طارق شبنم کا افسانوی مجموعہ بے سمت قافلے

زاہد ظفر

 

مصنف : طارق شبنم
قیمت: 450
طباعت: جی ۔این ۔کے پرنٹرس ،دہلی۔
صفحات: 282
طارق شبنم کئی برسوں سے افسانے لکھ رہے ہیں اور بطور افسانہ نگار اپنی شناخت قائم کرنے میں نظرآتے ہیں۔جموں وکشمیر کے چند اہم معاصر افسانہ نگاروں میں طارق شبنم کا نام بھی شامل ہے۔ طارق شبنم نے اپنا ادبی سفر بڑی ہی سادگی اور سنجیدگی سے آگے بڑھایا۔ان کی سب سے بڑی ادبی خوبی قصّہ گوئی اور کہانی کی بنُت کا ہنر ہے ‘وہ اپنے افسانوں کی بنُت میں حد درجہ احتیاط سے کام لیتے ہیں اور زیادہ عجلت کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔طارق شبنم کا پہلا افسانوی مجموعہ’’گمشدہ دولت‘‘سال 2020ء میں منظرپرآیاتھا اور قارئین سے داد تحسین حاصل کیا تھا۔اب دوسرا مجموعہ ’’بے سمت قافلے ‘‘ شائع ہوکر آیا ہے۔طارق شبنم کے افسانے ان کے تخیل کی وسعت،مطالعہ کی کثرت اور مشاہدے کی گہرائی کا واضح ثبوت ہیں ۔ان کے ہر ایک افسانے میں تہہ داری اور معنویت اتنی گہری ہے جس سے اُ س کا فنی برتاو معیاری اور بلند نظر آتا ہے ۔ان کی کہانیاں سماجی شعور کابہترین حوالہ ہیں ،مصنف کی نظر معاشرے کے ہر پل بدلتے مزاج پر رہتی ہے جس کا براہ راست اثر ان کی کہانیوں پر بھی نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں بین الاقوامی شہرت یافتہ اردوافسانہ اور تنقید کے استاد ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری اپنے مضمون ’’گمشدہ دولت ۔۔۔تنقیدی جائزہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’افسانہ نگار نہ صرف کہانی بننے کے فن سے واقف بلکہ وہ اپنے مشاہدے اور کہیں کہیں تخیل کی بنیاد پر افسانہ تخلیق کرنے کے ہنر سے بھی آشنا ہیں۔‘‘
زیر تبصرہ افسانوی مجموعہ ’’ بے سمت قافلے ‘‘ کی ابتدا میں تین مضامین شامل ہیں‘ جن میں مصنف کا لکھا ہوا مضمون ’’ اپنی بات ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر فریدہ تبسم کا مضمون’’ بے سمت قافلے،تنقیدی جائزہ‘‘ اور غلام نبی کمار کا مضمون’’ طارق شبنم کی افسانوی تخلیقات‘‘ ہے۔ ان مضامین میں طارق شبنم کے تخلیقی سفر خاص کر افسانوی ادب کوبڑے خوبصورت انداز میں بیان کرنے کی بہترین کوشش کی گئی ہے ۔ کتاب کے بیک پیج پر ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کے تاثرات ہیں ،جن میں طارق شبنم کی افسانہ نگاری اور اس مجموعے سے متعلق معلومات افزا روشنی ڈالی گئی ہے۔
زیر تبصرہ مجموعہ میں چوالیس(44 )افسانے شامل ہیں ۔ان افسانوں کی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ہندوپاک کے معیاری اردو رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکے ہیں ۔
اس مجموعے میں شامل افسانوں کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر فریدہ تبسم رقم طراز ہیں :۔
’’ ان کے اکثر افسانے معنویاتی سطح پر کرب انگیز فکر میں ڈوبے نظر آتے ہیں ۔واقعات کا مشاہداتی اظہارچارہ گر کی تلاش جستجو میں ہے ۔ ہر کہانی میں امن وامان کی فکر انگیز ی نمایاں نظر آتی ہے ۔زندگی کا دامن تلخ غم سے بھرا ہوا ہے ۔ گویا گلچین نے خود گلشن اجاڑ دیا ہے ۔حالات حاضرہ کی کربناکی کو افسانوی پیکر عطا کرکے لائق تخلیق بنانے کی سعی کی گئی ہے ۔‘‘
زیر تبصرہ افسانوی مجموعہ کا پہلا افسانہ ’’ ٹھنڈا جہنم ‘‘ ہے ۔یہ افسانہ سیاچن گلیشرپر اپنی ڈیوٹی انجام دینے والے ان محافظوں پر لکھا گیا ہے جو منفی پچاس ڈگری میں اپنے ملک کے لوگوں کی حفاظت کر تے ہیں ۔اس افسانے میں مصنف نے ایک خاص بات کی طرف علامتی انداز میں اشارہ کیا ہے کہ کس طرح اہل زمین والوں نے نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے سے الگ رہنے کے لیے سرحدیںبنا لیںاور یہ سرحدیں طویل مدت سے جنگوں ،معاہدوں اور تنازعات کا باعث بنی ہوئی ہیں ۔یہ افسانہ جہاں تلاطم خیز حالات کی منظر کشی کرتا ہے وہیں قاری کے کرب کو اُجاگر بھی کرتا ہے کہ کس طرح سیاچن گلیشرکے اونچی پہاڑوں پر جہاں پرندے بھی پر نہیں مار سکتے ،جہاں وحشت اور ویرانی چھائی رہتی ہے ۔اسکی حفاظت پر کتنی بے پناہ دولت کا زیاں ہوتا ہے،بلکہ سیاست کی اس ضد اور اَنا میں نہ جانے کتنے معصوم محافظ ہر سال ان برف پوش پہاڑوں کے اندر دفن ہو جاتے ہیں ۔
طارق شبنم کے کئی افسانوں کو سمجھنے کے لئے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔افسانہ ’’ ڈینجر زون‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے ۔یہ افسانہ طارق شبنم کے پورے ا افسانوی ذخیرے میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس افسانے میں دوسری دنیا کی مخلوق( ایلین) کے ذریعے اہل زمین والوں کی ترقی کے کھوکھلے دعوے ،بھوک ،غربت ،انسان کی خود غرضی ،فتنے فساد اور خون ریزی وغیرہ جیسے واقعات سے آگاہی دی ہے کہ اہل زمین والے مسائل کی فروانی کے باوجود بھی ان تمام مشکلات کا شکار ہیں اور اس کے ذمہ دار بھی وہ خود ہیں ۔
جموں کشمیر کے سرحدی علاقوں کے لوگوں کے مسائل و مشکلات ہمیشہ سے اردو فکشن کا موضوع رہا ہے۔اس موضوع افسانہ ’’سرسوں کاپھول ‘‘ بھی تخلیق ہوا ہے ۔ اس افسانے میں مصنف نے ان لوگوں کی زندگی کے مختلف مسائل بیان کئے ہیں اور کس طرح یہ لوگ دونوں ملکوں کی آپسی تناو کا شکار بنے ہوئے ہیں ۔ آر پار کی فائرنگ میں نہ جانے کتنے لوگ جان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔مصنف نے اس افسانے میں باڈر پر رہنے والے دو جوان جو ڑوں ’’سلمان اور گل افروز ‘‘کی محبت کی ایک دلچسپ کہانی بیان کی کہ کس طرح ساری عمر ایک دوسری کو اپنا بنانے کی چاہت میںوہ خیالات کی ایک خوبصورت دنیا بسا لیتے ہیں جب وہ اپنے مشن میں کامیابی ہو نے کے قریب ہوتے ہیں تو اس وقت ان میں سے ایک کو اس پار کی اندھی گولی اپنا شکار بنالیتی ہے اور ان دونوں کے ارمان مٹی میں مل جاتے ہیں ۔افسانے کا یہ اقتباس مالاحظہ ہو:
’’ مائی سلمان کہاں ہے؟ وہ ٹھیک تو ہے نا ؟ ’’ تو ٹھیک ہے نا گل پتر ۔۔۔ماں نے اپنے چہرے سے آنسوں صاف کر کے اس کی بات ٹالتے ہوئے کہا ، کیوں کہ وہ اس کو یہ نہیں بتانا چاہتی کہ سرسوں کے پھول کو گواہ بنا کر سلمان اس کو بچاتے ہوئے خود گولہ باری کی زد میں آکر بری طرح سے زخمی ہو کر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے ‘‘۔
طارق شبنم کے یہاں متنوع موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں ایک طرف موجود دور کے انسان کی ہوس ،لالچ بے ایمانی ،دھوکہ دہی وغیرہ موضوعات کو پیش کیا گیاہے ‘وہیں دوسری طرف انسانیت کی چادر میں لپٹا انسان بھی ان کی کہانیوں کا ہیرورہا ہے ۔اس کی ایک بہترین مثال ہمیں ان کے ایک افسانے ’’ باباسائیں ‘‘ میں مل جاتی ہے ۔اس افسانے میں ایک بزرگ شخص کی کہانی بیان کی گئی ہے جو ہر کسی محتاج شخص کی مدد کرتا ہے لیکن خود وہ بہت غریب ہوتا ہے ۔اس کے باوجود بھی وہ جہاں سے جو کما کر لاتاہے دوسروں کو دے دیتاہے ۔ جوانی میں یہ بزرگ ایک بہترین فٹ بالر ہوتا ہے لیکن زندگی نے کب رخ بدلا پتا ہی نہیں چلا ۔ موجودہ دور میں انسان جتنا مال دار ہوتا جا رہا ہے اتنا ہی لالچی بھی لیکن کہیں نہ کہیں بابا سائیں جیسے لوگ آج بھی انسانیت کو زندہ رکھنے میں پیش پیش ہیں ۔؎
کتاب میں شامل ہر ایک افسانہ عمدہ موضوعات کی عکاسی کرتا ہے اور ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔تبصرہ کی طوالت کی وجہ سے ہر افسانے پر بات نہیں کی جاسکتی اس لیے قارئین کی پیاس کتاب کو حاصل کرنے کے بعد ہی بجھ سکتی ہے۔میرے خیال میں یہ افسانوی مجموعہ دور حاضر کے ہر ایک ادیب اور ادب سے جڑے ہوئے طالب علم کے کتب خانے کی زینت بننا چاہے۔
���
کیلر شوپیان کشمیر، موبائل نمبر؛9906700711