خورشید ریشی
انسان کی زندگی بہت قیمتی ہے اور جسم کا ہر ایک اعضاء اپنی اپنی جگہ پر منفرد مقام کا حامل ہے۔کسی ایک اعضاء میں ذراسی کمی یا نقص پیدا ہونے کی وجہ سے انسان کی جسمانی ساخت بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔ دور جدید میں جہاں انسان کو ہر ایک سہولیات میسر ہے وہاں اب وہ زندگی کا زیادہ تر انحصار ٹیکنالوجی پر ہی کرنے لگا ہےاور ہر شعبے میں غیر معمولی ترقی کی وجہ سے اُس نے خود سے استفادہ حاصل کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کو رسل و رسائل کے لئےبھی بہت ساری چیزیں میسر ہیں ، جن کی بدولت اب وہ اتنا سُست اورآرام طلب ہو گیا ہےکہ اُس سے اب ایک کلو میٹر کا سفر بھی پیدل طے نہیں ہوپاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ شہر و دیہات میں سڑکوں کی موجودگی اور اُن کی بہتر صورت حالت کی بدولت بھی سفر آسان اور آرام دہ تو بن گیاہے۔لیکن ہماری غفلت شعاری ، تیز رفتاری جلد بازی اور بے جامشغولات کے باعث آج کل انہی سڑکوں پر موت کا رقص جاری رہتاہے اور انسانی خون سے یہ سڑکیںتر ہوتی رہتی ہے،گویا ہمارے بزرگ، نوجوان، مائیں، بہنیں اور معصوم بچے ہمارے ہی غلط طرز عمل سے حادثات کا شکار ہوکراِنہی سڑکوں کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ آئے روز اخبارات اورسوشل میڈیا کے ذریعے ایسی خبریں آتی رہتی ہیں، جن سے اب ہر شخص کو اپنے عزیز و اقارب کی زندگی کی سلامتی میں تشویش لاحق رہتی ہے۔ ہماری نوجوان نسل انہی سڑکوں پر موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر انتہائی غیر ذمہ دارانہ ،بیوقوفانہ اور بچگانہ طرز عمل کے تحت نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی قیمتی زندگیوں سے کھلواڑ کرتےرہتے ہیں،جہاں کہیں بھی جانا ہو ، اور جس کام کے لئے بھی جانا ہو ،صبر،برداشت اور دور اندیشی سے کام لینے کی ہرگز کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے بلکہ ہر سطح پر اور ہر معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کا نشہ ہر کسی کے دماغ پر چڑھ جاتاہے۔یہی صورت حال بیشتر دوسری فور فیلر گاڑیاں چلانے میں بھی نظر آتی ہے۔ کسی سیاحتی مقام پر جانے،کسی کھیل کے میدان تک پہنچنے یا اپنے گھروں کی طرف روانہ ہونے کے لئے موٹر سائیکل سوار اور دوسری گاڑیاں چلانے والے نوجوان اس انداز میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح کھلاڑی کھیل کے میدان میں ایک دوسرے پر لینا چاہتے ہیں اور اس عارضی سبقت کی خوشی کا اظہار یا تو ہارن بجا بجاکر کیا جاتا ہے یا پھر ایک دوسرے پر جملہ کسنے کی صورت میں بھی ہوتا رہتا ہےاور پھرعموماً یہی صور ت حال انتہائی خوفناک اور جان لیوا صورت حال میں بدل جاتی ہے۔جس سے نہ صرف ڈائیونگ کرنے والے افراد ،بلکہ سڑکوں پر چلنے والی دوسری گاڑیوں میں سوار مسافر وں کے ساتھ ساتھ راہ گیر بھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔گویا اپنی اس شغل خور ی سے جہاں وہ حادثات کو فروغ دے رہے ہیں وہیں اپنے والدین اورافراد خانہ کو درد ناک عذاب و اضطراب مبتلا کردیتے ہیںاور جو مائیں اپنے بیٹے، جو بہنیں اپنے بھائی، جو بچے اپنے باپ اور جو بھتیجے اپنے چچا کے انتظار میں ہوتے ہیں، اچانک حادثے کی خبر سن کر اپنے عزیز کی ہلاکت پر ماتم کنا ں ہوجاتے ہیں۔ان حادثات میں وہ شہری بھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جن کا کوئی قصور ہی نہیں ہوتا لیکن ہماری لا پرواہی اور تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کی وجہ سے ہم گھروں کے گھر ویران کرتے ہیں اور ان حادثات میں زخمی ہونے والے افراد میں سے بعض افراد اپنے جسم کے کسی نہ کسی حصے یا اعضا ء کو گنوا کر عمر بھر کے لیے اپاہج ہوجاتے ہیں۔اب اگر پرائیویٹ ٹرانسپورٹرں پر نظر ڈالیں تو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں وہ بھی صبر و برداشت اور دور اندیشی سے کام لینے کے قائل نہیں ہیں بلکہ اپنے خود غرضانہ طرز عمل اور کوتاہ اندیشی کے تحت تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات یہی تیز رفتاری کسی بڑے
حادثے کا سبب بن جاتی ہے اور انسانی جانیں تلف ہوجاتی ہیں۔ ہمارے یہاں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ شہر ودیہات کی سڑکوں پر پرائیویٹ مسافر گاڑیوں کی جو ریل پیل رہتی ہے ،اُن میں سے اکثر مسافر بسوں اور سومو گاڑیوں کی حالت اس جدید دور میں بھی تیس چالیس سال پرانی والی ہے اور جن کے کئی اوزار وقت پر کام بھی نہیں کرتے ہیں ،اور حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ مسافر گاڑیوں میں سوار بعض مسافر ہی ڈرائیور وں کو تیز سے تیز گاڑی چالانے پر مجبور کرتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں حادثات رونما ہوتے ہیں۔ اسی طرح اوور لوڈنگ کا روایتی مسئلہ بھی حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔یہاں مجھے یہ بات یاد آرہی ہے کہ بچپن میں جب بھی بازار جانے کا موقع ملتا تو کئی بار لوگوں کو یہ دریافت کرتے ہوئے دیکھا اور سُنا کہ تین بجے کی گاڑی کتنے بجے نکلے گی، تب ان دنوں یہ جملہ مجھے عجیب لگتا تھا اور اکثر یہ سوال میرے ذہن میں آتا تھا کہ آخر یہ کیا بات ہے لیکن آج مجھے اس سوال کا جواب ہر ایک بس اڈے میں مل رہا ہے کہ تین بجے کی گاڑی کتنے بجے نکلے گی ،گویا یہاں کسی بھی اڈے سے مسافر گاڑیوں کو مقررہ وقت پر اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہونے کی روایت ختم ہوچکی ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ اوور لوڈنگ کرنا ہوتی ہے، جس کے نتیجےمیں بھی حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ ہمارے ڈرائیور حضرات اپنےدائیں جانب بھی اپنی سیٹ پرایک سواری کو بٹھانےکی فراخ دلی دکھاتے رہتے ہیںجبکہ باقی سواریاں چپ چاپ خاموش تماشائی کا رول ادا کرتی ہیں ،کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس طرح کی صورت حال بھی مسافر بس کے لئے حادثہ کا سبب بن سکتی ہے۔حیرانی کا مقام ہے مسافر بسوں میں سوار کس بھی شخص کی اتنی جرأت نہیں ہوتی ،کہ وہ ڈرائیور سے اس بارے میں کوئی سوال کرے یا ڈرائیور کو ایسا کرنے سے منع کرے۔جبکہ اس صورت حال میں گاڑیوں میں لگے ڈیکس پرموسیقی اور فلمی گانوں کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔اسی طرح ہمارے یہ ڈرائیور حضرات موبائل فون کا استعمال بھی گاڑی چلاتے وقت خوب کرتے رہتے ہیں اورہاں! سیٹ بیلٹ کو اُسی جگہ لگایا جاتا ہے جہاں پر اُن کو ٹریفک اہلکار وں کی موجودگی کا اندیشہ ہو۔
الغرض ہماری شاہراہوں اور سڑکوں پر دوران سفر جب تک یہ سب چیزیں چیزیں ہوتی رہتی ہیں تو میرے خیال میں ان سڑکوں میں موت کے یہ رقص ہوتا رہے گا اور آئے روز ہم اپنے عزیزوں، دوستوں اور رشتہ داروں کوسڑک حادثات میں شکار ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں گے اور جب تک ان ساری باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر نہیں کیا جاتا ،اور ڈرائیور حضرات کو ٹریفک قوانین سے باخبر کرکے ،اُن پر سختی سے عمل کرانے کا پابند نہیں بنایا جاتا ،اسی طرح مسافر کو بھی اپنے سفری حقوق خلاف ورزی سے باز نہیں لایا جاتا تب تک حادثات میں سُدھار آنے کی صورت نظر نہیں آئے گی۔اگر کو ئی مسافر ڈرائیور کو گاڑی کی رفتار بڑھانے پر مجبور کرتا ہے تو اپنے اصول پر قائم کیوں نہیں رہتا۔اسی طرح
ٹریفک پولیس کو ضرورت سے زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے اور اُنہیںانسانی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں کلیدی رول ادا کرنا ہوگا۔