اسرار نازکی
عیدی کا جنم 3سال پہلے اسی عید الفطر پہ ہوا تھا یہی وجہ تھی کہ سب اسے عیدی عیدی بلاتے تھے۔آنے والی عید میں بس دو یا تین دن باقی رہ گئے تھے۔ہر طرف عید کی تیاریوں کی گہما گہمی دکھائی دے رہی تھی۔ رضوان اپنی بیوی کو لے کر اسپتال سے واپس آ رہا تھاکیونکہ چند ایک روز سے اُسکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔عیدی بھی اُنکے ساتھ تھی ا ور چُپ چاپ رضوان کی اُنگلی تھامے چل رہی تھی لیکن اسکی معصوم نظریں لگاتار سڑک کے کنارے بیٹھے کھلونے والے پر ٹکی تھیں۔گھر میں بار بار پیسے کم ہونے کا ذکر سننے کی وجہ سے اُس معصوم نے سمجھ لیا تھا کہ بابا کے لئے ہر چیز خریدنا مشکل ہے۔معصوم سے دل پر پتھر رکھ کر وہ نظروں سے ہی اپنے ارمان پورا کرتے گئی۔وہ تب تک اُس کھلونے والے کو دیکھتی رہی جب تک کہ وہ انکی نظروں سے اوجھل نہ ہوا۔رضوان کی نظریں بیشک سڑک پر تھیں لیکن اسکا پورا دھیان عیدی پر تھا۔وہ لمحے رضوان کے لیے قیامت سے کم نہ تھے۔رضوان مزدوری کر کے مشکل سے اپنا گھر چلا رہا تھالیکن اسکا زیادہ تر پیسہ اسکی بیوی کے علاج میں جایا کرتا تھا جو کہ اکثر بیمار رہتی تھی۔رضوان کی حالت رضوان کے سوا کوئی اور نہیں جانتا تھالیکن اُسے اللہ پر پورا بھروسہ تھا۔وہ ایک خودار انسان تھا۔اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری تھی لیکن عیدی کے آنے کے بعد وہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ اپنے ارمانوں کا گلہ گھونٹ کر وہ گھر کی ضرورتیں پوری کرتا رہا اور کسی اُمید کے سہارے آگے بڑھتا رہا۔ نا جانے کی خیالوں میں گُم وہ گھر پہنچا۔گھر پہنچتے ہی اس نے اپنے دروازے پر دو آدمیوں کو دیکھا جن کے ہاتھ میں رسید بُک تھا ۔ رضوان نے پوچھا ، کیا ہے ؟ ان میں سے ایک نے کہا …جناب۔۔۔صدقہ ذکوٰۃجمع کر رہے ہیں۔ آپ بھی کچھ مدد کریں۔
���
موبائل نمبر؛7889714415