مسلمانوں کو اللہ تعالی نے اپنی خوشیوں کے اظہار کیلئے عید الفطر اورعید الاضحی سے نوازا ہے۔عیدالفطر شوال کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے جو رمضان میں کی گئی عبادتوں کا انعام ہے جبکہ عیدالاضحی حضرت ابراہیم ؑ کی سنّت کی پیروی کیلئے ذو الحجہ کو منائی جاتی ہے۔اس عید سے قبل جانے کتنی ہی عیدیں ہم اپنی خواہشات کے مطابق منا چکے ہیں، لیکن یہ عیدبالکل ہی الگ ہے۔لاک ڈائون کے سبب ہم نے جو وقت گزرا اور گزار رہے ہیں، وہ کسی کے وہم و گمان اور خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔
اللہ تعالیٰ نے خوشی کے موقع پر ہر جائز اظہار کو پسند فرمایا ہے ۔عید کی خوشیاں ضرور منائیں، تیاریاں بھی خوب کریں لیکن یہ دھیان رکھنا ضروری ہے کہ جہاں اللہ نے فضول خرچی کی ممانعت کی ہے وہیں نمود و نمائش کو بھی ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے کیونکہ یہ معاشرے میں محرومیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں۔جو خرچ بھی نمودونمائش، نفس کی تسکین، ذوق و شوق کی تکمیل یا سماج میں خود کو بڑا ثابت کرنے کیلئے کیاجائے وہ اسراف اور فضول خرچی کی تعریف میں آتاہے۔اسراف اور نمود و نمائش سے بچنے کی اتنی سخت تاکید کی گئی کہ فضول خرچ کو شیطان کے بھائی کی مانند قرار دیا گیا لیکن ہمیں اس وقت یہ احکام یاد ہی نہیں رہتے جب رمضان کے روزوں کے تحفے کی وصولی کا وقت قریب آرہا ہوتا ہے، اس وقت یہ امتحان ہوتا ہے کہ آیا ہمارے یہ روزے و عبادتیں ہمارے نفس کا تزکیہ کرنے میں کامیاب ہوئیں یا ہم اب بھی نفسانی خواہشات کا شکار ہیں ؟
اس بات کا خیال رکھا جائے کہ دنیا کے بڑے بڑے طاقتو راور دولت مند ممالک نے کوروناوائرس کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ۔ اس وائرس نے سائنس اور طب کے محققین کو بے بس کر ڈالا۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس کا شکار بنتے چلے گئے۔ کروڑوں انسان، مہینوں کیلئے محصور ہو کر رہ گئے، جن میں ہم بھی شامل ہیں۔ تقریباً سب نے اس صورتحال کے ہاتھوں بڑے بڑے مسائل کا سامنا کیا، لیکن حقیقتاًغریب اور محنت کش طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ یومیہ اجرت پر اپنے گھر کا چولھا جلانے والوں اور کم آمدنی والوں کیلئے یہ سب کچھ کسی بھیانک عذاب سے کم نہیں۔ ایسے میں ہم کس طرح عید کی بھرپور خوشیاں منائیں؟ یہ وقت کا سب سے اہم سوال ہے اور تاریخ اس کے جواب کی منتظر ہے۔
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہم سب اپنے ہی گھروں میں اپنی حفاظت کی خاطر خود کو’ نظربند‘کرلیں گے۔ ہماری تمام درسگاہوں اور عبادت گاہوں کے دروازے ہم پر بند ہو جائیں گے۔ہم خود اپنی دکانوں، کارخانوں اور دفاتر پر مہینوں کیلئے تالے ڈال دیں گے۔گاڑیوں کے پہیے جام ہوجائیں گے اور جہاز تک اْڑان بھرنا بھول جائیں گے۔نظامِ حیات مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔
انسان کی نجی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی ، خوشی کا ماحول ہو یا غمی کی فضا ، تجارت کا میدان ہو یا عبادات کی چار دیواری ، ملکی مسائل ہوں یا خانہ داری امور ، داخلی سیاست ہویا خارجی سیاست یا دیگر ضروریات اور معاملات ، اسلام انسان کو افراط وتفریط سے بچاتا ہے۔اسلام انسان کو زندگی گذارنے کا نہایت آسان راستہ سکھاتا ہے، اسلام انسان کو خود دار اور کفایت شعار بناتا ہے، غفلت اور آوارہ گردی سے اس کی حفاظت کرتا ہے، بخل وبزدلی سے اس کو دور رکھتا ہے اور اسراف وتبذیر سے اس کو منع کرتا ہے۔
فضول خرچی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ایک غیرمحتاط انسان مختلف طریقوں اور مختلف مواقع پر اس بری عادت کو دہراتا رہتا ہے، جس میں خاص طور سے کھانے پینے، خوشی منانے اور مختلف مذہبی و سماجی تقریبات شامل ہیں۔انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی ہر جگہ مال و دولت کو اپنی پسند اورخواہش و تمنا کے مطابق خرچ کیاجانے لگا ہے اور معاشرہ شتر بے مہار کی طرح دولت لٹانے میں مصروف ہے۔کچھ لوگوں کایہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی کو دولت سے نوازا ہے تو اسے استعمال کرنے میں اور خاص کر اپنی خوشیوں کو دوبالاکرنے اور اپنے ارمانوںاورآرزئوںکی تکمیل کرنے میں کیا حرج ہے؟یقینا مال و دولت اللہ کی نعمت ہے، جس کے حاصل ہونے پر ہر شخص کو شکر ادا کرنا چاہئے لیکن اللہ تعالیٰ نے دولت عطا کرکے کسی فرد کو یہ کامل اختیار نہیں دیاہے کہ وہ جیسے چاہے اسے خرچ کرے۔آج مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے لیکن اہل ثروت مصنوعی نمائش،دکھاوے کیلئے بے دریغ خرچ کرنا باعث افتخار گردانتے ہیں۔یہ روئے انسانوں میں انتہا درجے کے ہیجان انگیز جذبات پیدا کرتے ہیں۔
ہمارے پیارے نبی ؐ کا فرمان ہے ’’تمہارے پاس تمہاری ضرورت سے زیادہ جو کچھ ہے، وہ تمہارے پاس مستحقین کی امانت ہے‘‘۔توہمیں اس بار یہ امانت ان کے حق داروں تک پہنچانی ہوگی۔ مدد کے نام پر نہیں، تعاون سمجھ کر۔ دنیا کودکھانے کیلئے نہیں، اپنے ربّ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے۔تصویریں کھنچواکر، ویڈیو بنوا کر فیس بک پر اسٹیٹس لگانے کی نیّت سے نہیں، ترس کھا کر نہیں، ان کے درد کو اپنا درد محسوس کر کے ہمیں اْن کا حق ان تک پہنچانا ہوگا۔
اس بات کا انتظار کئے بغیر کہ کوئی آکر ہمارا دروازہ کھٹکھٹائے، ہمیں خود ان کے دَر پر دستک دینا ہوگی۔ خود کو اور اپنے پیاروں کو خوش کرنے کیلئے تو ہم بہت سی عیدیں منا چکے ہیں۔ اس بار عید کو اپنے ربّ کی خوشنودی کیلئے وقف کردیں۔یہی وقت کے سوال کا بہترین جواب ہوگا۔
ایک مشہور واقعہ ہے کہ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد عربیؐ عید کی نماز ادا کرکے گھر واپس جارہے تھے کہ راستے میں ایک بچہ ملا، جو رو رہا تھا۔ حضورؐنے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ آج عید ہے اور سب بچوں نے نئے کپڑے پہن رکھے ہیں، میں یتیم ہوں مجھے کسی نے نئے کپڑے لے کر نہیں دئے۔ نبی کریمؐ بچے کی یہ بات سن کر آبدیدہ ہوئے اور انتہائی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنے گھر لے جاکر نئے کپڑے پہنائے۔
عیدالفطر صرف جشن ہی نہیں بلکہ یومِ احتساب بھی ہے۔ کیا آج ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو عید کے دن گلیوں اور سڑکوں پہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے محرومی کا شکار بچوں کو نئے کپڑے پہناتے ہوں ؟ کسی نادار و بے کس بچے کے آنسو پونچھتے ہوں؟ اپنی عید کی تیاریوں میں ان غریبوں و ناداروں کو بھی یاد رکھتے ہوں جو سارا سال نئے کپڑے پہننے کے لیے ترس جاتے ہیں؟
اپنے سکولی دور کی کسی اردو کتاب کا یہ سبق یاد آرہا ہے ، جس میں ایک معصوم بچہ عید کیلئے خاص طور پر بنوائی گئی اپنی نئی پوشاک، والدین کو بتائے بغیر اپنے غریب دوست کو دے دیتا ہے۔ جب عید پروالدین اُ س سے نئی پوشاک نہ پہننے کی وجہ پوچھتے ہیں، تو وہ معصومیت سے جواب دیتاہے’’بابا! میرے پاس تو پہلے ہی کئی پوشاکیں ہیں، مگر میرے دوست کے پاس تو کچھ نہیں اور نہ ہی اْس کے والدین اْسے خرید کر دے سکتے ہیں،لہٰذا میں اْسے اپنی نئی پوشاک دے آیا ہوں‘‘۔یہ سن کر والدین خوش ہوکر اْسے شاباشی دیتے ہیں۔لگتا ہے کہ ہمیں آج پھر سے وہ بھولا سبق یاد کرنے کی ضرورت ہے۔حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ کتاب کے اس صفحے پر پڑی دھول جھاڑ کر ایک بار پھرسے اسے دہرایا جائے کہ یہ عید اس سے قبل آنے والی عیدوں سے بالکل مختلف ہے۔ کورونا کے خوف اور تباہ کاریوں نے دنیا بھر کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔ دنیا بھرمیں حالات اور معمولات بدل کر رہ گئے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اس بار ہم سب بھی اپنا اپنا انداز بدلیں اور وہ طرزِعمل اپنائیں، جو وقت کی ضرورت ہے۔