مشرق ِبعید میںواقع جزیرہ نما کوریا میں امریکی سامراج اور شمالی کوریا کے درمیان ٹکرائو کی وجہ سے تباہ کن ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا فوری خطرہ پیدا ہوگیاہے۔ جس سے بجاطورپر دُنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جارہاہے۔ کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے جو تباہی وبربادی ہوسکتی ہے ۔ اس کا اندازہ لگانا بھی فی الحال ناممکنات میں سے ہے۔ امریکی سامراج نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے عسکریت پسند حکمرانوں کوہتھیار ڈلوانے کے لئے پہلی بار ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیاتھا۔ جس نے جاپان کے دو شہروںناگا ساکی اور ہیروشیما میں ایٹم گرا کر جوتباہی وبربادی مچائی تھی۔ اس کی یاد کرکے اب بھی عالم انسانیت کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 1945میںیہ ایٹم بم گرائے گئے تھے۔ اس واقعہ کو 72برس بیت گذر چکے ہیں۔ اس عرصہ میں ایٹمی توانائی نے مزید تر ترقی کرکے ہائیڈروجن بم اور ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی کاریوں کی قوت میں کئی گنا اضافہ کردیاہے۔ اس وقت یہ بم ہوائی جہازوں کے ذریعہ گرائے گئے تھے۔ لیکن اب تو دور مار میزائیلز بھی وجود میں آ چکے ہیں۔ جن کے ذریعہ ہزاروں میلوں کی دوری سے بھی ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا جاسکتاہے۔ اس سے اندازہ ہوسکتاہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے کس قدر سروناش ہوسکتاہے۔ اس لئے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے عالم انسانیت کا پریشان اور فکر مند اورتشویش مند ہونا قدرتی ہے۔ بدیں دُنیابھرمیں مشرق بعید میں متوقع ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خطرہ سے زبردست تشویش پائی جاتی ہے۔ اور دُنیا بھر میںاس خطرہ کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔
اِن تباہ کُن ہتھیاروں کی ایجاد امریکی سامراج کا کارنامہ ہے۔ لیکن بعدازاں برطانیہ اور فرانس بھی ایٹمی طاقت بن گئے اور اس وقت کے سوویت یونین نے بھی سامراجی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایٹمی ہتھیاروں میںدسترس حاصل کرلی۔ بعد زاں چین بھی ایٹمی ہتھیاروں کے حصول میںکامیاب ہوگیااور پانچ بڑی طاقتوں کے پاس ایٹمی ہتھیارآگئے۔ اس کے بعد ہندوستان اورپاکستان بھی ایٹمی طاقتوں کے کلب میں شامل ہوگئے۔ اور کہا جاتاہے کہ اسرائیل کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ لیکن جس کا اعلانیہ اظہار نہیںکیا جاتاہے۔ اب شمالی کوریامیں بھی نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی کلب میں شامل ہوگیاہے۔ بلکہ اس نے ایسے میزائل کا بھی تجربہ کرلیاہے جو ہزاروں میل دور امریکہ تک مار کرسکتے ہیں۔ اس لئے ایٹمی ہتھیاروں کا مسئلہ اب عالم گیر صورت اختیار کرگیاہے۔
ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے لازمی ہے کہ اقوام عالم کوئی ایسا منصوبہ بنائیں۔ جس سے نہ صرف موجودایٹمی ہتھیار ہی ضائع کردئیے جائیں۔ بلکہ یہ ہتھیار بنانے والے آلات کا بھی خاتمہ کردیا جائے۔ عالمی مفادات انسانیت کے بقاء اور تباہ کن ایٹمی جنگوں سے بچنے کا یہی طریقہ ہے۔ اور تمام انسانیت پسند،امن پسند، آزادی نواز، انسانی ترقی کے علمبرداروں کا یہی مطالبہ ہے۔ لیکن جن ممالک کے پاس یہ ہتھیاور اور انہیں بنانے والے آلات موجود ہیں۔ وہ اپنی دھونس اوربرتری کو قائم رکھنے کے لئے ایسا کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیںہیں۔ لیکن جنگی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے اور عالم انسانیت کو خاکستر ہونے سے بچانے کا علاوہ ازیں کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے اور ایٹمی ہتھیاروں اور ان کے بنانے والے آلات کی موجودگی ہر وقت انسانی قدروں کو مٹانے کا وجود موجود رکھے گی۔ عالم انسانیت کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوںسے بچانے کا صرف یہی طریقہ کار ہے۔ کوئی اورنہیں۔ اس لئے عالمی رائے عامہ کااس سلسلہ میں متوجہ ہونا لازمی اور ضروری ہے۔
جن ملکوںکے پاس ایٹمی ہتھیارورں اور ان کے بنانے والے ہتھیاروں کی اجارہ داری ہے۔ انہوںنے ایٹمی ہتھیاروں کو پھیلنے سے روکنے کے لئے نئے ممالک کی طرف سے ایٹمی ہتھیار بنانے کی ممانعت کے لئے پابندیاں عائد کرنے کا طریقہ کار اختیار کیاہے۔ لیکن دیگر کئی ممالک نے بھی ان پابندیوں کے باوجود ایٹمی ہتھیاربنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ شمالی کوریا بھی ان ممالک میںایک ہے ۔ جس نے تمام تر عالمی پابندیوں کے باوجود نہ صرف ایٹمی توانائی کا علم حاصل کیاہے۔ بلکہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنانے کے علاوہ دورمار کرنے والے میزائل بھی تیار کر لئے ہیں۔ اس لئے امریکی سامراج خطرہ محسوس کررہاہے۔ اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
البتہ شمالی کوریا اور امریکی سامراج کے درمیان ٹکرائو کو سمجھنے کے لئے اس کے پس منظر کو سمجھنا اشد ضروری ہے۔ جزیرہ نما کوریا پر دوسری جنگ عظیم سے پیشتر جاپانی عسکریت پسندوں نے قبضہ کرلیاتھا اور اُسے نوآبادی بنالیاتھا۔ کوریائی عوام نے جاپانی سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لئے بیش بہاقربانیاں دیں اور آخر کار دوسری جنگ عظیم ختم ہونے سے پیشتر ہی موجودہ شمالی کوریا میں گوریلا جنگ کے ذریعہ کوریا ئی کمیونسٹ پارٹی کی زیرِقیادت اپنی جمہوری حکومت قائم کرلی۔ جاپان کی شکست کے بعد امریکی سامراج نے کوریائی خطہ میں اپنے پائوں جمانے کی کوشش کی اور امریکی افواج کوریا میں داخل ہوگئیں۔ جن کامقابلہ شمالی کوریا میں قائم کمیونسٹ سرکار نے مردانہ وار طریقہ سے کیا۔ امریکہ نے اپنے مشہور فوجی جرنیل میکارتھر کو بھی امریکی افواج کا کماندر انچیف بنا کر کوریا بھیجا۔ زبردست خون ریز جنگ کئی برس تک جاری رہی۔ اس وقت بھی شمالی کوریا کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن شمالی کوریا کے بہا در عوام نے 38پیرلل سے آگے امریکی افواج کو ایک قدم بھی آگے نہ بڑھنے دیا۔ بے شک اس جنگ میں عوامی جمہوریہ چین کے رضاکاروں اور سوویت یونین کی حمایت شمالی کوریا کی کمیونسٹ سرکار کو حاصل رہی اور امریکہ کو زبردست شکست فاش کا سامنا کرناپڑا۔ لیکن جنوبی کوریا کوا س اپنے نئی نوآبادی بنا کرشمالی کوریا کے خلاف سازشیں جاری رکھیں۔ اِسی پس منظر میں شمالی کوریا کی سرکارنے امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کی اور اس میں کامیابی حاصل کی ہے اور اب امریکی سامراج تلملا رہاہے۔ امریکی سامراج نے بارہاء شمالی کوریا میں سازشوں کے ذریعہ وہاں کی سرکار کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اُسے اس میں کامیابی حاصل نہیںہوئی ہے۔
جس طرح امریکی سامراج نے عراق کے صدام حسین کے خلاف تباہ کن ہتھیار رکھنے کا الزامات لگائے تھے اور رائے عامہ کو گمراہ کرکے پابندیاں عائد کی تھیںا ور پھر صدام حسین کا تختہ اُلت کر عراق پر قبضہ کرکے اپنی پٹھو حکومت قائم کرلی ہے۔ اور صدام حسین کو ہلاک کردیاتھا۔ لیبیا میں کرنیل قذافی کے خلاف واویلا کرکے پہلے پابندیاں لگا کر اورپھر برائے مداخلت کرکے قذافی کا تختہ اُلٹ کر کے اُسے ہلاک کردیا گیاتھا۔ اور وہاں اپنی پٹھو سرکار قائم کرلی ہے۔ جس طرح افغانستان میںاسامہ بن لادن کی موجودگی کی آڑ میں افغانستان میں افغانستان پر قبضہ کرکے وہاں اپنی پٹھو حکومت قائم کرلی ہے۔ جس طرح مصر میں منتخبہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر اپنا فوجی پٹھو راج قائم کرلیاہے۔ وہی طریقہ کار اختیار کرکے وہ کوریامیں موجودہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر وہاں کے لیڈروں کو ہلاک کرنے کا خواہاںہے۔ لیکن وہاں کی لیڈر شپ نے مقابلہ کی ایٹمی طاقت بن کر اُس کی کوششوں کو ناکام کردیاہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی اور صدر منتخب ہونے کے بعد بھی اعلان کیاہے کہ اگر شمالی کوریا نیوکلیائی اور میزائل تجربات سے باز نہ آیا تو وہ ایٹمی طاقت کے ذریعہ شمالی کوریا کو نابود اور خاکسترکردیںگے۔ اور اُسی طرح کے منصوبہ کے تحت امریکہ اور جنوبی کوریا کی ہوائی افواج نے شمالی کوریا کی سرحد پر ہوائی مشقیں شروع کردی ہیں ۔ جو کہ ایٹمی ہتھیاراستعمال کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ امریکہ کے ذہن میںہے کہ وہ شمالی کوریا کوایٹمی حملہ کا نشانہ بنا کر اُس کے ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی ہتھیار بنانے والے آلات کو تباہ وبرباد کرکے شمالی کوریا کو فتح کرلے گا اور پھر شمالی کوریا کو جنوبی کوریا میں ضم کرکے اپنی پٹھو جنوبی کوریا کے حوالے کرکے پورے جزیرہ نما کوریا میں اپنی پٹھو حکومت قائم کرلے گا۔ کیونکہ جنوبی کوریا کی پٹھو حکومت اب بھی اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ وہ جزیرہ نما کوریا کوایک کرکے اپنا راج قائم کرے گی۔ لیکن اب ٹرمپ کی یہ خواہش سرے چڑھنی ممکن دکھائی نہیںدیتی۔ کیونکہ شمالی کوریا نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں اور اُن کے بنانے والے آلات کے لئے اخباری اعلانات کے مطابق ایسا موبائیل میکنزم دریافت کرلیاہے۔ جس سے وہ اپنی ایٹمی ہتھیار وں کو کسی بھی حملہ سے محفوظ رکھ سکتاہے اور پھر جوابی حملہ کرکے میزائلوں کے ذریعہ امریکہ کے کئی شہروں کو ایٹمی حملہ کا نشانہ بناسکتاہے۔
علاوہ ازیں روس اور چین کی ایٹمی طاقتیں شمالی کوریا کے متعلق کوئی تحفظات رکھنے کے باوجود یہ ہرگز گوارہ نہیں کریںگی۔ کہ امریکی سامراج اپنی پٹھو حکومت کے ذریعہ اُن کی سرحدوں تک رسائی حاصل کرلے۔ اگرچہ امریکی سامراج نے جاپان اور جنوبی کوریا پر مشتمل شمالی کوریا پر حملہ کے لئے مشترکہ محاذ بنا رکھاہے۔اندریں حالات مشرق ِبعید میںقیام امن اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے بچنے کی ایک ہی صورت باقی بچتی ہے کہ حقیقت پسندی کارویہ اختیار کرکے امریکی سامراج ، عراق کے صدام حسین اور لیبیا کے قذافی م افغانستان کے طالبان کی طرح سبق سکھانے کا رویہ ترک شمالی کوریا کی موجودہ سرکار کو تسلیم کرکے اپنی خوابوں کاایک پٹھو کو ریا بنانے کے عزائم کوترک کردے اور شمالی کوریا کو نیوکلئیر طاقتوں کے ہلاک کا حصہ تسلیم کرکے ذمہ دار ایٹمی طاقت کے طورپر قائم رہنے کاموقع دے۔ لیکن کیا عالمی رائے عامہ اس حقیقت پسندانہ حقیقت قبول کو کرنے کے لئے امریکی سامراج کو مجبور کرسکتی ہے۔ اس پر مشرق بعید کے اس خطہ کو ایٹمی ہتھیاروں سے بچنے کا جواب مضمرہے۔
امریکی سامراج کا موجودہ سربراہ ٹرمپ کیارویہ اختیار کرناہے۔ اس کے متطق ابھی وثوق سے کچھ نہیںکہا جاسکتا۔ مثلاً امریکہ کے صدر اوباما کے دورِ صدارت میں امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک نے ایران کے ساتھ ایک باضابطہ معاہدہ کیاتھا کہ اگر ایران ایٹم بم بنانے کے منصوبہ سے اجتناب کرے تو اُس پر تمام تر پابندیاں ختم کردی جائیںگی۔ لیکن اب امریکی صدر ٹرمپ اس معاہدہ کو یک طرفہ طورپر ختم کرنے کی دھمکیاں دے رہاہے اور دیگر کئی عرب ممالک کا اتحاد قائم کرکے ایران کو گھیرنے کی کوشش کررہاہے۔ جواباً ایران نے بھی کہاہے کہ اگرا یسا کیاگیا تو وہ ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کے معاہدہ سے دستبردار ہوسکتاہے۔ جب تک امریکی سامراج ایٹمی طاقت کے بل بوتے پراپنا موجودہ جارحانہ رویہ ترک نہیںکرتا۔ تب تک نہ وہ مشرق بعید بلکہ دنیا کے کسی خطہ میں بھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال روکنے کی کوئی گارنٹی نہیںہے۔ اورنہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکا جاسکتاہے۔
اندریں حالات عالمی رائے عامہ کے لئے لازمی ہے کہ جہاں تباہ کن ایٹمی ہتھیاروں اور اُن کو بنانے والے آلات کو مکمل طورپر ضائع کرنے کی آواز بلند کرے۔ وہاں شمالی کوریا سمیت ہر ملک میں اپنی پسند کی حکومت قائم رہنے کی آواز بلند کرتے ہوئے شمالی کوریا سمیت سبھی ایٹمی طاقتوں کو مناسب مقام دے۔