے چکر میں الجھتا رہا اور شافیعہ پریشانیوں سے دور پڑھائی میں مگن رہی۔ جب تک اس نے کے اے ایس (KAS) کا ایگزام پاس کیا تب تک خالد حسین بھی اخبار لائن اور ادبی سرکل میں اچھا نام پیدا کر چکا تھا۔
’’ مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم کبھی اہرہ بل کے آبشار کا نظارہ کرنے جاتے تھے ۔ آبشار کا شفاف پانی اوپر سے جھرنے میں گرجاتا تھا۔ تو پانی جیسے ایک ساتھ ہزاروں گھنگرو بجا کر چھن چھن بہتا جاتاتھا۔ سورج کی رنگین کرنیں بہتے پانی پر جلترنگ بجانے کے موڑ پر رہتی تھیں۔۔۔ میرے ہاتھ میں قلم ہوتا تھا اور میں نہ جانے کیا کیا صفحہ قرطاس پر بکھیرتا جاتا تھا ۔ اور تم ۔۔۔تم تو قدرت کی خوبصورتی کے بجائے آس پاس کی رواں دواں بھیڑ پسند کرتی تھی ۔ ۔۔۔۔
کھبی پہلگام کے نالہ لیدر میں کسی بڑے پتھرپر بیٹھ کرپیروں کو پانی میں ڈالے ابھرتی ڈوبتی لہروں کا نظارہ کرتے تھے۔ لیدر سے اٹھتے موتی جیسے پانی کے قطرے اچھل اچھل کر ہمیں اپنی شگفتگی میں مدہوش ہونے کی ترغیب دیتے تھے لیکن تم اکتاہٹ کی شکار ہو جاتی تھیں۔ تم پہلگام کے بازاروں کی شیدائی تھی جہاں جھلمل کرتی روشنیوں میں دیس پردیس سے آئے ہوئے خوبصورت اور خوشنما چہروں کی چمک دھمک دل موہ لیتی تھی ۔۔۔۔۔کبھی اچھہ بل کے فواروں کے پاس سے گزر کر ویری ناگ میں مغلوں کے شوق کو دادِ تحسین پیش کرتے تھے۔ شالیمار سے لے کر جھیل ڈل کے نرم سینے پر مچلتی ننھی سی کشتی میں بیٹھ کر چار چناری کی نرم چھائوں میں پہنچ جاتے تھے۔ جہاں بیٹھ کر میںتم سے شیکسپئر ، سعادت حسن منٹو ، چیخوف ، برناڑ شاہ ۔۔۔۔ لقمان سے لیکر نیوٹن تک اور لیلیٰ مجنوں سے لے کر رومیو جولیٹ تک کی زندگی اور فن پر بحث کرنا چاہتا تھا۔مگرتمہیں ادب سے نفرت تھی ، تم ہمیشہ مجھے طعنے دیتی تھیں۔
ـ ـ’’ کیوں اِن خوبصورت لمحات کو بے تکی باتوں میں ضائع کرتے ہیں آپ ۔ ان صحرائوں میں بیٹھ کر کیا ملتا ہے آپ کو؟ ‘‘
ـ’’ سکون ـ‘‘ میرا جواب بڑا مختصر ہوتا تھا ، لیکن تم مطمئن نہیں ہوتی تھیں۔ جانے کیا چاہتی تھیں۔ جب بھی میں نے تم سے کبھی پوچھا تو پھٹ سے جواب آجاتا تھا۔
’’ صرف آپ کو ۔۔۔‘‘
لیکن جانے کیوں تمہاری باتیں میرے کانوں میں رس گھولنے کا مزا نہیں دیتی تھیں۔ میرے دل کے تار جھنجھنا کیوں نہیں اٹھتے تھے۔ مجھے تمہاری قربت میں کبھی محبت بھی دکھائی نہ دی۔ حالانکہ تم جتنا میرے قریب آرہی تھی میں اتنا ہی دور جانا چاہتا تھا۔ کچھ تو تھا تمہارے اور میرے بیچ ۔۔۔ شاید شک ۔۔۔ جو تمہارے دل میں میرے خلاف آتش فشان بنتا جا رہا تھا۔
وقت گزرتا گیا۔ موسموںنے رنگوں پر رنگ چڑھا دیئے ، پودے تناور درخت بن گئے، پہلگام کی لیدر میںپیوست اُن بڑے بڑے پتھروں کو( جن پر کبھی ہم بیٹھتے تھے) کسی نے اپنے محبوب کے ساتھ کیمرے میں اُتار دیا اور ہمیشہ کے لئے البم میں قید کرکے اپنے بیڈ روم کو سجادیا ، کسی نے جھیل ڈل کی ڈولتی کشتی پر دو فلمی مکالمے کیا سنا دیئے کہ کسی معصوم کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے اندھیرے غاروں میں دھکیل دیا ۔ مکر و فریب کے بعد کسی نے اپنی محبوبہ کو دھمکا کر اہرہ بل کی نرم لہروں میں جان دینے پر مجبور کر دیا تو کہیں ایک دوست نے دوسرے دوست کو میٹھے بول بولتے ہوئے سینے میں خنجر گھونپ دیا اور اسے گلمرگ کے کسی پہاڑی غار میں ابدی نیند سُلا دیا ۔
جانے خالد حسین شافیعہ سے چاہتا کیا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ شافیعہ سے شادی کرکے اس نے سب سے بڑی غلطی کی تھی۔ اسے شافیعہ کی آفیسری ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ بلکہ وہ اس کی نوکری کو اپنا دشمن سمجھنے لگا تھا۔ حالانکہ پہلے پہل وہ شافیعہ کی بہت مدد کر تارہتاتھا۔ خاص کر (KAS)کے اے ایس ایگزامز کے دوران وہ شافیعہ کو کوئی کام کرنے نہیں دیتا تھا۔ بلکہ اس کی تیاری میںاس کی ہر چیز کا خیال خود رکھتا تھا۔ اس کی کامیابی کے دن بہت پیار دکھایا۔ اپنے ہاتھوں سے اسے مٹھائی کھلائی اور ایک بڑے ہوٹل میں ڈنر کرایا۔شکارا میں بیٹھ کر پورے ڈل جھیل کی سیر کرائی۔ لیکن جانے اب یہ کیا ہو گیا تھا۔
’’ میں مانتا ہوں کہ میرا فیصلہ غلط تھا۔ ہم جہلم کے دو کنارے تھے جن کا ملنا ناممکن تھا لیکن تمہاری ضد تھی کہ ہمارا ملن ضروری ہے اوروہ میرا احساس ہی تھا جو تمہاری ضد کے آگے سرنگوں ہوگیا تھا۔‘‘
شافیعہ کے ذہن و دل میں آندھیاں چل رہی تھیں ۔وہ برداشت کے دونوں ہاتھوں سے اپنے اندر کے طوفان کو جکڑ کر رکھ رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھاکہ اگر غلطی سے بھی اُس نے اظہار کیا تو یہ طوفان اس کی ساری گھر گرہستی کو تنکوں کی طرح بکھیراکر رکھ دے گی۔اس لئے اُف تک نہیں کر پاتی تھی۔ ایک طرف وہ خالد حسین کی بے رخی سے پریشان تھی، دوسری طرف اس کے کندھوں پر نوکری کا بوجھ تھا اور تیسری طرف اسے اپنے غریب ماں باپ کی فکر تھی جو مشکل ترین وقت سے گزر رہے تھے۔ وہ اندر سے ٹوٹ رہی تھی۔ بکھر رہی تھی لیکن ایک بے بس مسکراہٹ تھی جو اس نے گھر اور دفتر کے اندر اپنے ہونٹوں پر ثبت کرکے چھوڑ رکھی تھی۔ وہ خاموشی سے خالد حسین کے زہریلے نشتر اپنے سینے پر لے لیتی تھی ۔ اسے بتائے بغیر کہ سینے کے اندر اس کا دل کتنا چھلنی ہو رہا ہے۔
’’ تم حاکم ہوگئی اور میں مزدور کا مزدور ہی رہا۔ میں تمہاری کامیابیوں کی وجہ سے تمہیں گھمنڈی اور مغرور سمجھتا رہا لیکن تم مجھے کامیاب آدمی سمجھتی رہی۔ میرے اثر و رسوخ سے جلتی رہیں۔ میرے دوستوں سے تمہیں حسد تھا ۔ شک ناسور کی طری ہمارے بیچ پنپتا گیا لیکن پھر بھی ہم ایک ساتھ جئے جا رہے ہیں۔‘‘
عجیب جوڑی ۔۔۔ آپ سندر میں کوڑھی ۔۔۔ ھاھاھا ۔۔۔ کیا محاورا ہوگیا۔
خالد حسین کا قہقہہ تیر کی طرح سیدھا شافیعہ کے دل پر لگا۔ لیکن اس کے ہونٹوں پر بے بسی کی مسکراہٹ پھیل گئی جسے دیکھ کر خالد حسین اور زیادہ تلملا اٹھا۔
’’ بس خالد بس ۔۔۔ اس سے زیاد سہہ نہیں پائوں گی۔ ۔۔ میں سمجھ گئی کہ مجھے خود ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ مجھے دو میں سے ایک کو چننا ہے ۔ نوکری یا آپ۔‘‘
خالدحسین سنجیدہ ہوگیا۔ اور ہکا بکا ہوکر اسے دیکھنے لگا ۔
’’ میں نوکری چھوڑ دیتی ہوں ۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ میری نوکری چھوڑنے سے میرے غریب ماں باپ مشکل میں پڑجائیں گی۔ میری ماں جو دمہ کی مریضہ ہے، اس کی دوائی نہیں لا پائوں گی اور میرا ڈیڈی جس کا کڈنی فیلئر ہوچکاہے، اس کی ڈائیلسس نہیں کر واپائوں گی ۔ لیکن میں آپ کے بغیر بھی جی نہیں پائوں گی ۔نہیں جی پائوں گی۔ میں نے دل سے آپ کو چاہا ہے۔ ‘‘ شافیعہ کی آنکھوں میں ا ٓنسوں کا سیلاب امڈ آیا جنہیں سالوں سے اس نے روک کے رکھا تھا۔ خالد حسین نے قلم کو رائٹنگ ٹیبل پر دے مارا اورکرسی سے اٹھ کھڑا ہو ا۔ شافیعہ کو سینے سے لگایا اور رندھی ہوئی آواز میں صرف اتنا ہی کہہ پایا ۔
’’ نا ۔۔۔ نا پگلی نا۔ ۔۔ ‘‘
’’ میں مر جائوں گی خالد ۔ مجھے آپ کے بغیر نہیں جینا‘‘
ایسا نہیں بولتے ۔ تم تو بہادر ہو۔میں ہی کمزور آدمی ہوں۔ دراصل میں احساس برتری کا شکار ہوں اور تم جانتی ہو نا کہ احساس برتری اصل میں کیا ہوتا ہے ۔۔۔ احساس کمتری سے بھی نچلا درجہ ۔۔۔ کم تر۔۔۔ بس وہی کمتر انسان ہوں میں‘‘۔
اس کی انگلیاں بڑی تیزی کے ساتھ شافیعہ کے بالوں کو سہلا رہی تھیں اور شافیعہ کی روتے روتے ہچکی بندھ چکی تھی ۔

���
اننت ناگ ،کشمیر،موبائل نمبر9419734234