سابقہ ایام میں وادیٔ کشمیر میں کشمیری مسلمان اتنے سادہ اور معصوم ہوا کرتے تھے بس یوں سمجھئے کہ ان کی سادہ مزاجی کی زبان زدہ عام باتیں سننے کی بجائے دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں،مگر زمانے کو لوٹا یا نہیں جاسکتا اس لئے فیس بیک کی ایک رپورتاژ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ شاعر کے الفاظ میں ان دنوں عالم یہ تھا ؎
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
یہ باتیں تاریخ کی کتابوں میں بھی مندرج ہیں اور ہمارے بڑے بزرگ بھی ہمیں سناتے رہتے تھے کہ کشمیری مسلمان کو سرکاری حکم کے بموجب پولیس چوکی یا تھانہ کی جانب سے بذریعہ نمبردار یا ذیلدار اور پھر گائوں کے مقدم سے حکم ملتا تھا کہ گریز اور تلیل وغیرہ دور دراز جگہوں پر گیری زن (garrison) یا وہاں مقیم ڈوگرہ فوجیوں کیلئے راشن پہنچانا ہے ،کیونکہ برف کی وجہ راستے ناقابل عبور و مرور ہوچکے ہوتے تھے۔ اُس جبری مزدوری یا بیگار کے لئے اُنہیں کوئی معا وضہ ملتا نہ اُجرت بلکہ وہ ایک ٹھیٹ جبریہ استحصال ہواکرتا تھا۔ تو ایسے موقعوں پر وہ کوئی ہو ںہاں یااحتجاج نہیں کرتے تھے بلکہ بلاچوں چرا اپنے جسم کے گرد ایک چادر لپیٹ کر، پائوں میں گھاس کے چپل (پُلہ ہور) ڈال کر اور دوچار جوڑے ایکسٹرا ساتھ رکھ کر یا راستے میں بنانے کے لئے خشک گھاس کا پُولا ساتھ لے کر چل پڑتے تھے۔ راشن اپنی مطلوبہ مقام پر پہنچاکر بہت کم لوگ واپس آتے تھے، کچھ راستے اور موسم کی سخیتوں کی نذر ہوجاتے تھے اور زندہ بچنے والوں کو ڈوگرہ سپاہی چینی کتوں کے عوض فروخت کرتے تھے۔ یہ ایک سوئے اتفاق ہے کہ آج اتنا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی جموں کے بعض مہاشئے جموں کو ترقی کی معراج پرلے جاکر وادی کو پھر اُسی سطح پر لانے کیلئے کوشاں ہیں جب شقدر، کو توال اور ڈوگرہ حاکموں کا زمانہ تھاا ور کشمیری مسلمان صرف ’’ہاتو‘‘ تھا۔ بہر حال ویسے بھی ایک انسان سخت جان ہی سہی مگر برف زاروں میں بغیر کسی معقول انتظام کے کتنی سختیوں کو جھیل سکتا ہے، وہ بھی جب پیٹ میں دانہ اور پائوں میں جوتا بھی نہ ہو۔ اس طرح اُس دیہاتی کشمیری مسلمان کو کار پردازنِ حکومت نے کبھی انسان ہی نہیں سمجھا تھا۔
جیسا کہ آگے ہی ایک بار میں نے قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے لکھتا تھا کہ جو لوگ سردیوں کے دوران (خاص طور پر گائوں کے لوگ) پنجاب مزدوری کے لئے جاتے تھے تو لوٹتے وقت ڈوگرہ سپاہی، کسٹم والے یا کوئی امیر آدمی اُن کی کمائی ہوئی پونجی ہتھیالیتا تھا اور کبھی کبھی ہفتوں تک پانی زمین جوتنے اور سنبھالنے کی بیگار بھی لیتا تھا مگر یہ مائی کا لال اُف تک نہ کرتا تھا اور ظلم و استحصال آسانی کے ساتھ سہہ جاتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ؎
سچ تو یہ ہے کہ ہوائوں کاکوئی دوش نہ تھا
جو دیا تیل سے محروم تھا جلتا کیسے
اس ضمن میں اور بھی دوباتوں کا خاص طور سے ذکر کرتا چاہوں گا اور مجھے یقین ہے کہ ایسا آج تک کسی اور قوم کے ساتھ نہیں ہوا ہوگا۔ دور جہالت میں اگر کبھی ہوا تھا تو ایسی کوئی دستاویز میری نظروں سے نہیں گزری ہے۔ سن 1846ء میں جب ہم سکھ دور حکومت میں ظلم و جبر، سیاسی سماجی حتیٰ کہ مذہبی استحصال کے ساتھ جھو ج ہی رہے تھے تو کشمیریوں کو ڈوگرہ مہاراجہ گُلاب سنگھ کے ہاتھوں مال و جائیداد،آل و اولاد، پیڑپودے اور پھول و پھونس کے ساتھ مبلغ پچھترلاکھ روپیہ نانک شاہی میں فروخت کیا گیا۔ اب سادگی دیکھئے کہ وہ غیروں سے غیروں کے ہاتھوں میں بک گئے مگر وہ ایسا بھی کھلی آنکھوں سے سہہ گئے۔ کوئی احتجاج، کوئی شور شرابہ نہیں، کمال ہے!!!!جانوروں سے بدتر انسانوں کی زندگی دیکھ کرایک عیسائی انگریر نے شور شرابہ کیا تھا مگر اُسے ڈوگرہ مہاراجہ نے قتل کر ڈالا۔ سرینگر کی فارسٹ گلی میں میلن سن سکول کے قریب رابرٹ تھارپ کا مرقد کشمیریوں کی بدنصیبی پر آج بھی اانسو بہارہا ہے۔ انگریز بے یارو مددگار لوگوں کو براعظم افریقہ کے مختلف ملکوں سے پکڑکر اور غلام بناکر غلاموں کی منڈیوں میں بیچ ڈالتے تھے۔ مشرق و سطحی میں بے یارو مددگار کسی بیخ و بُن کے بغیر لاوارث لوگ اور کچھ جنگیں ہار کر غلام ہوجاتے تھے۔ اگر اُن کی خریدوفروخت ہوتی تو بھی کوئی بات تھی مگر یہاں ملک و مکان اور گھر بار والے ایک مکل کے پشتینی باشندوں کا سودا ہوا اور لوگوں نے چوں چرا بھی نہیں کیا۔ یہ میرا کہنا نہیں ہے مگر آنے والا زمانہ اس بارے میں ضرور سوال کرے گا۔
کہتے ہیں کہ ایک گائوں سے ایک دولہا بارات لے کر گیاا ور دُلہن کو لے کر واپس اپنے گائوں میں پہنچ گیا۔ اُن دنوں جنگلی جانوروں سے حفاظت کی خاطر گھروں کے آگے مٹی سے بنی کچی دیواریں یا کانٹے دار کاٹھ کباڑ کی باڑ ہوتی تھی۔ ابھی دولہا وہ باڑ عبور کرکے اپنے صحن میں داخل بھی نہ ہوا تھا کہ سرکاری کارندے اُس کو پکڑکر ے گئے اور برف زاروں کی جانب بیگار پر روانہ کردیا۔ چند گھنٹوں کا وہ دولہا جس نے دلہن کا مُنہ بھی نہیں دیکھا تھا ، پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ عمر بھر اپنے دولہے کا راستہ تکتے تکتے اُس نیم بیوہ کی آنکھیں پتھرا گئیں اور پھر اس کی روح بھی تھک ہار کر قفس عنصری سے پرواز کرکے تراگہ بل کے اونچے اونچے برفیلے ٹیلوں کے اُس پار گریز اور تلیل کے اُجلے اودھے برف زاروں میں اپنے دولہے کو تلاش کرنے نکل پڑی۔کہتے ہیں سن 1947ء میں ڈوگرہ راج کے اختتام کے بعد اُس دلہن کی تلاش ختم ہوگئی ۔ اُس کی تلاش تو ختم ہوئی مگر ہمارے لئے جو شام غم شروع ہوئی ہے وہ کب ٹلے گی؟ ٹلے گی بھی کبھی یا نہیں حتمی طور سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
ویسے شام غم پر کب تک آنسو بہا تے رہیں گے؟ ایک دن عقابی روح ان صدیوں سے پچھڑے انسانوں میں ضرور بیدار ہوگی اور اُن کو اپنی منزل کوخودد بادلوں کے پار نظر آئے گی۔ مجھے کمیونزم یا کسی اور ازم پر نظر نہیں ہے،مجھے صرف اپنی قوم کی بدحالی اور بدنصیبی پر نظر ہے۔ اس قوم نے بہت دنوں سے ایک آزاد اور خود مختار انسان کی طرح زندگی نہیں گزاری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ لوگ بھوکوں نہیں مرتے مگر جب برسرتعلیم بچوں کو ہندوستان کے مختلف شہروں سے ’’دہشت گرد ‘‘کا نام دے کر شہر بدر کیا جاتا ہے اور اُن پر’’ بغاوت‘‘ کا الزام بھی لگایا جاتا تو وہ رسوائی اور ذلت سے مرنے سے کم ترہے؟۔ مانا یہاں سے آئی اے ایس اور کے اے ایس بھی نکلتے ہیں مگر وہ صرف وزنِ شعر کے لئے ردیف قافیے ہوتے ہیں۔ یہاں رنگِ تغزل کون دیکھتا ہے یہاں تو ہمیشہ مرثیے ہی پڑھے جاتے ہیں۔ بقول شرافت حُسین ؎
ہمیں شروع سے بیساکھیوں کی عادت تھی
گرے نہ ہوتے اگر پائوں پر کھڑے ہوتے
………………………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995