الف عاجز اعجاز
عندلیب کا دل بہت بھاری تھا۔ آج اسے اپنے والدین کے گھر واپس آنا پڑا تھا، لیکن اس کی واپسی کسی خوشی کے موقع پر نہیں تھی۔ اس کی شادی کے چار سال بعد، اس کی زندگی کی گاڑی رک گئی تھی، اور اس کا شوہر ابراہیم اس سے طلاق لینا چاہتا تھا۔ عندلیب کے ذہن میں بے شمار خیالات گردش کر رہے تھے۔
چار سال پہلے کی بات تھی جب عندلیب اور ابراہیم کی شادی ہوئی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ ابراہیم نے ہمیشہ عندلیب کا خیال رکھا اور عندلیب نے بھی اپنی پوری کوشش کی کہ اس کے شوہر اور گھر کی ہر ضرورت پوری کرے۔ ان کی محبت کی کہانیاں ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے مثال تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، ان کے درمیان اختلافات پیدا ہونے لگے۔ معمولی باتوں پر جھگڑے بڑھتے گئے اور ان کا رشتہ کڑواہٹ کی نذر ہو گیا۔
عندلیب اپنے کمرے میں بیٹھی ماضی کی یادوں میں کھو گئی۔ وہ یاد کر رہی تھی کہ جب پہلی بار ابراہیم نے اس پر غصہ کیا تھا۔ وہ بات معمولی تھی، لیکن ابراہیم کی تیز آواز اور غصے بھرے الفاظ نے اسے چپ کروا دیا تھا۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے جھگڑوں نے ان کے دلوں میں فاصلہ پیدا کر دیا۔ عندلیب نے بہت کوشش کی کہ وہ ابراہیم کے دل کی بات سمجھ سکے، لیکن ہر بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک رات جب ابراہیم نے اسے طلاق دینے کا فیصلہ سنایا تو عندلیب کو یقین نہیں آیا۔ “یہ کیسے ممکن ہے؟” اس نے خود سے سوال کیا۔ “ہم نے تو ہمیشہ ساتھ رہنے کی قسمیں کھائی تھیں۔” لیکن ابراہیم نے کہا تھا کہ وہ اسے خوش نہیں رکھ سکتی اور ان کے درمیان محبت ختم ہو گئی ہے۔ عندلیب نے بہت کوشش کی کہ وہ اسے منا لے لیکن ابراہیم کے دل میں جو فیصلہ ہو چکا تھا، وہ پتھر کی طرح اٹل تھا۔
طلاق کے بعد عندلیب کو شدید ذہنی اور جذباتی دھچکا لگا۔ اس نے اپنی زندگی کے دوبارہ شروع ہونے کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس کے والدین نے اسے سنبھالا دیا، لیکن معاشرتی دباؤ اور لوگوں کی باتیں اسے ہر روز تکلیف دیتی رہیں۔ “یہ عندلیب ہے، اسے تو ابراہیم نے طلاق دی تھی۔” لوگوں کی باتیں اس کے دل کو چھلنی کر دیتی تھیں۔
عندلیب نے ایک دن اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ ہار نہیں مانے گی۔ اس نے دوبارہ پڑھائی شروع کی اور ایک سکول میں ٹیچر بن گئی۔ اس نے بچوں کے ساتھ وقت گزار کر اپنے دل کی خالی جگہ کو بھرنے کی کوشش کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ، اس نے خود کو مضبوط بنایا اور اپنی نئی زندگی میں خوشیاں ڈھونڈنے لگی۔
اس کے والدین، جو شروع میں اس کی حالت دیکھ کر پریشان تھے، اب اس کی ہمت اور حوصلے پر فخر کرنے لگے۔ عندلیب نے بچوں کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی شروعات کی۔ وہ بچوں کو پڑھاتے ہوئے، ان کے معصوم سوالات کا جواب دیتے ہوئے، اپنی زندگی کی کھوئی ہوئی خوشیاں دوبارہ پانے لگی۔
عندلیب نے یہ سیکھا کہ زندگی کبھی کبھی آزمائشوں سے گزرتی ہے، لیکن ہمت اور حوصلے سے ان آزمائشوں کا سامنا کرنا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے نئے سفر کو قبول کیا اور معاشرتی دباؤ کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی پہچان بنائی۔ عندلیب کا یہ سفر ایک مثال ہے کہ مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد بھی انسان اپنے آپ کو دوبارہ کھڑا کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کو نئے سرے سے جینے کا حوصلہ پا سکتا ہے۔
ایک دن، عندلیب اپنے اسکول کے کوریڈور میں چل رہی تھی جب اس کی نظر ایک بچے پر پڑی جو رو رہا تھا۔ عندلیب اس کے پاس گئی اور نرمی سے پوچھا، “کیا ہوا؟ کیوں رو رہے ہو؟”
بچے نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، “میرے دوست نے میرا کھلونا توڑ دیا۔”
عندلیب نے مسکراتے ہوئے کہا، “کوئی بات نہیں، کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن ہم انہیں دوبارہ جوڑ سکتے ہیں۔ جیسے میں نے اپنی زندگی کو دوبارہ جوڑا ہے۔”
بچے نے حیرت سے عندلیب کو دیکھا اور پھر مسکرا دیا۔ عندلیب نے اسے گلے لگا لیا اور سوچا، “زندگی کے کھلونے بھی ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن ہمیں ہمت اور حوصلے سے انہیں دوبارہ جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”
���
[email protected]