بلال فرقانی
سرینگر//پولیس نے پیر کو اس وقت یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کا احتجاجی مارچ ناکام بنا دیا جب انہوں نے اپنی مستقلی اور گزشتہ کئی ماہ سے زیر التوا اجرتوں کی ادائیگی کیلئے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی۔ مظاہرے میں شرکت کرنے والے ڈیلی ویجروںنے اپنی زیر التوا تنخواہوں کی ادائیگی اور روزگار کی باقاعدگی کے مطالبات کیے۔ مظاہرین نے واٹر ورکس دفتر سرینگر سے مارچ کا آغاز کیا لیکن پولیس نے دفتر کا مرکزی دروازہ بند کیا اور آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اس دوران کارکنان نے اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے اور حکومت سے فوری انصاف کی اپیل کی۔احتجاجی ملازمین اور پولیس کے درمیان مزاحمت بھی ہوئی جس سے کچھ وقفے کیلئے کھلبلی کا ماحول پیدا ہوا۔جموں کشمیر کیجول،ڈیلی ویجرس فورم کے چیئرمین سجاد احمد پرے نے کہا کہ وہ کوئی کچھ زیادہ نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ مستقلی کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ وہ برسوں سے عارضی طور پر کام کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بجٹ سیشن کے دوران ان کے مسائل کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کی گئی بلکہ نظر انداز کیا گیا۔ پرے نے کہا’’ہم برسوں سے بغیر کسی تحفظ ملازمت اور مناسب اجرت کے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے اہل خانہ فاقہ کشی کا شکار ہیں اور حکومت ہمارے بنیادی مطالبات کو نظر انداز کر رہی ہے ‘‘۔ ان کا کہنا تھا ’’ہم اپنی خدمات کی مستقلی اور زیر التوا تنخواہوں کی فوری ادائیگی چاہتے ہیں‘‘۔سجاد پرے نے کہا’’ ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرے، کم از کم اجرت ایکٹ کو نافذ کیا جائے اور تمام یومیہ اجرت کارکنان کی باقاعدگی کے لیے فوری احکام جاری کرے‘‘۔ انہوں نے کہا’’خالی وعدوں کا وقت گزر چکا ہے،حکومت ہزاروں محنت کشوں کا استحصال جاری نہیں رکھ سکتی، ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں، اور ہمیں یہ فوراً چاہئے۔ اگر حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی تو ہمارے پاس اس تحریک کو مزید تیز کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا‘‘۔انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر ان کے مطالبات کو پورا نہیں کیا گیا تو جمعرات کو وہ سیکریٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دیں گے۔ سجاد پرے نے کہا کہ لداخ بھی کل تک اسی خطے کا حصہ تھا اور2019کے بعد وہاں14ہزار عارضی ملازمین کو مستقل کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بھی 2019میں کہہ چکے ہیںکہ عارضی ملازمین کے مسائل کو حل کیا جائے گا مگر وہ وعدے بھی وفا نہ ہوسکے۔سجاد پرے نے کہا’’ 1994کے بعد تقریباً 7000 نئی واٹر سپلائی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں اور جل جیون مشن کے تحت قریب2ہزار نئی سکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں، لیکن کوئی بھی نیا ملازم بھرتی نہیںکیا گیا ‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر ٹیوب ویل کو چلانے کے لیے کم از کم 6 ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یومیہ اجرت کارکنوں پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ انہیں باقاعدہ کیا جائے اور مزید عملہ بھرتی کیا جائے۔