سبزار احمد بٹ
تاج الدین منہ میں سگار لئے لمبے لمبے کش لگا رہا تھا اور بیچ بیچ میں کاغذ کی پرچی کی طرف دیکھ رہا تھا، نہ جانے کس چیز کا حساب کر رہا تھا۔کاروبار بھی کافی پھیلا ہوا تھا ۔ اتنے میں شہناز اسکول سے آئی اور بیگ ایک طرف پھینکتے ہوئے اپنے پاپا سے چپک گئی ۔پاپا آپ کو اپنا پرامس (Promise)یاد ہے نا ۔پاپا آپ کو اپنا پرامس یاد ہے نا۔تاج الدین کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ ہاں ہاں بیٹا مجھے یاد ہے۔ آپ کو ایکسکرشن پر جانا ہے اور دس ہزار روپے چاہئیں۔جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس ہزار کا بنڈل شہناز کو دیا اور ماتھے پر بوسہ دیا۔دس ہزار روپے کا ملنا تھا کہ شہناز خوشی سے جھوم اٹھی اور باہر جانے لگی ، لیکن دروازے پر پہنچی ہی تھی کہ واپس کمرے میں داخل ہوئی۔ پاپا پاپا وہ کل والے انکل پھر آئے ہیں ۔
کون؟ ۔۔۔ تاج الدین چونک گیا۔
وہی جو کئی دنوں سے آپ سے پیسے مانگنے آتے ہیں ۔اس سے پہلے کہ تاج الدین کچھ اور کہتا۔۔
اسلام علیکم
سکندر بجھے ہوئے قدموں سے اندر داخل ہوااور سیدھے تاج الدین کے قدموں میں گر گیا۔سکندر کیا کر رہے ہو۔ بچے دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔
جناب میں بہت مجبور ہوں۔میرا سارا کاروبار ٹھپ ہوچکا ہے۔
اب ساری نظریں بیٹے پر تھیں لیکن وہ بھی شادی کر کے میری حالت دیکھ کر رفو چکر ہوگیا ۔
ہاں لیکن میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔
خدا کے لیے کچھ کیجئے۔ اگلے ہفتے میری بیٹی کی شادی ہے۔ میں بہت مجبور ہوں ۔ میں مزدوری کر کے آپ کی ایک ایک پائی چکاؤں گا۔ یہ کہتے ہوئے سکندر کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسوں گر گئے۔
اتنے میں تاج الدین کی بیگم بھی کمرے میں داخل ہوئی۔ سکندر کو روتے ہوئے دیکھا اور سمجھ گئی کہ سکندر آج پھر اپنی مجبوری لے کر آیا ہے۔ سکندر کی پُر نم آنکھیں اور اُترا ہوا چہرا اس بات کی گواہی دیتا تھا۔
بھابی آپ ہی بتائیے انہیں ۔ اگلے ہفتے میری بیٹی کی شادی ہے۔ اگر بیس ہزار روپے نہیں ملے تو میری بیٹی تو جیتے جی مر جائے گی ۔اس سے پہلے کہ میں خودکشی کر لوں۔۔۔ اور سکندر پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ماں باپ نے نام سکندر رکھا تھا لیکن آج اس قدر مجبور تھا کہ آسمان بھی اس کی بے بسی پر پشیمان تھا اور زمین بھی۔
تاج الدین کی بیوی نے تاج الدین کو دوسرے کمرے میں بلایا اور سکندر کی سفارش کرنے لگی۔ دیجئے نا بیس ہزار روپے ۔ ہمسایہ ہے ہمارا۔ ہمارا بھی حق بنتا ہے، اس کی مدد کرنا بیٹی کی شادی ہے اُدھار ہی تو مانگ رہا ہے اور بہت ہی نیک اور ایماندار انسان ہے۔ اس کو اب اتنے سالوں سے جانتے ہیں ہم۔
عورت ذات بھی نا ، کم عقلی کی بھی حد ہوتی ہے۔ یہ تو کنگال ہوا ہے۔ اس کا کاروبار بھی چوپٹ ہو چکا ہے۔ کہاں سے لائے گا یہ پیسہ۔ ہاں ہاں مجبور ہے تبھی تو ہم سے مدد مانگنے آیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ پیسہ لوٹا دے گا۔ ۔
نہیں نہیں میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ تاج الدین نے فیصلہ کن انداز میں کہہ دیا۔ بیگم ناراض ہو کر کمرے سے نکل گئی۔تاج الدین بھی غصے سے باہر نکلا اور سکندر کو صاف صاف کہہ دیا کہ میں آپ کی مدد نہیں کر سکتا۔ آپ کے بار بار آنے سے ہمارے گھریلو حالات خراب ہوتے ہیں اور ہمیں آپس میں ناچاکی ہوتی ہے۔ یہ کہنا تھا کہ سکندر روتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔
اگلے ہفتے تاج الدین اپنی پوری فیملی کو لے کر جھیل ڈل کی سیر کو گیا۔ شام ڈھلنے والی تھی۔ ہلکی ہلکی سرخی آسمان پر چھانے لگی تھی۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔ پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھی۔ جھیل ڈل کی خاموشی دعوتِ نظارہ دے رہی تھی۔ جھیل ڈل کے کنارے بیٹھ کر حسین بادلوں اور قوس قزح کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کو من کر رہا تھا ۔تاج الدین اپنی بیوی اور اپنے دو بچوں مہہ جبین اور سرور کے ساتھ شکارے میں بیٹھ کر قہوہ پی رہا تھا اور ڈوبتے ہوئے سورج کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اچانک سے شکارا گھاٹ نمبر 20 کے نزدیک شوروغل ہوا۔ سب لوگ شکارا گھاٹ نمبر 20 کی طرف دوڑنے لگے لیکن تاج الدین اس سب سے بے خبر ڈوبتے سورج کو دیکھ رہا تھا ۔
ذرا آپ بھی دیکھئے کیا بات ہے۔ اتنا شوروغل کیوں ہے۔ بیگم صاحبہ نے تاج الدین سے گھبراتے ہوئے کہا۔ تاج الدین چونک گیا۔ کیوں کیا ہوا؟
اس طرف کافی شور ہے پتہ نہیں شاید کسی نے جھیل ڈل میں کود کر خودکشی کرلی ہے۔
کی ہو گی کسی نے ہم کو کیا؟
نہیں نہیں ذرا دیکھ لیجئے کیا ہوا۔
تاج الدین نا چاہتے ہوئے بھی 20 نمبر گھاٹ کی جانب چل پڑا۔ ابھی چار قدم بھی نہیں چلا تھا کہ دو ادھیڑ عمر کے انسان منہ میں سگار لئے باتیں کر رہے تھی ۔ ارے ہے کوئی بیوقوف شاید نشے میں تھا کود گیا ڈل میں اور دے دی اپنی جان۔ ہاں ہاں اور کیا۔ لوگ بھی جان دینے کو کھیل سمجھتے ہیں ۔ 20 نمبر تک پہنچتے پہنچتے بہت سارے لوگ اسی طرح کی چمہ گوئیاں کرتے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ کسی پاگل نے چھلانگ لگائی ہے تو کوئی کچھ اور کہہ رہا تھا ۔ تاج الدین بھی یہ باتیں سنتے ہوئے 20 نمبر پر پہنچ گیا۔ کافی بھیڑ تھی۔ تاج الدین کے وہاں پہنچتے ہی لوگوں نے راستہ دیا۔ قد آور شخص، ہشاش بشاش، منہ میں سگریٹ لئے اور شانوں پر قیمتی چادر اور سر پر دو منزلہ ٹوپی دیکھ کر لوگوں کو لگا کہ کوئی خاص شخص دیکھنے آیا ہے۔ ایک لاش تھی جس کے اوپر چادر پھیلائی گئی تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے چمہ گوئیاں کر ہی رہے تھے کہ تاج الدین نے اس شخص کے چہرے سے چادر سرکائی۔ چہرہ دیکھتے ہی تاج الدین کا سگار ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی۔ ماتھے سے پسینے کی بوندیں ایسے ٹپکنے لگیں۔ جیسے ہلکی ہلکی بارش کے دوران چھت سے پانی کی بوندیں ٹپکتی ہیں۔ او مائی گاڑ۔ سکندر کی کھلی آنکھیں دیکھ کر تاج الدین کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ سکندر کی مجبور آنکھیں جیسے تاج الدین کی طرف دیکھ کر کہہ رہی تھیں کہ تم ہی میرے قاتل ہو۔ ہاں ہاں تاج الدین میں نے کہا تھا کہ میں مجبور ہوں لیکن تم نے ۔۔۔۔
تاج الدین کی آنکھوں کے سامنے سکندر کی آہ وزاریاں گشت کرنے لگیں۔ وہ من ہی من میں پچتانے لگا۔ ہائے میں نے کیا کر دیا۔ ہائے میں نے کیا کیا۔ سکندر تو واقعی مجبور تھا۔ افسوس میرا صاحب ثروت ہونا بھی کس کام کا۔ہائے میں نے ہمسائیگی کا حق بھی ادا نہیں کیا۔ تاج الدین اپنے آپ سے یہ باتیں ایسے کر رہا تھا اور ایسے تکلیف سے گزر رہا تھا جیسے کوئی اس کے سر پر گرم لوہے کی سلاخیں مار رہا ہو۔
تاج الدین بجھے ہوئے قدموں سے واپس نکلا بیگم اور بچوں کے پاس پہنچا تو تاج الدین کے چہرے سے ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ ماتھے سے پسینہ ٹپک رہا تھا ۔
کیا ہوا کون تھا؟ کس نے خود کشی کی؟.
کچھ نہیں ہوا چلو ہم یہاں سے نکلتے ہیں ۔ تاج الدین نے گھبراتے ہوئے کہا۔
لیکن کیوں ۔
ابھی تو آئے ہیں ۔ کتنی حسین اور خوبصورت شام ہےاور اس پر یہ جھیل ڈل کے حسین نظارے۔
کیابک رہی ہو کہاں کی خوبصورت شام اور کہاں کے خوبصورت اور حسین نظارے۔ آسمان پر بھیانک بادل چھائے ہوئے ہیں اور جھیل ڈل سے بھی خطرناک لہریں اٹھ رہی ہیں ۔ پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے۔ بچوں کو اپنے ساتھ رکھو اور نکلو یہاں سے۔ جلدی نکلو ہم سب کو خطرہ ہے۔ بیگم اور بچے حیرانگی سے تاج الدین کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن ان کی سرخ اور شرارتی آنکھیں دیکھ کر انہوں نے کچھ نہیں کہا اور سیدھے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی تاج الدین نے سگریٹ سلگایا اور ابھی چار قدم بھی نہیں چلے تھے کہ ڈرائیور کو ڈانٹنا شروع کیا ۔
کیا ہوگیا تمہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ حادثہ کرنے کا ارادہ ہے کیا۔ دیکھ نہیں رہے ہو۔ ساری گاڑیاں ہماری ہی جانب آرہی ہیں ۔ کسی طرح سے ہمیں گھر پہنچاؤ۔ اور یہ کیا جھیل ڈل کی لہریں بھی ہمارا پیچھا کر رہی ہیں ۔ او مائی گارڈ ۔ اب کیا ہوگا۔؟ تاج الدین نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور اس کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا۔
بچے سہم گئے کہ ابو کو کیا ہوگیا۔ شاید ابو کا دماغی توازن بگڑ گیا۔ اسی لئے تو اتنی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں ۔ لیکن انہیں کیا پتہ کہ تاج الدین کے ضمیر کی عدالت چلا چلا کر تاج الدین سے کہہ رہی تھی کہ تم سکندر کے قاتل ہو، قاتل ہو قاتل ہو۔۔۔۔ ایک مجبور اور بے بس انسان کے۔ اور عدالت کے فیصلے کے بعد قاتل کا ہواس باختہ ہونا ایک فطری بات ہے۔ اور وہ بھی تب جب عدالت ضمیر کی ہو۔
���
اویل نورآباد، کولگام، کشمیر