کھڈونی کولگام میں بدھ کے روز محصور عسکریت پسندوں اور فورسز کے مابین جھڑپ کے دوران جس طرح ایک بار پھر 4عام شہری مارے گئے،اُس نے سیکورٹی ایجنسیوں کی حکمت عملی کو موضوع بحث بنا دیا ہے اور مختلف حلقوں کی جانب سے اس ضمن میں مختلف تاویلات پیش کی جارہی ہیں ۔سیکورٹی اداروں کے ذمہ داروں کی جانب سے طاقت کے بے تحاشا استعمال کے حوالے سے جو بیانات سامنے آرہے ہیں وہ نہ صرف تشویشناک بلکہ جمہوری تقاضوں کے منافی بھی ہیں۔ریاستی پولیس سربراہ نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ تصادم آرائیوں کے مقامات پر پتھرائو کرنے والے نوجوان اپنی موت کے خود ذمہ دار ہیں کیونکہ بقول ان کے گولی نہیں دیکھتی ہے کہ آگے جنگجو ہے یا سنگ انداز ۔انہوں نے ایک بار پھر نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ مسلح آپریشنوں میں رخنہ اندازی نہ کریں ۔ پولیس چیف کا بیان اپنی جگہ لیکن ایسے بیانات سے کئی سوالات پید اہوئے ہیں جو تشنہ جواب ہیں۔پہلا سوال یہ ہے کہ آخر نہتے نوجوانوں کو کون محصور عسکریت پسندوںکو بچانے کیلئے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے پر آمادہ کردیتا ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ آہستہ آہستہ اب پورے کشمیر میں یہ ایک روایت بن رہی ہے کہ لوگ عسکریت پسندوں کو بچانے کیلئے فورسز کی گولیاں کھانے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔سیکورٹی یا حکومت کے دیگر ذمہ داران بھلے ہی اس معاملہ میں خاموش رہیں لیکن پیش آمد ہ واقعات اس بات کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ عوامی حلقوں میں عسکریت کی پذیرائی مسلسل بڑھ رہی ہے، جو کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس کے پس پردہ محرکات پر غور کرکے اصلاح احوال سے کام لے اور اسے کشمیر مسئلہ کے تاریخی پس منظرمیں دیکھنے کی کوشش کرے۔سیکورٹی اداروں سے جڑے اہلکارکوئی بے ضابط ملیشیا نہیں کہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہوں بلکہ وہ ایک جمہوری نظام کا حصہ ہیںاور باضابطہ نظم و ضبط کے تابع ہیں اور انہیں ہر عمل سے پہلے اس کے ماحصل پر غور کرنا چاہئے ۔اگر مان بھی لیتے ہیں کہ ایسے نوجوان خود کشی پر آمادہ ہوتے ہیںتو پھر پولیس اور دیگر مسلح دستے وہاں کیا کررہے ہوتے ہیں۔کیا یہ ان مسلح دستوں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ عام شہری کی جان کو ترجیح دیں۔مسلح تصادم آرائیوں اور مظاہرین سے نمٹنے کیلئے باضابطہ طور آپریشن ضوابط وضع کئے گئے ہیں اوراس بات پر شدت سے زور دیا گیا ہے کہ کسی بھی صورت میں انسانی جانوں کے ضیاع سے اجتناب کیا جائے لیکن گزشتہ دو برسوں کے دوران یہاں جو کچھ ہورہا ہے ،وہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ آپریشن ضوابط کو بالائے طاق رکھا گیا ہے۔2017سے اب تک ایسے حالات میں68عام شہریوں کی جان گئی ہے جبکہ صرف اس سال ایسے واقعات میں اب تک 20لوگ مارے جاچکے ہیں۔یہ اعداد وشمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں عسکریت پسندوں کو مارنے کی جلدی میں فورسز اہلکارنہتے شہریوں کو ڈھیر کرنے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں۔ 4مارچ2018کو جب شوپیاں کے مضافاتی گائوں پہنو میں ایک معرکہ آرائی کے دوران دو عسکریت پسند اور4عام شہری مارے گئے تو ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے سیکورٹی ایجنسیوں کا ہنگامی اجلاس بلا کر انہیں تلقین کی کہ وہ آپریشن ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہوجائیں تاکہ مسلح تصادم آرائیوں کے دوران شہری اموات کو روکا جاسکے ۔اس کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ شاید اب ایسی ہلاکتوں پر روک لگ جائے گی لیکن ایسا نہ ہو ا ۔اس کے بعد یکم اپریل کو شوپیاںکی سرزمین پھر لال ہوئی اور چار نہتے شہری کو تصادم آرائیوں کے مقامات پر گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ان ہلاکتوں پرجب عوامی حلقوں کی جانب سے شدید برہمی کا اظہار کیاگیا تو وزیراعلیٰ نے پھر3اپریل کو سیکورٹی ایجنسیوں کااجلاس طلب کرکے اپنی سابقہ تلقین کا اعادہ کیا اور فورسز پر زور دیا کہ وہ ہجوم سے نمٹنے اور انسداد عسکریت آپریشنوں کے دوران آپریشن ضوابط پر سختی سے عمل کریں ۔ابھی اس تازہ ہدایت کو دئے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ بدھ کو پھر کھڈونی میں فورسز کی گولیوں کا شکار ہوکر چار نوجوان ابدی نیند سوگئے ۔ ان واقعات سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ زمینی سطح پر امن و قانون کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تعینات اہلکار یا تو حکام بالا کی ہدایات سے صرف نظر کر رہے ہیں یا پھر ان کیلئے ایسی ہدایات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔سیکورٹی ادارے، خاص کر پولیس کچھ بھی کہے لیکن وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کی اولین ذمہ داری سے پلو نہیں جھاڑ سکتے ۔سیکورٹی ایجنسیوں کی یہ منصبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انتہائی سنگین حالات میں بھی عوامی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں تاہم عملی طور پر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔اس طرح کا اپروچ نہ صرف زمینی سطح پر ایک منتخب عوامی حکومت کی ساکھ ختم کررہا ہے اور عوام کا نظام سے اعتبار یکسر ختم ہورہا ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں کسی بھی وقت حالات کے بھیانک کروٹ لینے کا اندریشہ پیدا ہورہا ہے،جس کی ریاست خاص کر وادی کشمیر فی الوقت قطعی طور متحمل نہیں ہوسکتی ہے ۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جب طاقت کا بے تحاشااستعمال اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو اس کا ردعمل بھی پُر تشدد ہی ہوتا ہے ۔یہی فارمو لا کشمیر کے موجودہ حالات پر بھی صادق آتا ہے۔اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ طاقت کے استعمال سے عوامی اُبال کو روکا جاسکتا ہےاور شہری ہلاکتوں سے قبرستان کی خاموشی قائم کی جاسکتی ہے تو یہ ایک نادانی ہوگی کیونکہ جتنی شدت سے عمل ہوگا اتنی ہی شدت سے عوام کا ردعمل سامنے آنے کا خدشہ خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا اور پھر صورتحال قابو سے باہر بھی ہوسکتی ہے ۔اسی لئے ارباب اختیار کو ہوش و حواس سے کام لیکر شہری ہلاکتوں کے اس خوفناک سلسلہ پر روک لگانے کے جتن کرنے چاہیں۔تاکہ حکومتی نظام اور عوام کے درمیان مسلسل وسیع ہورہی خلیج کو کسی حد تک پاٹا جاسکے، جو ریاست اور عوام دونوں کے مفاد میں ہے۔